• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالت عظمیٰ میں آج (پیر)سے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر باقاعدہ سماعت کا آغاز ہو رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ دس جولائی کی سماعت کے دوران فریقین کو ہدایات دے چکی ہے کہ وہ اس مقدمے کے ضمن میں نئے دلائل پیش کریں اور پرانے مؤقف کو دہرانے سے گریز کریں۔ حکمراں جماعت جے آئی ٹی کی رپورٹ کو سرے سے ردی قرار دیکر مسترد کر چکی ہے لیکن شریف خاندان کی قانونی ٹیم کواپنی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کی روشنی میں عدالت عظمیٰ میں ثابت کرنا ہو گا کہ دس ضخیم جلدوں پرمشتمل محض 60دنوں میں محنت شاقہ کے بعد مرتب کردہ رپورٹ میں سب فسانے ہی ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں جے آئی ٹی کی رپورٹ کو اتنا مقدس گرادنتی ہیں کہ ان کے نزدیک عدالت عظمی کی مزید کارروائی صرف وقت کا ضیاع ہی ہے اس لئے کھیلن کو چاند مانگنے والے لاڈلوں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے۔ فریقین جو بھی کہیں یا سمجھیں امپائر اب عدالت عظمی ہی ہے جسےآؤٹ یا ناٹ آؤٹ کا فیصلہ کرنا ہے جبکہ بطور تماشائی عوام کی نظریں امپائر کی انگلی پر ہیں کہ وہ کھڑی ہوتی ہے یا نہیں۔ یہ بحث لاحاصل ہے کہ چھ ارکان پرمشتمل جے آئی ٹی کے پاس الہ دین کا کون سا چراغ تھا کہ اس نے متعلقہ ممالک کے دورے کئے بغیرفیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں بیٹھ کرمالیاتی امور سے متعلق ملکی تاریخ کی پیچیدہ ترین تحقیقات کونہ صرف مکمل کیا بلکہ ساٹھ دن کی مقررہ مدت کے اندر مختلف ممالک کے ریاستی اداروں سے خط و خطابت کر کے اتنے بھاری ثبوت بھی اکٹھے کرلئے جن کو سپریم کورٹ پہنچانے کیلئے ٹرالی استعمال کرنا پڑی۔ جے آئی ٹی کی شاید انہی کرامات کے باعث مسلم لیگ ن کے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ اسے ’ جن آئی ٹی ‘ کا خطاب دے چکے ہیں جبکہ محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ تو جے آئی ٹی کی کارکردگی سے اتنی متاثر ہوئی ہیں کہ انہوں نے مطالبہ کردیا ہے کہ ملک سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے، دہشتگردوں کے ٹھکانوں کا سراغ لگانے اور انصاف کی یقینی فراہمی کے امور بھی انہی ہیروں کو سونپ دینے چاہئیں۔ اسی جے آئی ٹی کے سربراہ جناب واجد ضیاء کی طرف سے اس وضاحت کے بعد کہ تحقیقات کیلئے جس برطانوی قانونی فرم کوئسٹ سولیسٹر کی خدمات حاصل کی گئی تھیں وہ ان کے کزن اختر راجا کی تھی ،اس معاملے پر بھی رائی کا پہاڑ بنانے کی ضرورت نہیں رہی بلکہ قوم کو ان کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ ان کی قرابت داری کے باعث سرکاری خزانے کو پینتیس فیصد بچت حاصل ہو گئی۔ یہ تاریخی کامیابی بھی اسی قانونی فرم کے طفیل ملنے والے فارنسک ماہر رابرٹ ڈبلیو راڈلیکی ذہانت کا نتیجہ ہے جو ’’کیلیبری فونٹ‘‘ کے استعمال کا انکشاف کرکے دور کی ایسی کوڑی لائے ہیں کہ جے آئی ٹی کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرنیوالے اب نظریں بچاتے پھر رہے ہیں۔ اس قدر دلجمعی سے کام کرنیوالی جے آئی ٹی کی سینکڑوں صفحات پر مشتمل رپورٹ میں پیش کئے گئے شواہد کی صحت کی جانچ پڑتال توعدالت عظمی ہی کریگی جبکہ تمام فریقین اپنا موقف درست ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے اسلئے رپورٹ میں شامل دستاویزات پر رائے زنی مناسب نہیں تاہم ان سطور میں جے آئی ٹی کے ارکان کے اس رویے کی نشان دہی ضروری ہے جسے متاثرہ فریق تعصب پر مبنی قرار دیکر ناک بھوں چڑھا رہا ہے۔ پاناما پیپرزکی تحقیقات پرنظر رکھنے والے بخوبی آگاہ ہیں کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا فیصلہ دیتے ہوئے اسے دو ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات دی تھیں۔اس مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کو وزیر اعظم محمد نواز شریف اور انکے خاندان کے اثاثوں اور کاروبار سے متعلق تیرہ سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن جیسا پہلے عرض کیا کہ جے آئی ٹی نے اپنی بساط سے بڑھ کر خدمات سر انجام دی ہیں اور تو اور جے آئی ٹی نے تو پیش ہونے والے گواہان کی شخصیت کا مکمل احاطہ کرتے ہوئے اڑتی چڑیا کے پرتک گن ڈالے ہیں۔
اب جو تحقیقاتی افسران سینیٹر رحمان ملک جیسے ذہین شخص کے دل کا حال جان لیں وہ تو واقعی غیر مرئی قوتوں کے مالک ہونگے کیونکہ رحمان ملک کے بارے میں پیپلز پارٹی کے رہنما ذوالفقار مرزا نے سندھ کے صوبائی وزیر داخلہ ہوتے ہوئے انکشاف کیا تھاکہ موصوف کو ٹیلی فون کریں اور یہ کیلا کھا رہے ہوں تو آپ کے پوچھنے پر کہیں گے کہ وہ تو سیب کھا رہے ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر کسی کوجے آئی ٹی یا رحمان ملک کی صلاحیتوں پر کوئی شک ہے تو وہ یوٹیوب پر موجود ذوالفقارمرزا کے دعوے پر مبنی اس ویڈیوکو دیکھ سکتا ہے۔ جے آئی ٹی نے شاید انہی پوشیدہ اوصاف کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں بڑے دھڑلے سے لکھ دیا کہ رحمان ملک ایک چالاک، تشہیر پسند، مفروضوں پر بات کرنیوالے سیاسی طور پر متحرک شخص ہیں۔ جے آئی ٹی نے شاید سیب کھانے والی بات سن رکھی تھی جو یہ بھی لکھ دیا کہ رحمان ملک نے انہیں گمراہ کن جواب دیئے اور ان کی دلچسپی تفتیش میں معاونت کی بجائے سیاسی مقاصد کے حصول میں زیادہ تھی۔ اسی طرح جے آئی ٹی نے تفویض اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے جناب وزیر اعظم کے داماد کیپٹن کے اس انتہائی ذاتی معاملے کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنا ڈالا کہ وہ شریف خاندان سے پندرہ سو ریال ماہانہ وظیفہ لیتے ہیں۔ اب ایسی باتیں ضبط تحریر میں لاتے ہوئے جے آئی ٹی کو کم از کم ہماری سماجی اقدار اور بالخصوص ثقافت کا تو خیال رکھنا چاہئے تھا۔ یہی نہیں جے آئی ٹی نے انہیں پینترے بدلنے والا شخص بھی قرار دے دیا حالانکہ دوران تفتیش وہ گھنٹوں اپنی ایمانداری ،خود داری اور سب سے بڑھ کر خود مختاری کا یقین دلاتے رہے۔ ایسی جے آئی ٹی سے کسی نرمی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ جس نے تحقیقات کی ’’شفافیت‘‘ میں اتنی غیرجانبداری برتی کہ مرد وزن کی تفریق بھی بھلا دی۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے ایس ای سی پی کی خاتون ڈائریکٹر کے بارے میں ایسے الفاظ کا استعمال کیا جو مناسب نہیں تھے۔ سپر سکس جے آئی ٹی نے ایسی ای سی پی کی اس معززخاتون کو ’’خطرناک کردار‘‘ قرار دیا اور جس بیانیے میں ایسا تحریر کیا گیا وہ بے نظیر صلاحیتوں سے مالا مال یہ جے آئی ٹی ہی کر سکتی تھی۔ پاکستان کے مستقبل کا تعین کرنے پرمبنی رپورٹ دینے والی تحقیقاتی ٹیم کو اپنے کام میں اتنی مہارت حاصل تھی کہ ذہن کو تھکا دینے والے اس قدر پیچیدہ اور گنجلک امور کی انجام دہی کے دوران بھی اسے عہدوں اور اداروں کے تقدس کا بھرپور احساس تھا۔ اسلئے اس نے صرف سابق چیئرمین نیب کو ہی ’’سر‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جبکہ رپورٹ میں پوری ایمانداری سے اس کا ذکر کر کے ثابت کر دیا کہ ماتحت افسران ہونے کے باوجود وہ تو وزیراعظم جیسے اعلیٰ عہدے کو بھی کسی خاطر میں نہیں لائے۔ اب اتنی باریکیوں اور اونچ نیچ کا خیال رکھنے والی جے آئی ٹی کے کام میں بھی کوئی کیڑے نکالے اور اسکی رپورٹ پر استعفیٰ دینے کی بجائے اس پر اعتراضات اٹھائے تو اسے ’’ہٹ دھرمی‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں جے آئی ٹی کی اتنی ’’گرانقدر‘‘ خدمات پر ایک تمغہ تو بنتا ہے ۔

تازہ ترین