• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی فلم انڈسٹری نے 80کی دہائی میں ہی یہ حقیقت قبول کرلی تھی کہ ’رام تیری گنگامیلی ہوگئی‘۔۔لیکن شاید حکومت اور اس کے کرتا دھرتاؤں نے اس پر توجہ نہیں دی حالانکہ آج گنگا میلی ہی نہیں بلکہ انگنت سرسبز اور لہلہاتے ہوئے کھیتوں اور کلیانوں کو زندگی بخشی والی گنگا آج ’بے جان‘ ہوگئی ہے۔

دریائے گنگا کو دنیا کے بڑے دریائوں میں شمار کیا جاتا ہے لیکن آج یہ دریا لمحہ بہ لمحہ’مردار‘ ہوتاجارہا ہےجبکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ اسے ہندو مت میں نہایت مقد س تصور کیا جاتا ہے۔ ایک ارب سے زائد ہندو گنگا کو اپنی میا یعنی ماں تصور کرتے اور صبح شام صدیوں سے اس کی پوجا کرتےآئےہیں۔

بھارت میں بہت سی حکومتیں اپنے اپنے دور میں اسے صاف ستھرا اور شفاف بنانے کے لئے منصوبے بناتی رہی ہیں جبکہ اس پر تحقیقات بھی جاری ہیں۔ غیر سرکاری تنظیمیں بھی اسے زندہ رکھنے کے لئے دن رات کام کرتی رہتی ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ ’گنگا میا‘ میں انسانی فضلہ شامل ہے ، اس کے کنارے کنارے آباد فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والا پانی اور کیمیکلز اسےزہریلا بنارہے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے دو سال پہلے دریائے گنگاکو صاف کرانے کا وعدہ کیاتھا لیکن عملاً ابھی تک ایسا نہیں ہوسکاحالانکہ انہوں نے دریا کو مزیدگندا ہونے سے بچانے کے لئے اس پرپلانٹ بنانے کا وعدہ کیا ہے لیکن ان کی یہ منصوبہ بندی ابھی تک شیڈول نہیں ہو سکی ۔

ہندو مت میں گنگا میں غسل کرنے کا مطلب گناہوں سے پاکیزگی حاصل کرنا ہے اسی لئے انگنت افراد اس میں غسل کرتے ہیں ۔ یہ غسل انسانوں کو شاید پاک کردیتا ہولیکن خود انتہائی آلودہ ہوجاتا ہے۔

دیو پریگ نامی مقام پر رہائش رکھنے والے ایک پجاری لوکش شرما کے مطابق وہ اپنے خاندان کی چوتھی نسل سے ہیں جو گنگا کنارے باقاعدگی سے مذہبی رسومات اداکرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی اس مقام کو چھوڑ نے کے بار ے میں نہیں سوچا ۔ بقول لوکیش ’یہ مقام میرے لئے ’جنت‘ ہے۔ میں ’ماں گنگا ‘کےکنارے اپنی پیدائش کو خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔‘

لوکیش ہی نہیں ہزاروں ہندو ایسےہیں جودریائے گنگا کو ’عبادت گاہ ‘کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو بھی گنگا کے پانی میں نہائے گا وہ گناہوں سے پاک ہو جائے گا۔ ‘

دریائے گنگاکا رنگ صنعتی شہر کانپورکی طرف سے سلائڈنگ کے باعث سیاہ بھوری رنگ میں بدل گیاہے۔ روزانہ تقریباً 4 ہزار 800 ملین آلودگی ملک کے مرکزی شہروںسے گنگا میں شامل ہوتی ہے۔

صنعتی فضلہ اورکھلی نالیوں سے آنے والی گندگی جھاگ کی شکل میں گنگا کی سطح پربچھی ہوئی ہے جیسے کسی نے چادر بچھادی ہو۔

گنگا کے کنارے مردوں کو جلا کر ان کی راکھ بھی پانی میں ہی بہہ دی جاتی ہے۔ ہندئو عقیدے کے مطابق ایسا کرنے سے مردے کی روح سیدھی جنت میں جاتی اور نئے جنم کے روپ میں دنیا میں واپس آجاتی ہے۔

ایک اور ہندؤپنڈت’ اشوک کمار ‘کا کہنا ہے کہ ’ہمارے ارد گردجو کچھ ہو رہا ہے ، وہ بہت افسوسناک اور دکھ کی بات ہے۔ دریا ئے گنگا دن بہ دن آلودہ سے آلودہ ترین ہوتا جارہا ہے لیکن کسی کو بھی اس کی پرواہ نہیں۔ اس کے باوجود مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ’ دریائے گنگا ہماری ماں ہے، اگر یہ ختم ہو گئی تو اس کےبعد ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔‘

تازہ ترین