• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف نے اپنی حالیہ رپورٹ میں اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستانی روپے کی قیمت اس کی حقیقی قدر سے 10 سے 20 فیصد زیادہ ہے۔ آئی ایم ایف کی اس رپورٹ کا تجزیہ میں گزشتہ دنوں ڈالر کی قدر میں ایک دن میں ساڑھے تین روپے کے اضافے سے کروں گا جس سے صرف ایک دن میں لوگوں کو کروڑوں روپے کا منافع اور کچھ کو کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو ڈالر کے انٹربینک ریٹ 104.75 روپے سے بڑھاکر 108.25 روپے کرنے کی ہدایت کی تھی جس کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر 108.50 روپے کی قیمت پر فروخت ہوا۔ قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک کے بقول اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر میں 3.1 فیصد کمی، ملکی کرنٹ اکائونٹ خسارے اور ایکسپورٹس میں کمی کے پیش نظر کی تھی۔ اگلے دن وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسلام آباد میں گورنر اسٹیٹ بینک اور تمام نجی بینکوں کے صدور کا اجلاس طلب کیا اور بتایا کہ ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھائو رابطے کے فقدان کے باعث ہوا اور حقیقتاً ڈالر میں اضافے کی کوئی وجہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی فرد واحد کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ ڈالر کی قدر کی ایڈجسٹمنٹ کرے بلکہ مارکیٹ کی قوتیں ڈالر کی قدر کا تعین کرتی ہیں۔ حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر ایف بی آر کے سابق چیئرمین اور سیکریٹری فنانس طارق باجوہ کو اسٹیٹ بینک کا نیا گورنر نامزد کیا ہے اور انہیں 10 دن میں شفاف تحقیقات مکمل کرنے کاحکم بھی دیا کہ ڈالر مہنگا ہونے سے کس نے فائدہ اٹھایا۔
میرا حکومت سے سوال ہے کہ وزیر خزانہ کی پاناما جے آئی ٹی میں پیشی اور مصروفیات کے باعث چند افراد نے رابطے کے فقدان اور صورتحال کا فائدہ اٹھاکر روپے کی قدر میں اتنی زیادہ کمی کردی جس سے کئی امپورٹرز کو اربوں روپے کا نقصان اور ایکسپورٹرز کو اربوں روپے کا فائدہ ہوا جبکہ کرنسی ڈیلرز نے ڈالر کی طلب میں شدید اضافے کے پیش نظر کئی گنا منافع کمایا، ان سب عوامل کا ذمہ دار کون ہے؟
وزیر خزانہ سے میرا یہ بھی سوال ہے کہ آئین کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے جسے کسی مداخلت کے بغیر روپے اور دیگر غیر ملکی کرنسیوں کی قدر متعین کرنے کا اختیار حاصل ہے اور اس طرح قائم مقام گورنر کے روپے کی قدر میں کمی کے فیصلے کو رابطے کا فقدان یا کسی فرد واحد کی غلطی قرار دینا سراسر غلط ہے کیونکہ ملک کےمالی اور مالیاتی امور کا فیصلہ کوئی فرد واحد نہیں بلکہ ادارے کرتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک ایک خود مختار ادارہ ہونے کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی یا اضافہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
ایک صنعتکار اور ایکسپورٹر ہونے کے ناطے میں اس بات سے بخوبی آگاہ ہوں کہ ڈالر کی قدر ساڑھے تین روپے بڑھنے کی وجہ سے ہمارے کئی ایکسپورٹرز نے اپنے بیرونی خریداروں سے کئی بڑے سودے کئے لیکن دوسرے دن حکومتی مداخلت کے باعث ڈالر کی قدر دوبارہ تقریباً پہلے کی سطح پر آگئی اور اب ان ایکسپورٹرز کو اپنے آرڈرز کی تکمیل پر یقینا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ میرے نزدیک یہ تمام چیزیں حکومت اور اداروں کی خود مختاری پر سوالیہ نشان ہیں۔ پاکستانی ایکسپورٹرز ملکی ایکسپورٹس میں مسلسل 3 سالوں سے کمی کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی کے خواہاں ہیں۔ ہمارے ایکسپورٹرز چین، ترکی، بھارت اور بنگلہ دیش کی مثال دیتے ہیں جن کی حکومتوں نے مقامی کرنسی کی قدر میں کمی کرکے اپنی ایکسپورٹس کو بڑھایا ہے لیکن وزیر خزانہ اسحاق ڈار روپے کو مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، اس لئے انہوں نے انٹربینک میں پاکستانی کرنسی کی قدرکو 104-105 روپے کی حد پر رکھا ہوا تھا جو بڑھ کر 108.25روپے تک پہنچ گئی تھی لیکن حکومتی مداخلت سے اب 105.50 روپے پر آگئی ہے مگر ذرائع کے مطابق اِسے مستقبل میں 105 سے 107 روپے کے درمیان رکھنے پر اتفاق ہوا ہے کیونکہ روپے کی قدر کم کرنے سے پاکستان کے بیرونی قرضوں میں راتوں رات اضافہ ہوجائے گا۔ وزیر خزانہ کے بقول ڈالر کی قیمت میں ساڑھے تین روپے اضافے سے 230 ارب روپے قرضے کی مد میں بڑھ جاتے ہیں۔
ماضی میں پاکستان میں ڈی ویلیوایشن کے اثرات مثبت نہیں نکلے۔ جب بھی پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی گئی، ایکسپورٹرز نے اِس کا فائدہ بیرونی خریداروں کو ڈسکائونٹ کی شکل میں منتقل کردیا اور ملکی ایکسپورٹس میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا جس کی وجہ سے میں پاکستانی کرنسی کی یکدم ڈی ویلیو ایشن کے خلاف ہوں اور روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کا حامی ہوں۔ ایکسپورٹس میں اضافے کیلئے ڈی ویلیوایشن کے بجائے حکومت کو ایکسپورٹرز کی مقابلاتی سکت برقرار رکھنے کی ضرورت ہے جس کیلئے حکومت کو ایکسپورٹرز کے دو سال سے 200 ارب روپے سے زیادہ سیلز ٹیکس ریفنڈ کی ادائیگی کرنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ایکسپورٹس پر عائد اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں کو ختم کیا جانا چاہئے جبکہ بجلی اور گیس کے نرخوں کو قابل برداشت بنایا جائے۔ اس کے علاوہ حکومت کو پاکستان کے اہم تجارتی پارٹنرز کے ساتھ ترجیحی (PTA) اور آزاد تجارتی (FTA) معاہدے بھی سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے جس سے ہمارے ایکسپورٹرز کو ان مارکیٹس میں رسائی مل سکے گی۔ افسوس کی بات ہے کہ یورپی یونین سے جی ایس پی پلس کی ڈیوٹی فری ایکسپورٹ سہولت حاصل ہونے کے باوجود یورپی یونین ممالک کو ہماری ایکسپورٹس میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
خطے میں مقابلاتی حریفوں کی کرنسیوں کے مقابلاتی جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ 2013ء کے بعد چین اور بھارت کی کرنسیوں کی قدر میں کمی ہوئی جبکہ اس دوران پاکستانی روپے کی قدر مستحکم رہی لیکن اس کے باوجود چین اور بھارت کی ایکسپورٹس میں کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔26 ستمبر 2013ء کو اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرکر 110.50 روپے کی نچلی ترین سطح تک پہنچ گئی جس نے کاروباری طبقے میں بے چینی پیدا کردی اور لوگ بڑی تعداد میں ڈالر خریدنے لگے۔ انٹربینک میں بھی ڈالر 110 روپے تک جاپہنچا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے فوری مداخلت کرکے 50سے 60ملین ڈالر اوپن مارکیٹ میں داخل کئے جس سے ڈالر کی طلب میں کمی ہوئی اور انٹربینک میں ڈالر 106.95روپے تک آگیا۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے اور روپے کی قدر کم ہونے سے ملک میں مہنگائی کا سیلاب آسکتا ہے جو غربت میں اضافے کا سبب بنے گا۔ معیشت دانوں کا خیال ہے کہ پاکستان کی ایکسپورٹ کا دارومدار خام مال کی امپورٹ سے ہے، ڈالر کی قدر بڑھنے سے ملکی امپورٹس بالخصوص خام مال ، پیٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوجائیں گی جو ملک میں مہنگائی اور افراط زر کا سبب بنےگے۔
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کا تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر سے زیادہ ہوچکا ہے اور سی پیک کی امپورٹس کے مدنظر 2019ء تک کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3.4 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی، ایکسپورٹ، ترسیلات زر، بیرونی سرمایہ کاری اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے پاکستانی روپیہ دبائو کا شکار رہے گا لہٰذا حکومت کو روپے کی قدر کے سلسلے میں سخت مانیٹرنگ کرنا ہوگی تاکہ سٹے باز صورتحال سے ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکیں۔

تازہ ترین