• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوات کی وادی کالام میں دریائے سوات پر قائم ڈولی لفٹ گرنے سے پانچ افراد کی ہلاکت کا سانحہ متعلقہ اداروں اور حکام کی فوری توجہ کا متقاضی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق کالام کے علاقہ پالیر اشورنگ میں ہفتے کو سات افراد دریائے سوات عبور کرنے کے لئے ڈولی لفٹ میں سوار ہوئے مگر کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد ڈولی کا رسہ ٹوٹنے سے دریا میں جا گرے، واقعے کے فوراً بعد مقامی افراد نے جائے حادثہ پر پہنچ کر اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کارروائی شروع کر دی اور دوافراد کو زندہ بچا لیا۔ اس سے قبل 29جون کو عید الفطر کے چند روز بعد مری میں دودیہی علاقوں کو آپس میں ملانے کیلئے چلنے والی ڈولی لفٹ کھائی میں گرنے سے بھی بارہ افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ پنجاب اور سندھ کے بعض علاقوں کے علاوہ آزاد کشمیر ، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں تفریحی مقامات کے علاوہ اکثر دریا و ندی نالے پار کرنے کیلئے بھی نجی اور سرکاری سطح پر چیئر لفٹس چلائی جاتی ہیں اور ان میں سے بیشتر کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جاتی جبکہ گنجائش سے زیادہ افراد سوار کرنے کی شکایات بھی عام ہیں جس وجہ سے حادثات پیش آتے ہیں۔ مذکورہ واقعے میں بھی ڈولی لفٹ میں گنجائش سے زیادہ افراد سوار تھے اور ممکنہ طور پر حادثہ اوور لوڈنگ کے سبب ہی پیش آیا ہے۔ تاہم پولیس کے مطابق یہ ڈولی لفٹ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں تھی بلکہ 2010ء میں دریائے سوات پر قائم پُل سیلاب کی نذر ہونے کے بعد سے مقامی لوگوں نے دریا کے آر پار آنے جانے کے لئے اپنے طور پر لگائی تھی۔ دریامیں گرنے والے تمام افراد طالب علم تھے اوردریا عبور کرنے کیلئے لفٹ میں سوار ہوئے تھے۔ اس حادثہ سے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کی ضرورت پوری طرح واضح ہے۔ آئے دن پیش آنے والے اس طرح کے حادثات کے تدارک کے لئے حکومت کو جہاں انفرااسٹرکچر کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہئے وہیں پر سیکورٹی کلیئرنس تک تمام نجی و سرکاری ڈولی لفٹس، چیئر لفٹس اور کیبل کار وغیرہ پر پابندی لگا دینی چاہئے تاکہ انسانی جانوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔

تازہ ترین