• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم بیس، بائیس کروڑ پاکستانیوں کے ساتھ تو یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ تمہارے ساتھ انصاف ہو گا، نہ کہ ہاتھ ہو گا۔ ستر برس سے انصاف کے نام پر ہماری جھولی میں پتا نہیں کیا کچھ ڈالا جا رہا ہے مگر ہم آج بھی انصاف کو ترس رہے ہیں۔ ہر وزیراعظم کو اس کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی بدعنوانی اور بدانتظامی کا ٹیکہ لگا کر اقتدار سے الگ کر دیا جاتا ہے مگر کرپشن وہیں کی وہیں رہتی ہے۔ اقتدار کی ہوس نے آمریت کی صورت میں کبھی قوم کے گیارہ سال ضائع کئے تو کبھی نو سال نگلے، بے دردی سے آئین کی دھجیاں اڑائی گئیں اور اقتدار کو طول دینے کے لئے کئی قسم کے جواز تراشے گئے۔ اداروں کو بدنام کیا گیا مگر قوم آج بھی ملکی خزانے کا خون چوسنے والوں کے رحم و کرم پر ہے۔ شریف خاندان کے خلاف جتنی تحقیقات کی گئیں اس سے زیادہ سخت تحقیقات ہونی چاہئیں، جن پر انگلی اٹھی ہے انہیں کٹہرے میں ہی کھڑا ہونا چاہئے مگر ہر صورت میں انصاف کا بول بالا ہونا چاہئے۔ میڈیا پر جو تاثر پیدا کر دیا گیا ہے اور مختلف سیاسی جماعتیں جو زبان بول رہی ہیں اس کے مطابق تو بائیس کروڑ کی اس آبادی میں صرف وزیراعظم نواز شریف اور ان کا خاندان ہی قابل گرفت نظر آتا ہے، باقی بائیس کروڑ پارسا ہی پارسا ہیں۔ یہ بائیس کروڑ عوام جنہیں اشرافیہ کیڑے مکوڑے سمجھتی ہے، آج یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ پاناما لیکس کے مقدمے کا مقصد نواز شریف سے اقتدار چھیننا ہے یا کرپشن کا خاتمہ مقصود ہے۔ اگر تو اس کا مقصد نواز شریف کی حکومت گرا کر مخصوص لوگوں کی حکومت بنانا ہے تو معاملات عین درست سمت میں چل رہے ہیں لیکن اگر اس کا مقصد حزب اختلاف کے نعروں اور دعوئوں کے مطابق کرپشن کا خاتمہ ہے تو پہلے ہی قدم پر یہ سراسر جھوٹ، فریب اور بہت بڑی دھوکہ دہی ہے۔ یہاں ہر حکومت کرپشن کے نام پر ہی گرائی گئی ہے مگر اس کے بعد اس میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہوتا ہے، حزب اختلاف میں بیٹھے کل کے برسر اقتدار بہت سے لوگ آج ’’پوتر‘‘ کیسے ہو گئے۔ یہ قوم سے مذاق نہیں تو اور کیا ہے کہ کرپشن نواز شریف سے شروع ہوتی ہے اور ان کے خاندان پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ عدالت میں اپنے خلاف چلنے والے ایک مقدمے میں عمران خان پیش ہی نہیں ہوتے۔ الیکشن کمیشن میں بھی ان کے معاملات چل رہے ہیں، وہ پانچ بار اپنا وکیل تبدیل کر چکے ہیں اور عدالت کے سامنے تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔ قوم پوچھتی ہے کہ آصف علی زرداری کو آٹھ سال جیل میں کیوں رکھا گیا، اگر وہ قصور وار نہیں تھے تو ان کی زندگی کے آٹھ قیمتی سال ضائع کرنے کا ذمہ دار کون ہے۔ انہیں بے گناہ قید کرکے ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی یا انہیں رہا کرکے قوم سے ناانصافی کی گئی۔ عجب منطق ہے کہ ارسلان افتخار چوہدری کے مقدمے میں ان کے والد کو ان کے سیاہ و سفید سے علیحدہ کر دیا گیا مگر حسین نواز کے والد کو ان کے مالی معاملات سے نتھی کر دیا گیا۔ ترازو سیدھا نہ رہے تو سودا تو بک جاتا ہے مگر کہیں دور کسی کا حق مارا جارہا ہوتا ہے۔ معیار سب کے لئے ایک ہونا چاہئے۔
اگر نواز شریف کو ہٹانا ہی مقصود ہے تو معقول بہانہ تلاش کیجئے، ہٹا دیجئے مگر اس انصاف کا کیا کیجئے جس کے پیچھے یہ قوم سرپٹ دوڑے چلی جارہی ہے۔ شیخ رشید کی سنتے ہیں تو جاوید ہاشمی کو بھی سنئے، پوری دال ہی کالی نظر آئے گی۔ اگر محض ایک ہی خاندان کو پکڑا گیا تو نام نہاد احتساب کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ جائے گی۔ جو لوگ یک طرفہ منظر کشی کرکے قوم کو احتساب کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتے ہیں وہ قوم کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے۔ خدارا سمجھنے کی کوشش کیجئے قوم کا مسئلہ نواز شریف نہیں بلکہ کرپشن ہے۔ جن کا مسئلہ کرپشن کے بجائے صرف نواز شریف ہے وہ اسی کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑے ہوئے ہیں اور جن کا مسئلہ کرپشن ہے وہ دور کنارے پر کھڑے یہ سوچ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ کہیں پھرہاتھ نہ ہو جائے۔عدالتوں میں چلنے والے مقدمات میں جو رعایتیں پرویز مشرف کو حاصل ہیں وہ شریف خاندان کو کیوں نہیں۔ پرویز مشرف پر سنگین غداری کا مقدمہ ہے جبکہ نواز شریف کے خاندان پر طلسماتی ترقی کے ضمن میں شکوک و شبہات اور منی لانڈرنگ کے مقدمات ہیں، جن میں نواز شریف پر ابھی تک براہ راست کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ سر زمین پاک پر برہمن اور اچھوت کا یہ کھیل اب ختم ہو جانا چاہئے۔ پی ٹی آئی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اور سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے عام شہری یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جے آئی ٹی کے کچھ مندرجات قیافوں پر مبنی ہیں جن پر عدالت میں سیر حاصل بحث درکار ہے۔ شریف خاندان کو عدالت میں اپنی صفائی کا پورا موقع دیا جانا چاہئے مگر محض جے آئی ٹی رپورٹ پر وزیراعظم سے استعفیٰ طلب کرنا انصاف نہیں۔
شریف خاندان اور ن لیگ جانتے ہیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ کا جو حصہ مبالغہ آرائی اور قیافوں پر مبنی ہے وہ اس پر قانونی جنگ لڑ سکتے ہیں اگر قانونی طور پر انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھا جائے تو ن لیگ بڑے ڈھنگ سے قانونی جنگ لڑ سکتی ہے لہٰذا حکمران خاندان اور جماعت دونوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ سرنڈر کرکے اپنے مخالفین اور حریفوں کے موقف کو تقویت دینے کے بجائے قانونی جنگ لڑی جائے۔ اگرچہ مخالفین اسے محاذ آرائی قرار دیں گے مگر یہ بات طے ہے کہ ن لیگ آسانی سے اپنا سیاسی قتل نہیں ہونے دے گی۔ وہ وزیراعظم کے استعفے کو سیاسی خود کشی کے مترادف سمجھے گی۔ بھٹو کا عدالتی قتل ن لیگ کی آنکھوں کو چندھیا رہا ہے مگر اپنا سیاسی قتل روکنے کے لئے اس نے آنکھیں پوری طرح کھول رکھی ہیں۔ دوسری طرف کھلی آنکھوں اور قائم حواس کے ساتھ نظر یہی آرہا ہے کہ نواز شریف کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ اگرچہ نواز شریف تو اقتدار سے چلے جائیں گے مگر قوم کو کرپشن کے عفریت سے نجات نصیب نہیں ہوگی کیونکہ بقول جاوید ہاشمی ہم میں سے پارسا کون ہے۔ گزشتہ ستر برس کی کہانی تو یہی سنا رہی ہے۔

تازہ ترین