• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جے آئی ٹی رپورٹ حقیقی، بامعانی اور نتیجہ خیز جسٹس کے لئے اختیار کیے جانے والے انصاف پر مبنی طریق ِ کار کی حمایت میں بذات ِ خود ایک مضبوط دلیل ہے ۔ پاناما کیس میں تین رکنی اکثریتی بنچ نے درست فیصلہ کرتے ہوئے وزیر ِاعظم اور اُن کے خاندان کے خلاف الزامات کی تحقیقات عدالت کی نگرانی میں کرانے کا حکم دیا ۔ جے آئی ٹی رپورٹ نے شریفوں کی وضاحت اور بیانیے کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا ۔ اب اُن کے پاس جے آئی ٹی کی رپورٹ کوسپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا موقع ہوگا ۔ عدالتیں فیصلہ قیاس کی بجائے سچ کی بنیاد پر کرتی ہیں۔ اور سچ وہ ہوتا ہے جسے ٹھوس حقائق کی تائید حاصل ہو۔
ہم نے فی الحال پی ایم ایل (ن) کو جے آئی ٹی کے مواد پر مربوط اور مدلل تنقید کرتے نہیں سنا۔ حکمران جماعت تین دلائل کو آگے بڑھا رہی ہے ۔ پہلا یہ کہ جے آئی ٹی اپنی تشکیل کے اعتبار سے متعصب تھی ۔ اس کا اختیار کردہ طریق ِ کار غیر منصفانہ تھا (اس نے قطری کا انٹرویو نہیں لیا )اور اس نے شریفوں کا منفی تاثر اجاگر کرنے کے حربے اپنائے ۔ دوسرا یہ کہ صرف نوازشریف کو احتساب کا ہدف بنانے والا عمل متعصبانہ کارروائی ہے جس کا مقصد منتخب شدہ وزیر ِاعظم اور جمہوریت کو ایک برائی بنا کرپیش کرنا ہے ۔ تیسرا یہ کہ نواز شریف کے خلاف بدعنوانی یا اپنے اختیار کے ناجائز استعمال کا کوئی الزام نہیں ، چنانچہ اُنہیں مستعفی ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
یہ دلائل کمزور ہیں۔ مانا کہ جے آئی ٹی کے ارکان کے چنائو نے ایک تنازع کو جنم دیا تھا، نیز اس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کی شمولیت بھی غیر ضروری تھی ۔ فرض کرلیتے ہیں کہ جے آئی ٹی متعصب تھی اور اس کا واحد مقصد نواز شریف کو زک پہنچانا تھا ۔ اس نے شریفوں کی اپنے دفاع کے لئے پیش کردہ وضاحت کا خوردبینی جائزہ لے کر اس میں جھول تلاش کیے ۔ اگر شریفوں کی کہانی میں کوئی ابہام ،جھول یا بناوٹ نہ ہوتی تو کیا کوئی متعصب جے آئی ٹی اس میں تضادات تلاش کرسکتی تھی ؟تحقیقات کا مقصد حقائق کو بے نقاب کرنا ہوتا ہے ۔ کیا یہ حقائق جے آئی ٹی نے خود تراشے تھے ؟اگر ایسا تھا تو اگلے ہفتے شریفوں کے پاس اس من گھڑت رپورٹ کو ایکسپوز کرنے کا موقع ہوگا۔
من گھڑت کہانیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کا کوئی سرپیر نہیں ہوتا۔ شریفوں کی پیش کردہ پہلی کہانی کے کئی ایک پہلو تھے، اور تھیوری کے اعتبار سے ہر ایک اپنی جگہ پر سچ دکھائی دیتا تھا۔ لیکن جب اُنہیں باہم ملایا گیا تو وہ ایک ناقابل ِ یقین کہانی کی شکل اختیار کرگئے ۔ تراشی گئی دیومالائی کہانی یہ تھی کہ لندن فلیٹس کی ملکیت کی وضاحت کے لئے شریفوںکو کسی منی ٹریل ، فلیٹس کی ٹرانسفر یا دستاویز کی ضرورت نہیں۔ اس مقصد کے لئے اہل ِخانہ کے بیانات اور قطری مہربان کی تصدیق ہی کافی ہوگی ۔ لیکن تادم ِ تحریر اس کی کوئی قابل ِ اعتبار وضاحت پیش نہیں کی گئی کہ اتنی بھاری رقم پاکستان سے باہر کس طرح منتقل کی گئی ۔
متعصبانہ احتساب کی دلیل احتساب کے عمل کو معطل کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار وسیع کرنے کے لئے ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں احتساب کی تاریخ احتساب کی تلوار استعمال کرتے ہوئے ناپسندیدہ سیاست دانوں کو راستے سے ہٹانے سے عبارت ہے ۔ اس ضمن میں اشرافیہ کے درمیان البتہ ایک وسیع ترمفاہمت پائی جاتی ہے کہ (انگریزی محاورے کے مطابق) سیبوں کی ٹرالی کو نہ الٹا جائے ۔ اس کا مطلب ہے کہ دوسرے کے منصوبوں کو سبوتاژ نہ کیا جائے مبادا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔ تاہم طاقتور اسٹیبلشمنٹ اس مفاہمت کو اس وقت الٹ دیتی ہے جب سیاست دان ہاتھ سے نکلتے دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست دانوں کے برعکس اسٹیبلشمنٹ ایک ادارہ ہے ۔اسے بطور ادارہ اپنی ساکھ سلامت رکھتے ہوئے ماضی کی غلط کاریوں کا الزام افراد کے سر پر ڈالنے کی سہولت میسر رہتی ہے ۔
لیکن سیاست دانوں کو اس مکارانہ مفاہمت سے باہر آنے سے کیا چیز روکتی ہے ؟ جب وہ گرفت میں آتے ہیں تو صرف اُس وقت اُنہیں کیو ں یادآتا ہے کہ ججوں اور جنرلوں کا کبھی احتساب نہیں کیا گیا؟یہ بات وہ گردن پھنسنے سے پہلے کیوں نہیں سوچتے ؟جب پی پی پی اپنے اقتدار کی گنگا میں ہاتھ دھورہی تھی تو پی ایم ایل (ن)نے بہت شور مچایا ۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ بدعنوان عناصر کو ضرور قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرے گی۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد یہ عزم دھواں بن کر کیوں غائب ہوگیا ؟ہم نے احتساب کا عمل موثر اور شفاف بنانے کے لئے کوئی قانون سازی کیوں نہیں دیکھی؟ نیب کی جگہ بدعنوانی کی تحقیقات کرنے والا کوئی موثر ادارہ کیوں قائم نہ کیا گیا ؟کیا پاکستان بدعنوانی سے پاک ہو چکا تھا ؟کیا کوئی جانتا ہے کہ شہریوں سے وصول کردہ محصولات کہاں جاتے ہیں؟
تیسری دلیل بھی بے بنیاد ہے کہ نوازشریف پر اپنے عہدے سے فائدہ اٹھاکر اثاثے بنانے کا کوئی الزام نہیں۔ ہمارا اینٹی کرپشن کا قانون اتنا قدیم ہے جتنا خود پاکستان ۔ یہ قانون کہتا ہے کہ ایک سرکاری ملازم مجرمانہ سرگرمی میں ملوث تصور ہوگا اگر وہ یا اُس کے زیر ِ کفالت افراد اپنی اعلانیہ آمدنی کے تناسب سے بڑھ کر اثاثوں کے مالک ہوں گے ۔ اسی طرح کی شق نیب آرڈیننس کا بھی حصہ ہے ۔ جرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ معقول دکھائی دیتا ہے کہ اثاثے جمع کرنے کے لئے منی ٹریل کا ثبوت سرکاری ملازم دے ۔ اس میں واحد مسئلہ یہ ہے کہ اس قانون کا کبھی استعمال نہیں کیا گیا ۔
ایک سرکاری ملازم کی لے گئی رشوت کو ثابت کرنا آسان نہیں ہوتا ، کیونکہ رشوت دینے والا شخص، چاہے وہ مجبوری کے عالم میں ایسا کررہا ہو،بھی ایک جرم کا ارتکاب کررہا ہوتا ہے ۔ اعلیٰ افسران ایک طرف، ہم پٹواریوں اور تھانیداروں کا بھی جرم ثابت نہیں کرسکتے۔ چنانچہ قانون یہ ہے کہ ایک سرکاری ملازم اور اس کے اثاثوں کا کسی بھی وقت احتساب ہوسکتا ہے ۔ اگر کوئی اپنے وسائل سے بڑھ کر زندگی گزار رہا ہوتو وہ قصور وار سمجھا جاتا ہے ۔ یہ ذمہ داری اُس پر ڈالی جاتی ہے کہ وہ اپنے اثاثوں کے جائزہونے کا ثبوت دے کہ یہ اُس نے لوگوں کی جیبوں سے ، یا ریاست کے تفویض کردہ اختیار استعمال کرتے ہوئے تو نہیں بنائے ۔
یہی الزام نوا زشریف پر ہے کہ وہ اپنے ذرائع آمدنی سے بڑھ کر زندگی گزار رہے ہیں۔ حکمران خاندان اس بات پر نازاں ہے کہ اُنہیں وراثت میں بھی دولت کے انبار ملے اور اُنھوں نے اپنے پرائیویٹ کاروبار سے اس میں مزید اضافہ بھی کیا ۔ اُن کا طرز ِ زندگی امراء کے لئے بھی باعث رشک ہونا چاہیے ۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے کیا یہ حیرت انگیز حقیقت نہیں کہ پاکستان کے متمول ترین خاندانوں میں سے ایک نے لندن چند ایک فلیٹس خریدے ہوں اوروہ اس کی ملکیت ثابت کرنے کے لئے ہاتھ پائوں ماررہے ہوں؟(یاد رہے، پاکستانی اپوزیشن ان فلیٹس کی قیمت کو بڑھا چڑھا کر بیان کررہی ہے )۔
اب بہت سے معقول افراد نواز شریف کو عہدے سے الگ ہونے کا کہہ رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایک منتخب شدہ وزیر ِاعظم کو الزامات کی بنیاد پر عدالت کی طرف سے عہدے سے الگ کیے جانے سے قانون سازی کی غلط مثال سامنے آئے گی اور اس کے قانون کی حکمرانی اور جمہوریت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔ اس کی مندرجہ ذیل وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ اگرچہ ایک وزیر ِ اعظم کو اپنے منصب سے الگ ہونے کی کوئی قانونی مجبور ی نہیں ، لیکن سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے (اگرچہ عدالت کے سامنے پیش ہونا جرم کا ثبوت نہیں ہوتا)سے اخلاقی طور پر وزارت ِ عظمیٰ کے عہدے کی توہین ہوتی ہے ۔ اگرچہ عہدہ سنبھالنے کا اختیار ووٹ سے حاصل ہوتا ہے لیکن یہ اختیار سزا ملے بغیر بھی چھن جاتا ہے ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ جمہوریت میں سیاسی احتساب اور قانونی احتساب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد اگر سپریم کورٹ حکم دیتی ہے کہ وزیر ِاعظم کے خلاف مقدمات کا اندراج کرکے احتسا ب عدالت کے سامنے پیش کیا جائے تو تصور کریں کہ ایک منتخب شدہ وزیر ِاعظم عدالتوں سے ضمانت کی استدعا کررہا ہوگا۔ تیسری وجہ یہ کہ جمہوری لیڈر ہونے کا دعویٰ کرنے والے نواز شریف کو خود سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا وہ اس عمل سے جمہوریت کی خدمت کررہے ہیں یا اسے نقصان پہنچا رہے ہیں؟ہمارے سامنے ایک ایسے آرمی چیف ہیں جو مختلف سیکورٹی چیلنجز کا سامنا کررہے ہیں، اور اُنھوں نے ابھی حال ہی میں عہدہ سنبھالا ہے ۔ اور ہمارے موجوہ چیف جسٹس صاحب ’’افتخار محمد چوہدری ‘‘ نہیں جن کا کوئی اپنا ایجنڈا ہو۔ چلیں فرض کرلیں خاکی وردی پوش نوازشریف کے خلاف عدالت کے ساتھ مل کر سازش کررہے ہیں۔ توا گر وہ عہدے سے الگ ہوکر خود کو احتساب کے لئے پیش کردیتے ہیں جبکہ پی ایم ایل (ن) کی حکومت اپنی مدت پوری کرلیتی ہے تو یہ سازش کس طرح کامیاب ہوگی ؟
کیا نوازشریف ایک ایسے لیڈر ہیں جو جمہوریت اوراپنی جماعت کو محض اپنا ذاتی ایجنڈا آگے بڑھانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں؟پی ایم ایل (ن) کے سینئر رہنما میڈیا کے سامنے آکر جے آئی ٹی کو برا بھلا کہتے اور سازش کی دہائی دیتے ہیں لیکن وہ عام شہریوں ( جن کی اُن کے ساتھ جذباتی وابستگی نہیں)کو قائل کرنے کے لئے ایک لفظ بھی نہیں بول پائے ہیں۔ کیا سیاسی جماعتیں صرف اپنے باسز کی انا کی تسکین کا سامان کرتی ہیں؟کیا اس ماحول میں ایک وزیر کسی کی مالی دیانت کی تصدیق کرسکتا ہے ؟ کیا پارٹی کے ساتھ وفاداری کے نام پر خوشامدی رویے جمہوریت کی توہین نہیں ؟
لیکن اگر نوازشریف مستعفی ہونے سے انکار کردیتے ہیں تو یہ اُن کا حق ہے ۔ اُنہیں منصفانہ ٹرائل کے بغیر نااہل نہیں قرار دیا جانا چاہیے ۔ جے آئی ٹی نے الزامات کا جومواد اکٹھا کیا ہے، اُسے عدالت میں شریف چیلنج کریں گے ۔ وہاں سچائی کی پرکھ ہوجائے گی ۔ اگر سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی ساٹھ دنوں میں تیارکردہ رپورٹ کو درست سمجھتی ہے تو وہ مزید ساٹھ دنوں میں شریفوں کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی حکم دے سکتی ہے ۔ اگر نواز شریف قصور وار ہیں تو صرف نااہل قرار دیناکافی نہیں، اُنہیں سزا ملنی چاہیے ۔ لیکن وہ حکومت کے سربراہ ہیں، اس لئے اُنہیں سرسری الزامات یا قیاس آرائی کی بنیاد پر فارغ نہیں کیا جانا چاہئے۔

تازہ ترین