• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کیس کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی ) کی حتمی رپورٹ آنے کے بعد کی صورت حال میں اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے آئندہ کے لائحہ توقع کے مطابق یکساں نہیں ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا مطالبہ یہ ہے کہ نئے انتخابات نہیں ہونے چاہئیں ۔ موجودہ اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنی چاہئے ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف استعفی دیں اور ان کی جگہ ایوان نیا وزیر اعظم منتخب کرے ۔ اس کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کا مطالبہ یہ ہے کہ فوری طور پر نئے انتخابات کا انعقاد ہو ۔ نیا وزیر اعظم لانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کس کا مطالبہ معروضی حقائق کے مطابق ہے اور اس کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں ؟
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے دونوں کے مطالبات کو مسترد کر دیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک جے آئی ٹی کی رپورٹ بدنیتی ، جھوٹ اور بہتان پر مبنی ہے ۔ انہوں نے کوئی کرپشن نہیں کی ہے اور وہ بقول ان کے کسی سازشی ٹولے کے کہنے پر استعفی نہیں دیں گے ۔ اس دو ٹوک انکار کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے پاس اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے کے لیے صرف ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ احتجاج کے ذریعہ وزیر اعظم پر سیاسی دباؤ میں اضافہ کریں ۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا یہ ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نہ صرف اس عہد ے پر رہنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں بلکہ ان کے پاس قانونی جواز بھی ختم ہو چکا ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا موقف یہ ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ حتمی فیصلہ نہیں ہے ۔ وزیر اعظم کی اہلیت کے بارے میں ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے ۔ اس سے قبل ان کے استعفی کا ہر مطالبہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تو پیپلز پارٹی سے بھی آگے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن اس کے لیے وہ کوئی جواز پیش نہیں کررہے کہ اسمبلیوں کو قبل از وقت کیوں تحلیل کیا جائے اور نئے انتخابات کرائے جائیں ۔ ان کا یہ مطالبہ کس طرح پورا ہو گا ، اس کے لیے بھی وہ کوئی آئینی یا قانونی راستہ نہیں بتا رہے ہیں ۔
اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے استعفی کا مطالبہ سیاسی تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز ابھی تک نہیں ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ دنیا کے بعض ملکوں میں سربراہان حکومت یا مملکت اپنے خلاف مقدمات یا انکوائریز کی صورت میں اپنے عہدوں سے اس وقت تک علیحدہ ہو جاتے ہیں ، جب تک ان مقدمات یا انکوائریز کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو جاتا لیکن پاکستان میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے ۔ اس میں صرف وزیر اعظم نواز شریف کو ہدف تنقید نہیں بنایا جا سکتا ۔ اس طرح کا مطالبہ تو عمران خان سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے خلاف مقدمات کا فیصلہ ہونے تک قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دے دیں کیونکہ ان کے خلاف مقدمات کی نوعیت وہی ہے ، جو وزیر اعظم کے خلاف پاناما کیس کی ہے ۔ عمران خان جس طرح اپنے خلاف مقدمے میں مجرم ثابت نہیں ہوئے ، اسی طرح وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پر بھی جرم ثابت ہونا ابھی باقی ہے ۔ ان سے استعفی کا مطالبہ سیاسی دباؤ کا حربہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس سیاسی دباؤ سے کیا عدلیہ پر بھی دباؤ بڑھے گا ؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پاکستان کی عدلیہ نے آج تک بعض جتنے بڑے فیصلے کیے ہیں اور جن کے پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں ، ان فیصلوں سے پہلے میڈیا کی مہم اور اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ نام نہاد سیاسی جماعتوں کے سیاسی دباؤ کا اہم کردار رہا ہے ۔ اگر اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ پاناما کیس میں عدلیہ اور جے آئی ٹی نے درست اور میرٹ پر کام کیا ہے تو ان سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ کوئی سیاسی یا میڈیا مہم کے ذریعہ پاناما کیس پر اثر انداز ہونے کی بجائے عدلیہ کو اپنا باقی کام بھی مکمل کرنے دیں اور ملک میں ایسا ماحول پیدا کریں ، جس میں عدلیہ ’’ مقبول ‘‘ یا ’’ سیاسی دباؤ ‘‘ والا فیصلہ کرنے پر مجبور نہ ہو ۔
اب جبکہ پاناما کیس اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے ، اسے سیاست کی نذر نہ کیا جائے ۔ پاناما کیس کے لیے سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے نتیجے میں قائم ہوا ۔ یہیں سے ہی اس کیس کے سیاست زدہ ہونے کا سوال پیدا ہو جاتا ہے ۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں خصوصاً تحریک انصاف اس بات پر دلالت کر رہی ہیں کہ عدلیہ غیر جانبداری کے ساتھ کیس کا میرٹ پرفیصلہ کیا ۔ نہ صرف جج صاحبان کسی سیاسی دباؤ میں نہیں آئے بلکہ جے آئی ٹٰی کے ارکان نے بھی ہر قسم کے دباؤ کا مقابلہ کیا تو پھر تحریک انصاف کو عدلیہ پر مکمل اعتماد کرنا چاہئے ۔ پاناما کیس کی سماعت اور جے آئی ٹی کی تحقیقات کے دوران بھی تحریک انصاف نے خاص طور پر سیاسی مہم جاری رکھی اور اب بھی وہ اسمبلیوں کی تحلیل کا غیر قانونی اور غیر آئینی مطالبہ کر رہی ہے ۔ میڈیا کے ذریعہ یہ خبریں بھی چلائی جا رہی ہیں کہ اگر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے استعفی نہیں دیا اور نئے انتخابات کا اعلان نہیں کیا تو تحریک انصاف نہ صرف لوگوں کو دوبارہ سڑکوں پر لے آئے گی بلکہ اسلام آباد میں ایک بار پھر احتجاجی دھرنا دیا جائے گا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کو احتجاج کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے ۔
اگر کیس کے حتمی فیصلے کے نتیجے میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو نااہل قرار دیا جاتا ہے تو از خود وہ وزارت عظمی کے عہدے پر برقرار نہیں رہیں گے اور تحریک انصاف کو سڑکوں پر آنے یا دھرنا دینے کی ضرورت بھی نہیں ہو گی ۔ اگر عدلیہ کے حتمی فیصلے کے مطابق وزیر اعظم پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوتا ہے تو بھی تحریک انصاف کے پاس سڑکوں پر آنے یا دھرنے دینے کا کوئی جواز نہیں ہو گا ۔ تحریک انصاف ہر حال میں وزیر اعظم کو ہٹانے اور نئے انتخابات کرانا چاہتی ہے جبکہ اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں کا وزیر اعظم سے استعفی کا مطالبہ صرف سیاسی نوعیت کا ہے ۔ تحریک انصاف کا یہ سیاسی دباؤ عدلیہ کے لیے سوالات پیدا کر رہا ہے کیونکہ تحریک انصاف کے لوگ ہرحال میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو ہٹانے اور اس کے لیے ’’ ضابطے کی کارروائیوں ‘‘ کو نظرانداز کرنے کی مہم چلا رہے ہیں ۔ تحریک انصاف کے بے صبری والے سیاسی اہداف کے مطابق اگر عدلیہ کا فیصلہ آتا ہے تو کیا تحریک انصاف لوگوں کو جبری طور پر تسلیم کر اسکے گی کہ یہ محض اتفاق ہے ۔ لہٰذا بہتر یہی ہو گا کہ عدالت کے حتمی فیصلے سے پہلے سیاسی مہم اور دباؤ سے احتراز کیا جائے ۔

تازہ ترین