• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ایک عرصے سے یہ بات زبانِ زد عام ہے کہ کوئی امام خمینی جیسا آئے، اور بلا امتیاز لٹیروں کو چوراہوں پر لٹکائے۔ یہ عمل انقلاب کے بغیر ممکن نہیں، اور پاکستان میں ایسے کسی عوامی انقلاب کی تمام تر راہیں ابن الوقت سیاستدانوں، اسٹیبلشمنٹ اور ان کے حلیف مذہبی عناصر نے چونکہ مسدود کررکھی ہیں، لہٰذا بے لاگ احتساب کی باتیں کرنے والے یہ عوام پھر اپنے آپ سے سوال کرنے لگتے ہیں کہ آخر بغیر انقلاب کے ایسا احتساب کرے گا کون؟ پاکستانی سیاسی حکمرانوں سے عوام یہ توقع اس لئے نہیں کرتے کہ تمام حکمران خود سرتاپا قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ میں انیس بیس کے فرق سے ملوث ہیں۔ فوجی آمروں جیسا کہ ایوب خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف نے اگرچہ احتساب کا نعرہ لگایا، لیکن اخلاص سے عاری اور ہوس اقتدار سے لبریز ایسے تمام نعرے نہ صرف کھوکھلے ثابت ہوئے، بلکہ قرضے معاف کرنے اورنام نہاد جہادی فنڈز پر بے رحمی سے ہاتھ صاف کرنےسے ضیا الحق اور پرویز مشرف کے ادوار ریکارڈ ساز قرار پائے۔ سابق چیف جسٹس نے بھی فرمایا تھا کہ میری بحالی پاکستان سے تمام تر آلائشوں کے پاک صاف ہونے کا نقطہ آغاز بنے گی۔ فضا بھی ایسی بنادی گئی تھی کہ گویا یہ قانون کی حکمرانی کا غلبہ ہوگا۔پھر بحالی پر ایک جنرل، پرویز مشرف نامراد اور ایک وزیر اعظم، گیلانی پانی کا بلبلہ بن گئے ۔ یوں عوام کی امیدیں ٹھاٹیں مارتے سمندر کی طرح بے کراں تھیں کہ بس اب خائنوں کے پیٹ چاک ہوں گے، برآمدہ،سیم وزر سے قومی خزانہ لبالب آجائے گا، یوں بیرونی قرضے اتار کر ہماری معیشت آزاد اور بھوک ، بیماری و جہالت ماضی کی کہانیاں بن جائیں گی۔ لیکن’ حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے‘۔ رفتہ رفتہ پردہ غیب سے یہ راز کھلا کہ یہ تو کھیل ہی دوسرا تھا، بلکہ ان کا کھیل تھا جو کسی اور کے کھیلنےکی کوششوں پر وکٹیں اُکھاڑ کر لے جاتے ہیں۔
آج پھر بھنگڑے ہیں۔ وہ جوماضی کی خوبرو اداکارہ فردوس پر فلمایا گیا گیت ہے۔ اج خوشیاں دے نال۔ مینوں چڑھ گئے نےحال... والا منظر ہے۔ ذرا خیال میں فلم کا وہ سین لائیں، جب فردوس کرتہ لاچہ پہنے ٹھمکے پہ ٹھمکا لگاتی جاتی ہیں اور لالہ سُدھیر مونچھوں کو تائو دیتے جاتے ہیں۔ اب آپ جناب خورشید شاہ اور مولا بخش چانڈیو کے مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے سین کو روبرو لائیں۔ چشم بد دور.....حالانکہ اصل حقدار تو عمران خان ہیں، لیکن کیا کیا جائے کہ زینت امان سے سیتا وائٹ تک کو مونچھ پسند نہیں تھی۔ عرض یہ ہے کہ معنوی اعتبار سے پی پی کسی احتساب کا یوں استقبال نہیں کررہی کہ ایسا ہونے پر اس کی چیخیں نکل جائیں گی، بلکہ وہ اس وقوعہ سے کسی کی چاپلوسی کرکے اپنے لئے گنجائش کے چکر میں ہے۔تاہم پی پی کے سمجھنے و برتنے کے برعکس میڈیا وار سےعوام کے دلوں میں آج پھرایسے احتساب کی اُمنگ جاگ اُٹھی ہے کہ جس کی زد میں پی پی و تحریک انصاف بھی ن لیگ کے ساتھ ساتھ آئے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ طاقتور حکمرانوں پر ہاتھ ڈالا گیا ہے جس سے تمام خائنوں پر ہاتھ ڈالنے کی امید انگڑائی لینے لگی ہے۔ پاکستانی حکمران طبقات میں میاں صاحب کا خاندان سب سے طاقتور سمجھا جاتا ہے۔ ویسے تو بھٹو صاحب کی بھی، جیسا کہ شیخ رشید کا مقولہ ہے کہ سیاسی پیدائش فوجی گملے میں ہوئی۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب آمر ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتے تھے۔ پھر سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن کر بھٹو صاحب جو داغ تن و من پر سجا گئے وہ منوں مٹی تلے بھی نمایاں ہے۔ ان تمام حقائق کے باوجود مگر میاں صاحب کو فوج کے اعتماد کا حامل سیاستدان سمجھا جاتا رہا ہے۔ خلیجی ممالک جن میں بالخصوص ایک ملک جو خطے کا بااثر اور امریکہ کا با اعتماد حلیف گردانا جاتا ہے، سے بھی میاں صاحب کے مراسم دیگر حکمران سیاستدانوں کے مقابلے میں بہت اعلیٰ ہیں۔ کہا جاتا ہےکہ ان دنوں یہ تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں، جس سے فائدہ بھی اٹھایا جارہا ہے۔ تاہم ہم عمومی بات کررہے ہیں۔ پھر مسلم لیگ (ن) اگرچہ تنظیمی سطح پر کبھی بھی قابل رشک نہیں رہی، لیکن اہم و بااثر شخصیات اور حکومتی امور کے ماہرین کی موجودگی اس جماعت کو کارآمد واہم بنادیتی ہے۔ پنجاب اس جماعت کا گڑھ ہے۔ سیاسی نشیب و فراز کے باوجود یہاں میاں صاحب کی مقبولیت دوسروں سے کہیں زیادہ ہے۔ گزشتہ عشرہ  دہشت گردی کی نذر رہا، پنجاب مگر اس سے محفوظ رہا۔ یوں مسلم لیگ (ن) کو یہاں ترقیاتی کام کرانے کے مواقع میسر آئے۔ مختصر یہ کہ تقابلی طورپر میاں صاحب کا خاندان حکمران طبقات میں زیادہ طاقتور ہے۔ اب ظاہر ہے کہ احتساب کرنے والا اس سے بھی بڑھ کر طاقتور ہونا چاہیے۔ہم اب تک دیکھتے رہے ہیں کہ طالع آزمائوں کے سامنے مضبوط سے مضبوط سیاسی حکمران بھی ریت کی دیوار ثابت ہوتے رہے ہیں۔ ان میں بھٹو صاحب بھی شامل تھے، جو کہا کرتے تھے میری کرسی مضبوط ہے اور میاں صاحب بھی، جن کے طاقت کے حوالے سے ان سطور میں ہم نے دلائل دئیے۔
طاقت کے ایسے تمام مظاہر جو ماورائے آئین دیکھے گئے ، ملک و عوام کے لئے خیر کا کوئی سندیسہ نہیں لائے۔ اب کہا جارہا ہے کہ طاقت کا مرکز عدلیہ ہے۔ پوری دنیا میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی پاسداری ہی کے باوصف حکمران اورتمام ادارے تجاوز سےاجتناب کرتے ہیں۔ ان دنوںایک تاثر یہ بھی عام ہے کہ اس سارے عمل میں تمام ریاستی ادارے عدلیہ کے تحت بروئے کار ہیں۔ قانون کا بول بالا ہونے کے لئے ایسا ضروری ہے اور یہ آئینی تقاضا بھی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے چونکہ تا حال پانامہ کیس میں حکمران خاندان کے حوالے سے کوئی فیصلہ صادر نہیں فرمایا، لہٰذا ہم حزب اقتدار و حزب اختلاف کی من پسند تشریحات کو ایک طرف رکھتے ہوئے کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک طاقتور حکمران خاندان کو کٹہرے میں لا کھڑا کر دینے کا یہ عمل اس بے لاگ احتساب کا نقطہ آغاز ہے، جس کا خواب 18کروڑ عوام برسہا برس سے نظروں میں سجائے ہوئے ہیں!
برسات کے اس موسم میں جس میں ہر اہل وطن کے لبوں پر یہ دعا ہے کہ یارب العالمین، باران رحمت باران رحمت ہی رہے، باعث زحمت نہ بن جائے۔ ہم نے بالخصوص شہر قائد میں دیکھا کہ معمولی بارش بھی جیسے عذاب بن گئی ۔نہ جانے کیوں ہم زحمت و عذاب کا ذکر لے بیٹھے!یہ ضرور ہے کہ قبل ازیں احتساب قومی خزانے کیلئے عذاب ہی بنے،کہ ایک پیسہ آیا نہیں،کروڑوں اسکی نذر ہوگئے۔ بنابریںاب یہ تو نظر آگیا ہے کہ ملک میں قانون سے بڑھ کر کوئی طاقتور نہیں، اگر میاں صاحب کے خاندان کے متعلق آج برملا یہ کہا جاتا ہے کہ جیسے سیاسی طورپر یہ خاندان تھا یا نہیں تھا! تو اس تناظر میں کیا ہم یہ امید باندھ سکتے ہیں کہ ملک کے تمام خائنوں کا ایسا ہی احتساب شروع ہوا چاہتاہے ؟
کیا ہماری یہ امیدِپیہم’فکر وفہم اور عمل‘ کی کسوٹی پرپوری اُترنے والی ہے کہ جلد جنرل پرویز مشرف جے آئی ٹی کے روبرو ہونگے۔ اصغر خان کیس بام مراد کو چوم رہا ہوگا۔ پورا ملک اس خاطر جھوم رہا ہوگا کہ اب اس ملک کے ججوں، جرنیلوں، جرنلسٹوں،بیوروکریٹوں ،سیاستدانوں ، یہاں تک کہ سیاسی مذہبی رہنمائوں کو طلب کرکے پوچھا جائے گا کہ کیا ان کی دولت و اثاثے ان کے آمدن کے مطابق ہیں.....

تازہ ترین