• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہید مسیحی کانسٹیبل کے واجبات کی وصولی کیلئے دوبیوائیں سامنے آ گئیں

راولپنڈی (وسیم اختر، سٹاف رپورٹر) سرکاری طور پر شہید قرار دیئے گئے راولپنڈی پولیس کے مسیحی کانسٹیبل کے واجبات کی وصولی کیلئے اسکی دو بیوگان سامنے آگئیں۔ حکومت پنجاب کی جانب سے پچاس لاکھ روپے امداد کے اعلان کے بعد دونوں بیوگان نے رقم وصولی کیلئے رابطہ کرلیا۔ کانسٹیبل کی اصل وارث ہونے کی دعویدار ایک سے زیادہ خواتین کے سامنے آنے پر نیا مسئلہ بن گیا۔ ذرائع کے مطابق تھانہ نصیرآباد کے علاقہ میں 12نومبر 2015ء کو نامعلوم افراد کی فائرنگ سے راولپنڈی پولیس محافظ سکواڈ کے 2اہلکارمارے گئے تھے۔ ہیڈکانسٹیبل محمد تنویراور کانسٹیبل یٰسین یونس پولیس لائن سے ڈیوٹی کیلئے روانہ ہوئے‘ انکی ڈیوٹی رات 7سے صبح سات بجے تک تھی۔ شہر میں وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے جمعرات کو ٹریفک جام تھی جس کی وجہ سے وہ نصیرآباد جانے کیلئے اندرون شہر کی سڑکوں سے ہوتے ہوئے جب ریلوے ورکشاپ کے قریب پہنچے تو نامعلوم افراد نے اندھادھند فائرنگ کردی جس سے دونوں شدید زخمی ہوگئے۔ ایک زخمی راستے میں جبکہ دوسرا ہسپتال پہنچ کر چل بسا۔ مرنے والوں میں یٰسین یونس کرسچین برادری سے تعلق رکھتا تھا، ان دونوں کو شہید ڈکلیئر کرانے کیلئے راولپنڈی پولیس نے کیس بنا کر سنٹرل پولیس آفس لاہور بھیجا تو وہاں سے اعتراض لگا دیا گیا کہ یاسین یونس چونکہ کرسچین ہے اسلئے اسے شہید قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس پر سی پی او راولپنڈی نے تین ایس پیز پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی‘ جس نے متفقہ رائے دی کہ کسی بھی پولیس ملازم کو بھی دوران ڈیوٹی جان قربان کرنے پر شہید قرار دیا جا سکتا ہے‘ اور اسکے لواحقین کو بھی وہ تمام مراعات ملنی چاہئیں جو دیگر تمام شہداء کو دی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے مسلم اورغیرمسلم اہلکاروں میں تفریق روا نہیں رکھی جانی چاہئے۔ سی پی او اسرار احمد عباسی نے کمیٹی کی رائے منظور کرتے ہوئے کیس دوبارہ سنٹرل پولیس آفس لاہور بھیج دیا جسے بالآخر منظور کرتے ہوئے 29ستمبر 2016ء کو یاسین یونس کو بھی سرکاری طور پر شہید قرار دیدیا گیا جس کے بعد اسکے لواحقین کیلئے دیگر مراعات کے علاوہ پچاس لاکھ روپے کی مالی امداد جاری کر دی گئی جس کا چیک بھی راولپنڈی پولیس کو موصول ہوگیا تاہم بعدازاں یاسین یونس کے واجبات کی وصولی کیلئے اسکی دو بیوگان سامنے آنے پر پولیس مخمصے کا شکار ہو گئی۔ ادہر دونوں خواتین نے بعض دلچسپ نکات اٹھا دیئے ہیں۔ بیوی ہونے کی دعویدار ایک خاتون کا موقف ہے کہ کرسچین مذہب میں دوسری شادی کی اجازت نہیں ہے اور دوسری بیوی ہونے کی دعویدار خاتون غلط بیانی کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب دوسری بیوی ہونے کی دعویدار خاتون نکاح نامہ اور دیگر کاغذات لے آئی۔ اس دوران ایک خاتون نے عدالت سے بھی رجوع کر لیا ہے۔ ادہر سی پی او نے اکاؤنٹس برانچ کوحکم دیا ہے کہ عدالت کے فیصلے کا انتظار کیا جائے اور فیصلے کی روشنی میں اصل حقدار کو مالی امداد کا چیک دیدیا جائے۔
تازہ ترین