• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاست میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ صرف پاناما کیس کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کے دیگر اسباب بھی ہیں ۔ پاکستان اس وقت خوف ناک سیاسی اور سماجی تقسیم ( پولرائزیشن ) کے عمل سے دوچار ہے ۔ اگر موجودہ سیاسی بحران اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچا تو یہ پولرائزیشن مزید خطرناک ہو جائیگی ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے اس وقت استعفیٰ کا جو مطالبہ کیا جا رہا ہے ، اس کیلئے جواز اگرچہ پاناما کیس نے فراہم کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مطالبہ کوئی اور بھی سیاسی جواز تلاش کر سکتا تھا ۔
2014 ء میں جب پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے میں یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ وزیر اعظم استعفیٰ دے دیں تو اس وقت ملک کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں میاں محمد نواز کو بچانے کیلئے میدان میں آگئی تھیں اور مسلم لیگ (ن) کے اس بیانیے کو دہرا رہی تھی کہ غیرسیاسی قوتیں جمہوری حکومت کے خلاف سازش کر رہی ہیں ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کی زیادہ سیاسی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کے اس مطالبے کی حمایت کر رہی ہیں کہ وزیر اعظم فوری طور پر استعفیٰ دے دیں ۔ ’’ میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر ، لوگ ساتھ آتےگئے اور کارواں بنتا گیا ‘‘ کے مصداق عمران خان نے جو سفر اکیلے شروع کیا تھا ، اب اسے وہ ایک کارواں کیساتھ آگے بڑھا رہے ہیں ۔ وزیر اعظم سے استعفیٰ کے مطالبے میں جو سیاسی جماعتیں اب شامل ہوئی ہیں ، وہ جانتی ہیں کہ پاناما کیس کا ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے مگر اس کے باوجود اس مطالبے میں شامل ہو گئی ہیں ۔ پاناما کیس کا جو بھی فیصلہ ہو ، اس سے قطع نظر، وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کیخلاف ایک سیاسی تحریک بن چکی ہے ۔ سیاست دانوں کیساتھ ساتھ وکلا، دانشور ، محنت کش حلقے اور عام لوگ بھی استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بعض سینئر رہنما بھی اس مطالبے کی حمایت کر رہے ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے جو حلقے وزیر اعظم کو ڈٹے رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں ، ان کے پاس اس صورت حال کا سیاسی طور پر مقابلہ کرنے کیلئے کوئی واضح پروگرام نہیں ہے ۔ وزیر اعظم سے استعفے کے مطالبے کے پس منظر میں وہ تاثر ( Perception ) کام کر رہا ہے ، جس کے مطابق شریف خاندان معاشی اور سیاسی طور پر بہت زیادہ طاقتور ہو گیا ہے اور اب اس کا انحصا ر عوام کی بجائے اپنی طاقت پر ہے ۔ اس تاثر نے عوام سے ان کا سیاسی رشتہ کمزور کر دیا ہے ۔ ویسے بھی سیاسی جماعتوں کا عوام پر انحصار وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتا رہا ہے ۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا بھر خصوصاً تیسری دنیا کے ملکوں میں سیاسی تحریکیں کمزور ہوئیں ۔ سیاسی قیادت نے عوامی طاقت کو ایک سیاسی فیکٹر ( عامل ) کے طور پر نظر انداز کرنا شروع کر دیا ۔ غیر سیاسی اور آمرانہ قوتوں کا مطالبہ کرنے کیلئے تیسری دنیا کے سیاسی خانوادوں (Dynasties ) نے دولت اور ملکی و بین الاقوامی اشرافیہ کیساتھ لابنگ پر انحصار بڑھا دیا اور ہر مسئلے کا حل دولت کو گردانا ۔ انہوں نے طاقت کے مراکز کو پیسے سے زیر کرنے کے فارمولے پر عمل کیا اور ایک مرحلے میں اس میں کامیابیاں بھی حاصل کیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے تیسری دنیا کے سیاست دان دنیا کے امیر ترین اور بااثر لوگوں میں شامل ہو گئے اور سیاست پیسے کا کھیل بن گئی ۔ بعض عرب ممالک میں جمہوری حکومتیں آمریت میں اور آمرانہ حکومتیں بادشاہت میں تبدیل ہو گئیں ۔ اپوزیشن کے سیاست دانوں نے بھی دولت کا سہارا لیا ۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کا طرز زندگی بادشاہوں سے بھی زیادہ پرشکوہ ہو گیا ۔ سیاست دولت کا ہی دوسرا نام بن گیا ۔ سیاسی رہنما کی پہچان یہ بن گئی کہ بڑے بڑے محلات ہوں ۔ اس کے ارد گرد سیکورٹی کے کئی حصار ہوں ۔ عام سیاسی کارکن کی اپنے رہنما تک پہنچ نہ ہو ۔ عوام سے زیادہ اس کا تعلق ملکی اور بین الاقوامی اشرافیہ سے ہو ۔ ارب پتی کاروباری شراکت دار اس کے سیاسی مشیر ہوں اور پوری سیاسی جماعت ان چند قریبی مشیروں کے تابع ہو ۔ وہی نظریہ ساز ، وہی مذاکرات کار اور وہی سیاسی دانشور ہوں ۔ اس کے بعد دوسری پرت میں ایسے سیاسی رہنما ہوں جو کسی طرح یہ حصار توڑ کر اندر گھس گئے ہوں اور پھر وہ باقی لوگوں کا راستہ روکیں ۔ سیاسی کارکن پارٹی کے بااثر رہنماؤں کے کارندے یا ملازم بن کر رہیں اور چھوٹے چھوٹے مفادات حاصل کرتے رہیں ۔ یہ کارندے عام لوگوں کو سیاسی رہنماؤں کے قریب نہ آنے دیں ۔ سیاسی جماعتوں میں نیا خون شامل نہ ہو اور سیاسی جماعتیں معاشرے کے سیاسی ارتقائی عمل سے الگ تھلگ ہو جائیں ۔ عرب ممالک کے زیادہ تر حکمراں سامراج مخالف اور ترقی پسند تھے لیکن ان کے شاہانہ طرز زندگی اور سیاسی عمل سے لاتعلقی نے عوام میں مایوسی ( فرسٹیشن ) پیدا کی اور ایک انتشار شروع ہوا ، جس نے ابھی تک اس خطے کو آگ و خون میں جھونک رکھا ہے ۔ حکمرانوں اور سیاست دانوں کی یہ دولت ان کی طاقت نہیں بلکہ ان کے اور عوام کے درمیان ایسی دیوار بن گئی ، جس طرح ان کے محلوں کی فصیل ہوتی ہے ۔ پاناما کیس نے لوگوں کے اس تاثر ( Perception ) کو الفاظ اور بیانیہ مہیا کر دیا ۔ صرف میاں محمد نواز شریف نے ہی نہیں بلکہ دیگر سیاست دانوں نے بھی اپنے بارے میں عوام میں ایسا ہی تاثر قائم کیا ہے ۔ سیاست اگر دولت کا کھیل بن جائے تو سیاسی ارتقاء کا عمل ’’Distort ‘‘ ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں سیاسی انتشار اور پولرائزیشن شروع ہو جاتی ہے ۔ پاکستان اسی کیفیت سے گزر رہا ہے ۔ جب تک ملک میں سیاسی جماعتوں کا عوام پر انحصار رہا ، تب تک غیر جمہوری قوتوں کو سازش کرنے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب صورت حال بہت مختلف ہے ۔ اس وقت دولت کے بل بوتے پر سیاست کیخلاف لوگوں کے جذبات تحریک میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ پاناما کیس کے فیصلے سے قبل لوگوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور وہ اس عمل کو صرف شریف خاندان تک محدود نہیں رکھنا چاہتے ۔ اس نعرے کو سیاسی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے کہ احتساب کا دائرہ وسیع کیا جائے ۔
میری دانست میں وزیر اعظم کو استعفیٰ کے مطالبے پر غور کرنا چاہئے ۔ یہ ان کیلئے ، ان کے خاندان اور ان کی پارٹی کیلئے بہتر ہو گا ۔ ملک مزید پولرائزیشن اور انتشار سے بچے گا اور لوگ خود پر امن سیاسی راستہ اختیار کریں گے ۔ وفاقی کابینہ اور مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاسوں میں جن لوگوں نے وزیر اعظم کو ڈٹے رہنے کا مشورہ دیا ہے ، دراصل ان کی پالیسی تصادم کی پالیسی ہے ۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی چند باتیں اخبارات میں شائع ہوئی ہیں ، جن کے مطابق انہوں نے اداروں کے ساتھ تصادم سے گریز کا مشورہ دیا ہے ۔ میرے خیال میں یہ ان کا صائب مشورہ ہے ۔ وزیر اعظم کس بات پر ڈٹے رہیں گے ۔ ملک میں گورننس اور معیشت کا بحران ہے ۔ لوڈشیڈنگ پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے ۔ مہنگائی نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے ۔ بیروزگاری کی شرح میں خوف ناک اضافہ ہوا ہے ۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ تباہ کن ہو گیا ہے ۔ خارجہ پالیسی میں ناکامیوں نے پاکستان کو تنہا کر دیا ہے ۔ وزیر اعظم کس بنیاد پر ڈٹے رہیں گے یا ٹکراؤ کا راستہ اختیار کریں گے ۔ ان کے پاس مزاحمت کرنے والی سیاسی جماعت بھی نہیں ہے ۔ تین دفعہ وہ وزیر اعظم بن چکے ہیں ۔ لیکن اب ٹکراؤ کی پالیسی انہیں ’’ داستان بھی نہ ہو گی داستانوں میں ‘‘ کی طرف لے جائے گی ۔ میاں شہباز شریف بھی تصادم سے گریز کا مشورہ دے رہے ہیں ۔ 1990 ء کے عشرے میں سیاست دانوں نے عوام کی بجائے دولت اور ملکی و بین الاقوامی اشرافیہ پر انحصار کی جو پالیسی اختیار کی تھی ، عوام اس پالیسی اور سیاست سے نفرت کر رہے ہیں ۔ اگر باقی سیاست دانوں خصوصاً عمران خان اور آصف علی زرداری نے حالات کا ادراک نہ کیا تو سیاسی بحران خطرناک صورت حال اختیار کر سکتا ہے کیونکہ دیگر قوتیں بھی اس صورت حال کا درست اندازہ لگا کر بیٹھی ہیں ۔ معاملہ پاناما کیس سے بڑھ کر ہے ۔

تازہ ترین