• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں وزارت پانی و بجلی کے حکام کے اس اعتراف سے بجلی کے صارفین کو شدید جھٹکا پہنچا ہے کہ ملک کے مختلف ڈیموں کے لیے بھاری شرح سود پر حاصل کئے گئے ملکی و غیر ملکی قرضوں کا تمام تر بوجھ صارفین پرڈالا جا رہا ہے۔ لائن لاسز اور ٹیرف پر مشتمل سرچارج اس کے علاوہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں اور ٹیرف میں کمی کے باوجود صارفین کو مناسب ریلیف نہیں مل سکا اور انہیں بجلی کے بھاری بل ادا کرنے پڑ رہے ہیں کمیٹی کے چیئرمین سید خورشید شاہ کی زیر صدارت گزشتہ روز منعقد ہونے والے اجلاس میں وزارت پانی وبجلی کی جانب سے گردشی قرضوں اور پن بجلی کے منصوبوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ موجودہ حکومت کے دور میں بجلی کی پیداوار میں اضافے کی وجہ سے گردشی قرضوں کا حجم 321ارب تک پہنچ گیا ہے۔ واپڈا پر مختلف منصوبوں کے 300ارب روپے کے قرضے واجب الادا ہیں جن پر سالانہ 30سے 35ارب روپے سود کی مد میں ادا کرنا پڑتے ہیں بجلی کے مجموعی لائن لاسز 17.9فیصد ہیں۔ سب سے زیاد لائن لاسز سندھ کے اضلاع سکھر اور حیدرآباد میں ہیں۔ قرضوں کا سود، لائن لاسز اور ٹیرف سرچارج صارفین پر ڈال دیا گیا ہے جس سے تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کے باعث دیئے جانے والے ریلیف کے باوجود صارفین کو بھاری بل ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔ ان میں گھریلو صارفین کی تعداد سب سے زیادہ یعنی 86 فیصد ہے۔ لائن لاسز کی بنیادی وجہ 1960میں قائم کئے جانے والے 66کے وی کے گرڈ سٹیشنز اور بوسیدہ انفرااسٹرکچر ہے۔ بجلی کی چوری اس کے علاوہ ہے، کمیٹی نے ہدایت کی کہ66کے وی کے گرڈ اسٹیشنز 132کے وی میں تبدیل کئے جائیں۔ حکومت کو چاہئے لائن لاسز پر قابو پائے اور صارفین خاص طور پر گھریلو صارفین پر سرچارج کم کرے۔

تازہ ترین