• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین میری دو تہائی زندگی پوری دنیا کی سیاحت ، تجارت اور تاریخی مقامات دیکھنے میں گزر گئی اور اب تو گھومنے کی عادت اتنی بڑھ گئی ہے کہ میرے دوست احباب پوچھنے لگے ہیں کہ آپ پاکستان کب واپس آرہے ہیں ۔ میرا ان کو ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ یہ میرا ملک ہے ، میری سب سے بڑی چاہت ہے اس سے بہتر سر زمین ، محنتی اور جفاکش لوگ کہاں ملیں گے ۔ لہٰذا ہر ماہ ، 2ماہ باہر رہ کر اکتا جاتا ہوں ، پھر مجھے میرے مخلص دوست میرے ملک کی آب وہوا یاد آنے لگتی ہے تو فوراً ٹکٹ کٹا کر اپنے پیارے ملک میں واپس آکر سکون حاصل کرتا ہوں۔ حالات سے تنگ آکر جس طرح صنعتکار ، تاجر ، ڈاکٹرز ، انجینئرز حتیٰ کہ مزدور اس ملک سے تعلیم و تلاش روزگار اور تلاش امن باہر منتقل ہور ہے ہیں۔ میری بھی پوری فیملی یورپ اور کینیڈا منتقل ہو چکی ہے اور وہاں ان کے بچے سکون سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اگر چہ سخت سردیاں اور بہت زیادہ ٹیکسو ں کی بھر مار سے ناخوش ہیں ۔ مگر وہ اب وہیں آباد ہونا چاہتے ہیں مگر میں پاکستان کی محبت سے مجبور ہو کر اسی کو اپنا حقیقی ملک سمجھتا ہوں۔میں ان دنوں پھر کینیڈا میں موجود ہوں۔ یہاں کی کیا کیا خوبیاں گنواؤں ، بہت آسان زندگی، صبح اُٹھو اذانوں کی آواز ، ملازموں کی بھر مار ، آج کیا کھانا ہے ، گھروں کا دروازہ کس نے کھولنا ہے ، کھانے کے بعد کھانے کی پلیٹیں کس نے اٹھانی ہے ، شام کا کھانا کس نے پکانا ہے ، برتن کس نے دھونے ہیں، کمروں کا پوچا کون لگائے گا ، بچوں کوصبح ہی صبح اسکول کون چھوڑے گا ، واپس اسکول سے کون لائے گا ، پھر مولوی صاحب سے قرآن پڑھانے دوبارہ کون واپس لے جائے گا اور کون واپس لائے گا ۔مگر وہاں اب سب اردو قاعدہ بھول گئے ، اکثر تو اردو بولنا بھی کسرِ شان سمجھتے ہیں ، انگریزی بھی ایسے بولتے ہیں جو ہم پاکستانی مشکل سے سمجھتے ہیں ۔ کھانے تو وہ اپنے بھول چکے ہیں ۔ فاسٹ فوڈ میں اب تو حلال اور حرام کھانوں کی تکرار بھی کم ہوتی جارہی ہے ۔ صرف سور کی پروڈکٹ کو حرام سمجھتے ہیں ، باقی غیر ذبیحہ مرغی ، مٹن،گائے، بھیڑ کو وہ حلال سمجھتے ہیں ۔ اس کی وجہ بڑی بڑی مارکٹیں ، مالز ہیں وہ سستی ہوتی ہیں اور پاکستانی حلال گوشت سپر مارکیٹوں میں مہنگا ہونے کے ساتھ ساتھ دور دراز مقامات سے جا کر خریدنا پڑتا ہے۔ تو وہ اپنی اپنی آسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان جھمیلوں میں نہیں پڑتے وہی خرید کر جان چھڑا تے ہیں ۔
صرف بڑے بڑے علاقوں میں مساجد بنائی گئی ہیں جو صرف جمعہ اور عیدین پر تو بھر جاتی ہیں بقایا اوقات میں چند صفوں تک محدود ہوتی ہیں۔ اگر پاکستان پہلی افغان رشین جنگ میں جو اس زمانے کے فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے اپنے اوپر نہ مسلط کرائی ہوتی تو 40لاکھ افغانی مہاجر ہمارے ملک میں نہیں آتے تو ہم امن سے رو رہے تھے ، آج بھی امن سے ہوتے،ہمارے پاس اسلحہ ، منشیات نہیں ہوتی، پھر اس کی رہی سہی کسر ہمارے دوسرے ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے پوری کردی جو آج کل پاکستان سے باہر ہیں اور غداری کے مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔وہ امریکہ اور نیٹو ممالک کی دھمکیوں میں نہ آتے تو ہماراپاکستان امن کا گہوارہ ہوتا نہ کہ دہشت گرد ممالک کی فہرست میں شامل کیا جاتا۔ افغانستان کی جنگ میں پاکستان کی سلامتی داؤ پر لگ چکی ہے اسی وجہ سے خود پاکستانی باہر ممالک کی شہریت حاصل کر رہے ہیں۔ صنعتکار ، انجینئرز ، ڈاکٹر ز سر فہرست ہیں وہ الگ بات ہے کہ دیار غیر میں اب تو ان کی مصیبتیں بھی آسان ہو چکی ہیں کم از کم زندہ ہیں اور خطروں کے دور سے دور ہیں ۔بچے محفوظ ہیں اور عمدہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں مگر سب مشینی زندگی گزار رہے ہیں ۔ یہاں کی طرح آسائشیں تو نہیں ہیں مگر آئے دن کے ہنگاموں ، دھماکوں سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کے باشندے اتنی آسائشیں اٹھا کر پاکستان کو برا بھلا کہتے ہیں ۔ اتنی دولت ، خوشحالی ، سبزہ زار ، سر زمین ہونے اور 2دو سمندروں سے فائدہ اٹھا کر بھی وہ خوش نہیں ہیں ، خود اپنی اپنی پسند کی جماعتوں کو بار بار آزما کر پھر اپنے اوپر مسلط کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں جو ہر طرح کی کرپشن میںایک دوسرے سے آگے ہیں ۔ نت نئے اسکینڈلز ہماری عدلیہ پکڑ چکی ہے مگر نہ کسی کو سزا ہوئی اور اگر سزا ہوئی تو اس پر عمل در آمد نہیں ہوسکا۔ قانون کی شقیں راہ میں حائل ہوجاتی ہیں اور اب تو ایک ادنی شہری بھی قانون کی دسترس سے باہر ہے ۔ اگر اس کو روکنے کی کوشش کریں تو ہڑتال کی دھمکیاں ، انتظامیہ کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں جس سے کرپشن کی حدیں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں۔ بڑی بے باکی سے پولیس ، انتظامیہ ، بیوروکریٹس ڈھٹائی سے رشوت لیتے ہیں ، مہنگائی ، بجلی ، گیس اور ڈالرز کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے منسلک ہو کر دگنا اور تگنا منافع لینے کی اب پوری قوم کو عادت ہو گئی ہے ۔ 10روپے سیر کا ٹماٹر 150روپے میں خریدنے پر کوئی احتجاج کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ رمضان المبارک اور خاص مواقعوں پر تو انتظامیہ کی ملی بھگت سے قیمتوں میںدوگنا اضافہ کردیا جاتا ہے۔کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتااور نام پاکستان کا بد نام ہوتا ہے ۔ اپنے اپنے گریبان سب نے سی رکھے ہیں ۔کرپشن کوئی کرے پاکستان نے کیا بگاڑا ہے جو اس کو برا بھلا کہہ کر اپنا غصہ ختم کیا جاتا ہے ۔ کوئی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہے کہ اس تنزلی میں سب کا برابرحصہ ہے ۔ نہ وہ اساتذہ رہے ، نہ وہ تعلیم ، نہ درس گاہیں ، گزشتہ 30سالوںمیں ہم 100سال پیچھے جا چکے ہیں ۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ان 30سالوں میں خلیجی ممالک فن کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں اور ہمارے پاکستانیوں کی ابتدائی محنتوں سے آج وہ بنک ، انشورنس ، تجارت ، بڑی بڑی عمارتیں ، ان کی ائیر لائنز کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہیں اور ہم پستی کی طرف بڑی تیزی سے گامزن ہیں ۔ یہ پستی کہاں تک پہنچے گی اس کی کوئی حد نظر نہیں آتی لیکن میری قوم سے درخواست ہے کہ اپنے گناہوں کو چھپا کر خود پاکستان کو برا بھلا نہ کہیں ۔ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں سے سبق سیکھ کر دوبارہ پاکستان کی عظمت کو بحال کریں۔یہ بات یاد رکھیں جو قوم صبح سوتی رہتی ہے وہ ہمیشہ بھیک پر زندہ رہتی ہے ، جو قوم صبح ہی سے جاگ کر کاموں پر لگ جاتی ہے وہ بھیک دیتی ہے ۔ بدقسمتی سے یہ بیماری ہماری قوم میں سرایت کر چکی ہے ، لہٰذا ہم سب سے بھیک جمع کر کے اپنی قوم کو پیچھے لے جا کر بھیک کے عادی بنا چکے ہیں۔

تازہ ترین