• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم کے گرد جتنا گھیرا تنگ کیا جارہا ہے اتنا ہی وہ تنگ آمد بجنگ آمد پہ مائل ہوتے دکھائی پڑتے ہیں۔ انہوںنے آخر تک لڑنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اپنے تئیں وہ سمجھتے ہیں کہ انہوںنے قومی خزانے میں کوئی خیانت کی نہ اپنے عہدوں سے ناجائز فائدہ اٹھا کر کسی طرح کی کرپشن میں ملوث ہوئے۔ ہر طرف سے گھرے نواز شریف کو اگر کچھ دکھائی پڑ رہا ہے تو وہ ہے سازش! وہ بس اب پھٹنے کو ہیں کہ ’’وہ نہیں تو پھر کوئی نہیں‘‘ناانصافی کا تمغہ سجا کر وہ سیاسی طورپر سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ اسی طرح کی کیفیت سے دو چار ہو چکے ہیں جیساکہ ہم نے ان کو صدر غلام اسحاق خاں کی پدر شاہانہ سازش کے خلاف اپنی باغیان جون میں پہلی بار آتے دیکھا تھا اور وہ یکا یک ایک تابع فرماں سیاسی رہنما سے ایک بے باک لیڈر بن گئے تھے۔ جنرل ضیاء کی چھتری تلے پنپنے والے پنجاب کے لاہوری سیاستدان کی یہ کایا پلٹ دیدنی تھی۔ یہ ایک طرح سے پنجاب کی ٹوڈی سرمایہ دار اشرفیہ کے سن بلوغت کو پہنچنے کا اظہار تھا جو نواز شریف کی اس تاریخی تقریر کا سبب بنا جس کے طفیل وہ ایک نئے سویلین آدرش کے ساتھ سامنے آئے۔ پنجاب کے تاجر اور سرمایہ دار طبقے، قدامت پسند حلقوں، پنجابی بیوروکریسی اور عدلیہ کی حمایت سے وہ غلام اسحاق جیسے سویلین فرعون کے سامنے کھڑے ہوگئے، عدلیہ نے ان کے حق میں فیصلہ بھی دےدیا لیکن ملک میں ایسا آئینی ٹکرائو پیدا ہوا کہ جنرل کاکڑ کی وساطت سے ہر دو کو گھر جانا پڑا۔ غلام اسحاق خاں تاریخ کے اندھیروں میں گم ہوگئے، مگر نواز شریف سیاسی طور پر اور توانا ہو کر میدان میں رہے۔ ان کی سیاسی بالیدگی کا سفر کچھ ایسا ہی ہنگامہ پرور رہا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ان سے لڑائی دراصل بھٹو اور جنرل ضیاء کے وارثوں کی لڑائی تھی جس میں میاں صاحب کو اس وقت کے جرنیلوں کی حمایت حاصل رہی۔ ہم نے سیاسی محاذ آرائی کے 4غیر مکمل ادوار دیکھے اور مقتدرہ نے جمہوریت کا خوب تماشا لگائے رکھا ۔نواز شریف پیدا تو فوجی آمریت کے بطن سے ہوئے تھے لیکن جلد ہی وہ سویلین بالادستی قائم کرنے کے زعم میں مبتلا ہوگئے اور یوں پنجاب میں جو آمریتوں سے وابستہ رہا، دونوں بڑی پارٹیاں (پی پی پی اور مسلم لیگ ن) مقتدرہ مخالف محاذ کا حصہ بن گئی۔سول ملٹری تعلقات کی غیر جمہوری و غیر آئینی نوعیت کے باعث نواز شریف کی دوسری حکومت میں بھی ان کی ہر آرمی چیف سے ٹھنی رہی۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ، جنرل کرامت اور آخر میں جنرل مشرف سے ان کا ٹاکرا رہا۔ جب نواز شریف اور وزیراعظم واجپائی کے درمیان لاہور کا عہد نامہ ہوا تو جنرل مشرف نے کارگل کا مس ایڈونچر کرکے کشمیر کے مسئلہ کے پرامن حل کی کوشش کو خاک میں ملا دیا۔ اب وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل مشرف کے درمیان ایسی بگڑی کہ اس سے پہلے کہ وزیراعظم اسے ایک اور انقلابی تقریر کرکے فارغ کرتے کہ فوجی بغاوت کی تیاری پہلےسے ہی ہو چکی تھی اور پھر ایک اور شب خون مارا گیا، وزیر اعظم کو ہتھکڑی لگی، عمر قید ہوئی اور جلا وطنی سے جان خلاصی ہوئی۔
مشرف کے طویل دور میں ملک کے دونوں بڑے لیڈر باہرتھے اور اپنے اپنے زخم چاٹ رہے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی جمہوری رگ پھڑکی اور انہوں نے نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت کا تاریخی معاہدہ کیا۔ یہ محترمہ بے نظیر بھٹو ہی تھیں جنہوں نے ’’مصالحت کی کھڑکی‘‘ کھولتے ہوئے جنرل مشرف کی وردی اتروائی اور پھر این آر او کے سمجھوتے کو توڑتی ہوئی واپس آئیں اور گھر میں محبوس چیف جسٹس آف پاکستان کی رہائش گاہ کے باہر پرچم لہرا دیا۔ محترمہ ہی نے نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار کی،لیکن جب انہوں نے دہشت گردی کے خلاف علم بلند کیا تو دہشت گردوں کا وسیع تر محاذ جو ہر جانب چھا چکا تھا، نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا۔ لیکن مشرف ہی وہ پہلے ڈکٹیٹر تھے جو اپنی اننگز کھیل کر جمہوری راہ میں حائل نہ ہو سکے۔ یوں موجودہ جمہوری دور کا 2008 کے انتخابات کے بعد سے آغاز ہو سکا۔ صدر آصف علی زرداری کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ باوجود میموگیٹ اور ان کے وزیراعظم کی عدالتی براخستگی کے انہوںنے بھٹو کے بعد کسی بھی جمہوری حکومت کا دورانیہ مکمل کیا اور انتخابات کے ذریعے نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ ان کی حکومت کو گرانے کے لئے پہلے انتخابی دھاندلی کے جھوٹے الزام پر دھرنے دلوائے گئے اور حکومت کو الٹانے کی دوبار سازش کی گئی اور اس کے روح رواں جناب عمران خان تھے اور ان کی رسی ہلانے والے جو ڈھلتی عمر کے ساتھ ساتھ کسی بھی طرح وزیر اعظم بننے کو بے قرار تھے۔ ان کی حماقت میں درمیانی طبقوں کے غیر سیاسی حلقے احتساب کے خدائی فوجدار متحرک ہوگئے جو ہر سیاستدان کو احتساب کی سولی پر چڑھانے کو سب کچھ کر گزرنے کو تیار تھے۔ امپائر کی انگلی کی امید میں وہ مقتدرہ ہی کے بڑے ہی اہم جغادریوں کی حماقت سے تقریباً وزیر اعظم ہائوس پرقبضہ کرنے کو تھے کہ طوائف الملوکی کے جن کو قابو کرنے کے سوا چارہ نہ رہا اور جنرل راحیل شریف نے اور جنرل قمر جاوید باجوہ کور کمانڈر راولپنڈی نے آئینی حکمرانی کا بھرم قائم رکھا، اگر تمام پارلیمانی جماعتیں اور پارلیمنٹ چٹان بن کر کھڑے نہ ہوتے تو جمہوری عبور کب کا تحلیل ہوگیا ہوتا۔ ابھی حالات سنبھلنے ہی تھے کہ غیب سے آیا گولا پاناما پیپرز کا اور دھرنے کے ناکام و طرم خانوں کے ہاتھ لگا وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے سمندر پار کھاتوں کےا سکینڈل بس پھر کیا تھا ہر جانب کرپشن کرپشن، چور چور کا ایسا شور مچا کہ بس کرپٹ حکمرانوں کو پھندے سے لٹکا دیا جائے۔
جب پارلیمنٹ راستہ نکالنے میں ناکام ہوگئی تو سیاسی مخالفین کے ہاتھ سیاسی ٹینٹ لگا کر وہ بھی کرپشن جیسے مدعے پر اوراحتساب کے دل آفریں نعرے پر ...بالآخر خیر سے اتری میدان میں عدالت عظمی۔ پانچ رکنی بنچ کے بعد بنی 13سوالوں پر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم(جے آئی ٹی) اور وہ بھی جو ہاتھ پہلے ہی سے اس طرح کی تفتیش کا حصہ رہے یا پھر جو طاقتور ترین اداروں کے نمائندے تھے اور جن میں سے جس نے حسین نواز کی تصویر لیک کی اس کا نام لیتے سب معززین کے پائوں کیا سب کچھ کانپتا ہے۔ انتظام و انصرام ہماری سب سے قابل فخر ایجنسی کے محفوظ ہاتھوں میں تھا اور شریف خاندان کے بیرونی کھاتوں کا عیب ڈھونڈ نکالنے کے لئے وقت ملا بھی تو فقط ساٹھ روز۔ اب کہانیاں دو ہیں، شریف خاندان کی کہانیاں گلف اسٹیل سے شروع ہو کر قطری شہزادے تک ہوتی ہوئی آف شور کھاتوں کے ذریعہ لندن فلیٹس پر ختم ہوتی ہیں جبکہ جے آئی ٹی کو ملکی خزانے کی شریفوں کے ہاتھ مبینہ لوٹ کاتو کوئی بھید نہ ملا البتہ کھاتوں کی طوطا کہانی بارے ایسی داستانیں سامنے ضرور آئی ہیں جن سے شریف کہانی بارے سنجیدہ سوال ضرور اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
کیا شریف خاندان، کیا20خاندان یا1000خاندانوں کے خزانے کہ سبھی تو سرمائے کی جادوگری کی مرہون منت ہیں۔ احتساب کے زندہ برداروں نے سب کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہے تو فقط شریف خاندان کیوں۔اب معاملہ پھر عدالت عظمیٰ کے اسی بنچ کے سا منے ہے جس نے13سوال ضرور اٹھائے تھے۔ مقدمہ تو اب چلنا ہے اور میڈیا اور سیاستدانوں کا غل غپاڑہ بھی پھر سے آسماں سر پہ اٹھائے رکھے گا۔ عدالت عظمیٰ اگر انصاف کی جلد فراہمی پر اصرار کرتی ہے اور اس طرح کے انصاف ہوتا نظر نہ آیا تو بس سمجھئے کہ ایسا طوفان مچے گا کہ اللہ کی پناہ! پاناما کیس میں ہر دو اطراف کے پاس دلائل، شہادتوں اور دستاویزات کا انبار ہے جو کہ ظاہر ہے کہ ایک ٹرائل کورٹ میں ہی رکھا جاسکتا ہے نہ کہ اپیلیٹ کورٹ میں جس کے آگے اپیل نہیں انصاف کا تقاضا بھی ہے یہی کہ ایک شفاف ٹرائل ہو اور عدالت عظمی اپیل کے وقت تک کسی عجلت سے کام نہ لے۔ حالات نے اب کیا رخ لینا ہے اس کا دارومدار اب یا تو وزیر اعظم کے ردعمل پر ہے جو انہوں نے ببانگ دہل ’’آخری حد تک لڑنے‘‘کے اعلان کے ساتھ ظاہر کردیا ہے یا پھر عدالت عظمی پر جو بالآخر قانون کی حکمرانی کا آئینی ٹیمپل ہے۔
جمہوری نظام کے تسلسل اور آئینی بالادستی کا تقاضا ہے کہ قانون و انصاف کے جائز عمل کو سربلند رکھا جائے ، انصاف بھی ہو، انصاف ہو تا نظر آئے اور سیاسی فیصلوں کو عوام کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ پہلے عمران خان پر الزام تھا کہ وہ دھرنوں سے جمہوریت کو پلڑے سے اتارنا چاہتے ہیں۔ اب وزیر اعظم کا یہ عزم ’’میں نہیں تو کوئی نہیں’’ جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کا باعث بن سکتا ہے اور وہ اس کے لئے تاریخ کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔ کیا عدالت عظمی ان کی ’’نہ انصافی کے خلاف‘‘خود کشی کی خواہش کو پورا کرنے کی بجائے آئینی و جمہوری تسلسل کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری پوری کرسکے گی؟ اس میں ہمجمہوریہ کے قیام اور آزادی جمہور کا خواب دیکھنے والوں کا بھلا ہے اور عام آئینی سویلین اداروں کا بھی!!
امید ہے’’عدالت عظمی ہم نہیں تو پھر کوئی نہیں‘‘کی مہم جوئی سےجمہوریت کو بچائے گی آئین کی بالادستی کو کسی کے ہاتھوں تلپٹ نہیں ہونے دے گی۔

تازہ ترین