• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی سال گزر گئے۔ پاکستان کے ایک سفارت کار نے مجھے ایک واقعہ سنایا تھا جو اب مجھے یاد آرہا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ وہ ایک افریقی ملک میں سفیر تھے تو ایک دن وہ بغیر اطلاع کے گھر پہنچ گئے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ انہوں نے اپنے ملازم سے کہ جو باورچی بھی تھا کہا کہ مجھے بھوک لگی ہے۔ کچھ کھلادو۔ ملازم باورچی خانے میں تھا جب انہوں نے اونچی آواز سے، ڈانٹنے کے انداز میں کہا کہ مجھے بھوک لگی ہے اور تم اتنی دیر کررہے ہو۔ ملازم خاموش رہا۔ اس نے جو کچھ بنایا تھا لاکر ان کے سامنے رکھ دیا۔ جب وہ کھا چکے اور ملازم نے برتن اٹھا لئے تو پھر وہ ’’یعنی ملازم‘‘ ان کے پاس آیا۔ میز پر گھر کی چابیاں رکھیں اور آہستگی سے کہا:’’ماسٹر۔۔۔ میں جارہا ہوں۔‘‘ اور وہ نوکری چھوڑ کر چلا گیا۔ یہ ایک مثال ہے کہ کسی کو اپنی عزت نفس کا کتنا خیال ہوتا ہے، خواہ وہ گھر کا ملازم ہی کیوں نہ ہو۔ میں جانتا ہوں کہ غریب ملکوں میں کہ جو کئی معنوں میں پسماندہ بھی ہیں سماجی روابط اور انسانی تعلقات کی نوعیت کیا ہوتی ہے۔ ایک اور افریقی ملک کا حوالہ میں اپنے تجربے کی بنیاد پر دے سکتا ہوں۔ بیس سال سے کچھ زیادہ کا عرصہ ہوا جب ہم جوہر حسین کے گھر، نیروبی میں چند روز رہے۔ جوہر حسین، میری بیوی کے بھائی، پاکستانی سفارت خانے میں پریس اتاشی تھے۔ وہاں گھر کی ملازمہ کی جو حیثیت ہم نے دیکھی اس نے سفارت کار کی کہانی کی توثیق کردی۔ پوری طرح اس کا احترام کیا جاتا اور وہ اپنا کام پوری تندہی سے، طے شدہ معاہدے کے مطابق کرتی۔ گھر کا ماحول ہمیشہ خوشگوار رہتا۔ ارے۔ ایک اور یاد نے جنبش کی۔ ایک بار منیلا جانا ہوا جہاں عزیز اور بچھڑ جانے والے دوست عبید اللہ بیگ کے بہنوئی ایشیائی ترقیاتی بینک میں ملازم تھے۔ میں نے انہیں فون کیا تو وہ مجھے لینے ایئر پورٹ آئے۔ جب انہوں نے اپنے بڑے گھر کے دروازے پر ہارن بجایا تو ایک لڑکی نے گیٹ کھولا۔ مجھے لگا کہ وہ ان کی بیٹی کی کوئی سہیلی تھی کہ جو مہمان تھی اور اس نے لپک کر گیٹ کھول دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ تو ملازمہ تھی۔ اتنی خوش لباس، خوش آداب۔۔۔۔ اور مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں فلپائن اور پاکستان کی فی کس آمدنی تقریباً برابر تھی لیکن بازار میں چلتے پھرتے آپ کو لوگ صاف ستھرے اور خوش مزاج دکھائی دیتے تھے۔
اب آپ کہیں گے کہ جے آئی ٹی کے دھماکے کے بعد کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی اور پاکستان کی سیاست ایک تاریخی بے یقینی اور خلفشار سے دوچار ہے اور میں دور کے ملکوں کے گھریلو ملازموں کی بات کررہا ہوں۔ کنکشن کیا ہے؟ تو بصد ادب عرض ہے کہ ہاں، تعلق ہے۔ اور شاید آپ سمجھ بھی گئے ہوں۔ جے آئی ٹی کی بات بعد میں ہوگی کہ جس کے حروف ہی کسی ہلاکت خیز جنگی ہتھیار کا نام لگتے ہیں۔ پہلے تو یہ کہ آپ نے یہ خبر ٹی وی پر دیکھ اور اخبار میں پڑھ لی ہوگی کہ پنجاب اسمبلی کی ایک خاتون رکن کی بیٹی کے تشدد کے سبب ایک گھریلو ملازم ہلاک ہوگیا۔ اس کی بہن کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کا ثبوت کیمرے کی آنکھ سے دیکھا گیا۔ اس بچی نے اپنی کہانی بھی سنائی کہ جو لرزہ خیز ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ خبر کتنی ہی خوفناک کیوں نہ ہو اور اس سے آپ کا دل کتنا ہی کیوں نہ دکھا ہو، اسے چند دنوں میں بھلا دیا جائے گا۔ کیونکہ ایسے واقعات تو اس سے پہلے بھی ہوچکے ہیں۔ چند ماہ پہلے جب اسلام آباد میں ایک دس سالہ ملازم پر تشدد کی کہانی میڈیا میں آئی تب بھی پورے ملک میں تشویش اور غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے بھی اس واقعہ کا از خود نوٹس لیا تھا۔ یہ بات بھی اہم تھی کہ اس بچی پر اتنا بھیانک تشدد ایک سیشن جج کے گھر میں کیا گیا۔ گویا ایسا کچھ ہوتا رہتا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے اور ہم اس کے ساتھ جی رہے ہیں۔ کسی نئے واقعہ پر ہم بپھر تو جاتے ہیں۔ گفتگو بھی کرتے ہیں۔ اس کے جو اہم پہلو ہیں ان پر بھی نظر جاتی ہے کہ آخر یہ مفلسی کے مارے بچے گھروں میں ملازمت کیوں کرتے ہیں۔ غلاموں کی سی زندگی کیوں گزارتے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے ملک میں جس کے آئین میں یہ لکھا ہے کہ پانچ سال سے سولہ سال کے بچوں کو لازمی تعلیم دینے کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ ویسے چھوٹے بچے سڑکوں پر بھیک مانگتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے اس کی تفصیل اپنی جگہ، میں خاص طور پر اپنے معاشرے میں عام لوگوں کے انسان سے کمتر ہونے کی صورت حال کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ احترام آدمیت کے فقدان کی بات کررہا ہوں۔ یہ ہم کس دنیا میں جی رہے ہیں کہ بے شمار لوگوں کی عزت نفس کو مسلسل پامال کیا جاتا ہے اور ہم اسے معمول کی بات سمجھتے ہیں۔ میر احوالہ اگرچہ گھریلو ملازم ہیں لیکن ہر سطح پر سماجی رشتوں میں اونچ نیچ اور عزت اور ذلت کی کارفرمائی واضح ہے۔ افسر اپنے ماتحتوں کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جن افراد کے پاس اقتدار ہے وہ عوام کو اپنا تابع سمجھتے ہیں۔ جیسے بادشاہ اور رعایا کی روایت ابھی زندہ ہے۔ آقا اور غلام کا رشتہ بھی قائم ہو۔
تو لیجئے، جے آئی ٹی کا ذکر بھی یہاں مناسب سمجھا جاسکتا ہے۔ اس وقت میرے لئے یہ اہم نہیں ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر نواز شریف کی پارٹی کا موقف کیا ہے اور اس کے مخالفین کیا کہہ رہے ہیں۔ اپنے موضوع کے دائرے میں رہ کر میں رپورٹ کے صرف اس انکشاف کی بات کرنا چاہتا ہوں کہ شریف فیملی کے اثاثے معلوم آمدن سے زیادہ ہیں۔ اور یہ وہ جرم ہے جسے ہماری اشرافیہ اپنے سینے پر تمغے کی طرح سجاتی ہے۔ وہ سیاسی رہنما جو صبح شام غریبوں کی بات کرتے ہیں۔ بیشتر ایسی زندگی گزارتے ہیں کہ جس پر انہیں شرم آنی چاہئے۔ گنے چنے ایسے سیاست داں ہیں کہ جن کے اثاثے ان کی آمدن کا پتہ دیتے ہیں۔ اور صرف سیاست دانوں کی بات نہیں بلکہ دولت مند افراد کا ایک ایسا طبقہ ہمارے ملک میں موجود ہے کہ جس کے بارے میں کسی چھان بین، کسی رپورٹ کے بغیر ہی ایک فیصلہ صادر کیا جاسکتا ہے۔ سو یہ بھی سماجی نابرابری کی ایک گھنائونی شکل ہے۔ اور بار بار ہم، کسی خبر کے ذریعے یا کسی ذاتی تجربے کے نتیجے میں پاکستان کے بنیادی تضادات کی کوئی نہ کوئی شکل دیکھتے رہتے ہیں۔ پاناما کیس کا فیصلہ تو سپریم کورٹ کرے گا۔ لیکن جسے ہم سماجی انصاف کہتے ہیں اس کے حصول کے لئے ہمیں کسی عدالت کے دروازے پر دستک دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے لئے پاکستان کے حکمرانوں اور اس کی اشرافیہ کو اپنی زندگی اور اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ جس عیش و عشرت کی وہ خود نمائش کرتے ہیں وہ دراصل غریب، کمزور اور محکوم طبقے کی ذلت اور بے بسی کی ایک شکل ہے۔ مشکل یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے کی سچی تصویر نہ میڈیا دکھا پا رہا ہے اور نہ اشرافیہ اسے دیکھنا چاہتی ہے۔ اِدھر اُدھر سے، کسی واقعہ، حادثے یا اتفاق کے ذریعے اس کی کچھ جھلکیاں دکھائی دے جاتی ہیں۔ پوری تصویر دیکھنا شاید ہماری برداشت سے باہر ہو۔

تازہ ترین