• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جے آئی ٹی کی رپورٹ، فیصلہ نہیں ہے۔ حتمی فیصلے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ معزز جج صاحبان کو پیش کردہ شواہد کا جائزہ لینے اور فریقین کا موقف سننے کے بعد کوئی فیصلہ کرنا ہے۔ سیاسی جماعتیں مگر عجلت میں دکھائی دیتی ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے استعفیٰ کے مطالبے پر اپوزیشن جماعتیں یک زبان اور یک جہت ہیں۔ یوں تو پارلیمنٹ جیسا اہم ادارہ کئی ماہ سے عضو معطل بنا رہا۔ اب مگر اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ کے ذریعے وزیر اعظم پر دبائو ڈالا جائے۔ سیاسی جماعتوں کا اتحاد دیکھ کر رشک آتا ہے۔ کاش حساس قومی معاملات پر بھی ایسے ہی اتحا د و یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے۔ قومی معاملات پر اتحاد درکار ہوتا ہے تو سیاسی جماعتوں کو اپنے ’’اصولی‘‘ اختلافات یاد آجاتے ہیں۔اپوزیشن جماعتوںکا موجودہ اتحادنہ تو نظریاتی بنیادوں پر استوار ہے، نہ اصولی اور اخلاقی ۔ سیاسی مفادات ہیں اور نواز شریف مخالف جذبات ، جس نے ان جماعتوں کو اکھٹا کر دیا ہے۔ اس طرز عمل سے یہ بھی ثابت ہوا کہ پانامہ کا ہنگامہ صرف فرد واحد یعنی وزیر اعظم نواز شریف کیخلاف تھا۔ احتساب سے اسکا کوئی تعلق نہیں۔ ورنہ اصل میں تو پانامہ لیکس میں ساڑھے چار سو افراد کے نام تھے۔ ان میں سے کسی کا احتساب مقصود نہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے اچھا یاد دلایا کہ پانامہ لیکس میں ایک حاضر سروس جج صاحب کا نام بھی ہے۔ انکا بھی احتساب کیجیے۔ جج، جرنیل، صحافی اور نامور بزنس ٹائیکون کیوں احتساب سے مستثنیٰ ہیں۔ سنگین غداری میں مطلوب ، ایک مفرور شخص ،آرام سے ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر ملک و قوم کے مسائل پر بھاشن دیا کرتا ہے۔ اس معاملے پر ہمیں قانونی اور اخلاقی تقاضے یاد نہیں آتے۔ آج جو یکجہتی اپوزیشن جماعتیں اور میڈیا کے بعض حلقے وزیر اعظم کے استعفیٰ کے مطالبے پر دکھا رہے ہیں۔ وہ یکجہتی جنرل مشرف کے معاملے پر دکھائی ہوتی تو آج آمر وقت ، عبرت کی تصویر بنا ہوتا۔ مگر کیا کیجیے، ہمارے ہاں انصاف کے پیمانے جدا جدا ہیں۔
حالات بتاتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) اور خاص طور پر شریف خاندان دبائو میں ہے۔ امکانی طور پر آنے والے دنوں میں یہ دبائو مزید بڑھے گا۔ جے آئی ٹی کی تشکیل اور کارروائی خواہ کتنی ہی متنازع سہی، شریف خاندان کو مگر جے آئی ٹی رپورٹ میںا ٹھائے گئے تمام سوالات کے جو ابات دینا ہوں گے۔یہ کہنا اب بے معنی ہے کہ جے آئی ٹی میں ایجنسیز کے دو افراد کی شمولیت قابل تائید نہیں۔ یا یہ کہ جے آئی ٹی رپورٹ پہلے سے طے شدہ معاملات کا حصہ ہے۔حکومت کو اس ضمن میں کوئی قانونی یا اصولی اعتراض تھا تو پہلے کیا جانا چاہیے تھا، اب کافی تاخیر ہو چکی۔ گیند اب سپریم کورٹ کے احاطے (court)میں ہے۔ شریف خاندان کو اپنے موقف کا قانونی طور پر دفاع کرنا ہے۔ فی الحال تو حکومتی حلقے اس مو قف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں بہت سے سقم ہیں۔ ہزاروں صفحات پر مشتمل شواہد میں سے بیشتر کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اگر واقعتا ایسا ہے تو معزز جج صاحبان کو اسکا فیصلہ کرنے دیجیے۔
اپوزیشن کا موقف ہے کہ اس رپورٹ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اپنے عہدے پر رہنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں۔ لہذا وہ فوری طور پر عہدے سے الگ ہو جائیں ۔ یہ موقف انتہائی مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ معذرت کیساتھ عرض ہے کہ سیاست دانوں نے سیاست میں اخلاقیات کی گنجائش چھوڑی ہی کہا ں ہے؟انہی سیاستدانوں کی وجہ سے ہماری سیاست میں ہر طرح کی سماجی اور اخلاقی حدود سے متجاوز زبان و بیان اور لب و لہجے رائج ہو چکے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے، آمروں کا ساتھ دے کر فوائد سمیٹنے والے اور دامن پر مالی بد عنوانی کے انمٹ داغ رکھنے والے افراد کی بہتات ہے۔ کوئی ایک جماعت بھی پوری طرح اخلاقیات کی پابند نہیں۔ پھر اخلاقیات کی بنیاد پر ایسے مطالبات کیوں؟ ہاں ،مہذب سیاسی روایات کا حامل کوئی ملک ہوتا ، تب استعفیٰ کا مطالبہ قابل جواز تھا۔ مگر پاکستان کی سیاست میں یہ مطالبہ ناقابل تائید ہے۔
جے آئی ٹی کی پیش کردہ رپورٹ کے بعد کچھ حلقوں کا کہنا یہ ہے کہ وزیر اعظم قانونی طور پر اپنے عہدے پر رہنے کا جواز کھو چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قانونی حیثیت کا فیصلہ سپریم کورٹ کے ججوں کو کرنا ہے۔ یہ فیصلہ اپوزیشن کر سکتی ہے، میڈیا اور نہ ہی جے آئی ٹی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کچھ وکلا تنظیمیں بھی اخلاقی بنیادوں پر وزیر اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہیں۔وکلاء تو قانونی نکات پر بات کیا کرتے ہیں۔ کتنے وکیل ہیں جو اپنے مقدمے قانونی کے بجائے اخلاقی بنیادوں پر لیتے اور لڑتے ہیں۔ وکلاء سے بڑھ کر کون جانتا ہے کہ بعض حاضر سروس جج صاحبان کے خلاف بھی ریفرنس دائر ہوتے رہتے ہیں۔ بعض پر تو رشوت لے کر مقدمے کا فیصلہ کرنے جیسے سنگین الزامات بھی عائد ہوتے ہیں۔ ہوتا مگر یہ ہے کہ ایسے تمام معاملات سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجے جاتے ہیں۔ باقاعدہ تحقیقات کے بعد کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے۔ حتمی فیصلے تک کسی جج کو کام سے روکا جاتا ہے، نہ ہی استعفیٰ طلب کیاجاتا ہے ۔ سنگین الزامات کے باوجود، جج صاحبان معمول کیمطابق مسند انصاف پر بیٹھتے اور عدل کا ترازو ہاتھ میں لے کر اہم مقدمات کے فیصلے کرتے ہیں۔ عدل اور انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے۔ قانون یہی کہتا ہے کہ جب تک کوئی الزام ثابت نہیں ہو جاتا ، تب تک کسی کو مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی اصول ہر ایک ملزم پر لاگو ہوتا ہے۔ کم از کم وکلاء اور قانونی ماہرین کو الزامات ثابت ہونے سے قبل، وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کرنے سے قبل ضرور سوچنا چاہیے کہ قانون و انصاف کا تقاضا کیا ہے۔ یوں بھی اگر الزامات کی بنیاد پر عہدے سے الگ کرنے کی روایت چل پڑی تو شاید ہی کوئی عہدیدار اپنے عہدے پر باقی بچے۔
اس سارے قضیے میں،مسلم لیگ(ن) اورشریف خاندان کے لئے تسکین کا پہلو بھی ہے۔میاں نواز شریف، جو ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر خزانہ رہے، دو بار وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے اور تیسری بار ملک کے وزیر اعظم ہیں، انکے دامن پر سرکاری وسائل کے غلط استعمال اور خورد برد کا کوئی ایک الزام بھی نہیں۔ 2013کی انتخابی مہم میں مسلم لیگ(ن) اپنی حکومتی کارکردگی کا حوالہ دیتی رہی۔ اگلے انتخابات میں یہ نکتہ بھی مسلم لیگ(ن) کی انتخابی مہم کو تقویت فراہم کرے گا کہ چھ بار اہم عہدے پر رہنے والے انکے قائد نے قومی خزانے میں ایک پیسے کی کرپشن نہیں کی۔ اب پیر سے اس مقدمے کی سماعت کا آغاز ہورہا ہے۔ بہت اچھا ہو کہ اپوزیشن جماعتیں اس معاملے کوقانونی طور پر حل ہونے دیں۔ اگر شواہد واقعتا شریف خاندان کے خلاف ہیں تو جج صاحبان حتمی فیصلہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ جج صاحبان و زیر اعظم کو نااہل قرار دیتے ہیں تو پھروزیر اعظم کے پاس کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا۔لہذا بہتریہی ہے کہ عدالت کے باہر عدالتیں سجانے اور فیصلے صادر کرنے کے بجائے ،معزز جج صاحبان کے فیصلے کا انتظار کر لیا جائے۔

تازہ ترین