• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سچی بات یہ ہے کہ زندگی ہمیشہ سمندر کی طرح رواں دواں رہتی ہے۔ اس کی تہہ میں کئی طوفان شور برپا کرتے رہتے ہیں مگر سطح پرسکون کی ہموار چادر بچھی رہتی ہے۔ ہاں کبھی کبھی کچھ شریر موجیں درد موسم کے حبس زدہ ماحول سے برہم ہو کر بغاوت پر اتر آتی ہیں۔وہ اپنے دائرہ کار یعنی کناروں سے باہر نکل کر ساحل کی خشک زمین سے بغل گیر ہوکر اسے بھی سیراب کر دیتی ہیں۔ جذبات کا غبار ہوا ہوتے ہی واپس لوٹ آتی ہیں یہ اور بات ہے کہ پلک جھپکنے کی اس ہلچل میں منظرنامے سے بہت کچھ غائب ہو جاتا ہے۔کائنات کے ہر منظر کے باطن میں گہری دانش پنہاں ہے۔سوچ کی تار کائنات کے باطن سے جُڑ جائے توسمندر میں مخفی اسراراور خزانے سطح پر ظاہر ہونے لگتے ہیں۔کائنات اور انسان کی دھڑکن اک لے پر رقص کرنے لگتی ہیں۔دوئی ختم ہو جاتی ہے اور ہر شے وحدت میں ڈھل جاتی ہے۔زندگی کے تسلسل میں اشیااور مناظر تبدیل ہوتے ہیں ختم نہیں ہوتے۔ فطرت کے دامن میں کوئی کوڑے دان نہیں، ہر شے ایک مخصوص وقت میں چکر کاٹ کر نئے سرے سے نئی صورت لیکر سامنے آتی ہے۔درخت کی خشک ٹہنیوں سے نئے بیج نمودار ہوتے ہیں اور پتے ان بیجوں کے لئے کھاد بن کر ان کی افزائش کو ممکن بناتے ہیں۔حتٰی کہ پھول سے نکل کر خوشبو بھی ضائع نہیں ہوتی بلکہ اپنے مثبت کیمیکل سے ہوا کی تطہیر کرکے اسے سانس لینے کے قابل بناکر وجود کے خلیوں کو معطر کرتی ہے۔تمام صاحب بصیرت دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ کائنات میں مکمل موت وجود نہیں رکھتی بلکہ انتقال کا سلسلہ جاری ہے۔ زندگی کے مختلف درجے ہیں ہر لمحے کے ساتھ ترقی کا سفر جڑا ہوا ہے۔ جو بظاہر تنزلی نظر آتی ہے وہ بھی حقیقتاً ترقی کی ہی صورت ہے۔اعلیٰ شکل میں ڈھلنے کے لئے ادنیٰ کو اپنی پہلی صورت قربان کرنا پڑتی ہے بلکہ یوں کہئے ہرشے اپنا روپ بدلتی ہے اور اپنے پہلے محدود دائرے سے نکل کر وسیع احاطے میں بسیرا کرتی ہے ۔
مولانا روم کے مطابق انسانی روح جب روح مطلق سے جدا ہوئی تو امکانات کی پست ترین حالت میں سامنے آئی یعنی کائنات میںزندگی کا آغاز جمادات سے ہواجس میں حرکت مفقود تھی اگرچہ نشونما کا سلسلہ اس سطح پر بھی جاری تھاکیونکہ پتھر ٹوٹ کر ریت بھی بنتے ہیں اور چٹانیں بھی۔زمین اور چٹانوں کے اندر بھی بننے بگڑنے کا عمل جاری رہتا ہے اس کے بعد نباتات کا مرحلہ آیا جس میں کسی حد تک حرکت بھی تھی اور نشونما بھی مگر شعور ناپید تھا۔نباتات کے بعد حیوانات کی سطح پر حرکت بھی تھی، نشونما کا سلسلہ بھی تھا اور کسی حد تک حیوانی درجے کا فہم بھی تھا۔ جو بھوک، پیاس اور نسل کے حوالے سے رہنمائی کرتا تھا۔اس کے بعد انسان کی شکل میں نمودار ہوئی جہاں روح انسانی کو اپنی لامتناہی حیثیت کا علم ہوا کیونکہ اس درجے پر شعور، فکر، حرکت سب کچھ موجود تھا۔ خدا سے الگ ہونے کی تڑپ نے عشق کی شکل اختیار کی اور وجود میں ایک دائمی ہجرنے جنم لیا۔بانسری کی طرح اپنی اصل کو یاد کرتے انسان کے باطن سے نالہ پھوٹا،درد اور آہیں ابھریں اور کرب کی کیفیت نے جنم لیا۔انسانی وجود زندگی کا آخری پڑائو نہیں جمادات سے نباتات اور نباتات سے حیوانات اور پھر انسان تک کی تمام شکلیں کیونکہ ہمارے سامنے موجود ہیں اسلئے ہم یہیں تک زندگی کے ارتقاکو تصور کرتے ہیں۔جبکہ انسانی وجود کا خاتمہ دراصل انتقال ہے جو کسی اور شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ نئی شکل مادے کی کثافت سے مکمل طور پر پاک ہوتی ہے۔اسلئے ہماری ظاہری نظر میں اس کو دیکھنے پر قادر نہیں بقول رومی، میں موت سے خوفزدہ نہیں اسلئے کہ اپنی سابقہ حالتوں میں کبھی میری تنزلی نہیں ہوئی پھر میں کیسے مان لوں کہ موت کے بعد ایسا ممکن ہو گا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس منزل کا مجھے شعور نہیں جو ظاہری موت کے بعد ملنے والی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ موجودہ حالت سے بہت بلند ترہوگی ہمارے اردگرد بسنے والے تمام انسان دانش اور روحانی صلاحیتوں کے حوالے سے برابر نہیں۔یہ قدرت کا فیصلہ ہے وہ نظام حیات کو چلانے کے لئے مختلف انسانوں کو مختلف شعبوں کے لئے موزوں اجسام اور باطنی آگہی سے نواز کر دنیا میں بھیجتا ہے۔کچھ دماغی مشقت کرتے ہیں اور کچھ جسمانی۔ بہت کم تر شعور والے خدمت یعنی غلامی اور چاکری کرتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسے لوگ خود بھی اس عمل میں خوش رہتے ہیں۔ انھیں کسی کے زیرسایہ رہنے میں سہولت محسوس ہوتی ہے کیونکہ خود بڑے فیصلے کرنے اور چیلنجز کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ حالات اور معاشرے کا خوف انھیں اس بات پر اکساتا ہے کہ وہ کسی بڑی شخصیت کے سائے تلے زندگی بسر کریں۔دنیا میں موجودہ مرحلے اور درجے کے مطابق ظاہری موت کے بعد انسان کو اگلی منزل ملتی ہے ۔ اولیا جن پر ظاہروباطن کی کئی تہیں عیاں ہو چکی ہوتی ہیں۔ موت کو نجات سے موسوم کرتے ہیں فیثا غوث جسم کو پنجرے اور انسانی روح کو قید سے تشبیہ دیتے ہوئے نجات کی دعا کرتے ہیں، اولیابھی خدا کے قرب کے لئے موت کو خوش آمدید کہتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ روح مطلق سے دائمی وصل کا آغازہے۔ یوںاس دنیا سے پردہ کرنے کے بعد مٹی یعنی مادیت کا سفراختتام پزیر ہوتا ہے جبکہ لطافت کے ساتھ انسان ترقی کا ایک اور زینہ طے کرتا ہے۔ مگر وہ جو ابھی تک حیوانی سطح پر ہیں وہ نہ جانے کتنی بار موت کا ذائقہ چکھ کر انسانیت کے شرف تک پہنچیں گے یہ ایک تفصیلی بحث ہے جو ایک کالم میں بالکل نہیں سما سکتی۔ وہ لوگ جو باطن میں جھانکنے اور اسے اپنارہنما بنانے کی بجائے مادیت اور جبلت کے تابع رہنے کو اپنی بڑائی سمجھتے ہیں وہ انسانیت کے درجے پر فائز نہیںہوتے کیونکہ انسان کا امتیاز عقل و شعور، وجدان اور عشق ہے۔اسی لئے غالب نے آدمی اور انسان میں تمیز کی بات کی تھی۔(آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا) عقل اورشعور کی مدد سے انسان اپنے وجود پر بھی حکمرانی کرتا ہے اور کائنات کو بھی تسخیر کے دائرے میں لاتا ہے۔ ارسطو کے اس فلسفے ،کہ تمام انسان برابر نہیں پر یقین کے باوجود ہر انسان کو اسقدر عقل و شعور ضرورودیعت کیا جاتا ہے کہ وہ ریاضت اور تعلیم کی مدد سے حیوانی سطح سے بلند ہو کر، غلامی کا لباس اتار کر آزادی کی فضا میں سانس لے سکے۔ کبھی کبھی فضا بھی محبوس ہو جاتی ہے منفی قوتیں ہوا کو قید نہیں کر سکتیں مگر اسے زہرآلودہ ضرور کر دیتی ہیں تاکہ آزاد منش پرندے خوشی سے پرواز نہ کر سکیں۔ اگر ہم اپنے اندر کی روشنی سے استفادہ کریں تو کائنات میں پھیلے اندھیرے مٹ سکتے ہیں۔ زندگی کا حسن آزادی اور مثبت سوچ میں مضمر ہے۔زندگی کے کبھی نہ ختم ہونے والے سلسلے کو خوشگوار بنانے کے لئے جدوجہد ضروری ہے۔احمد ندیم قاسمی جو انسانیت اور اخوت کا علمبردار شاعرہے نے کہا تھا
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا
دریا کا سمندر میں اترنا اپنے سے اعلیٰ ترمیں ضم ہونا ہے یہ بھی انتقال ایک سلسلہ ہے جو پوری کائنات میں ازل سے ابد تک جاری رہے گا صوفیا نے اپنے آج کے صائب عمل سے کل کو روشن کرنے کی جو شمع روشن کی ہے وہ بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔ہم جس قدر اپنے وجود کو خیر کا منبع بنائیں گے اگلے پڑائو میں اسی حوالے سے ہماری ترقی کا معیار طے کیا جائیگا اور ہمیں روحانیت سے سرفراز کیا جائیگا ۔ آئیے آج سے اپنے منفی تاثر سے نجات حاصل کرکے وسیع تر خیر کے لئے جدوجہد کریں۔

تازہ ترین