• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں جاری داخلی بحران نے امریکہ کے پاکستانیوں کو بھی دن رات انگیج کر رکھا ہے۔ ہر ہر لمحہ نواز شریف، عمران خان، بلاول، سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کے بارے میں اپ ڈیٹ رہنے کا ایک بخار اتار چڑھائو کے ساتھ امریکہ کے پاکستانیوں میں بھی پھیلا ہوا ہے۔ میرے دماغ میں بھی ماضی کے چشم دید مشاہدات اور ان اصل حقائق کی ایک مربوط فلم چل رہی ہے جو امریکہ کے خفیہ دستاویزات کے ڈی کلاسفائیڈ ہونے پر جاننے اور پڑھنے کو ملے یا آنکھوں سے دیکھا۔ ایڈمرل منصور الحق کو واپس پاکستان لے جانے کے لئے پاکستان سے آنے والی ٹیم سےنیویارک کے کینیڈی ایئر پورٹ پر مدبھیڑ کے علاوہ جس احترام اور پروٹوکول کے ساتھ پاکستان روانہ ہوتے دیکھا اور پھر ریاست ٹیکساس کے شہر آسٹن میں ان کی خرید کردہ جائیداد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر احتساب کے نام پر اربوں کی کرپشن کو کوڑیوں کے بھائو سیٹل منٹ ہونے کی حقیقی اطلاعات کا مذاق بھی برداشت کرنا پڑا۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل میں وعدہ معاف گواہ اور اے ایس ایف کے سابق سربراہ مسعود محمود کو نیویارک شہر میں تنہائی اور گمنامی کی زندگی گزار کرخدائی احتساب کے درد ناک مناظر بھی دیکھے اور ذوالفقار علی بھٹو کا امریکہ واٹر گیٹ اسکینڈل کے تکلیف دہ ایام احتساب کے اثرات کے دوران عوامی تائید سے محروم اور غیر منتخب صدر فورڈ کے دور میں سرکاری دورہ امریکہ اور وہائٹ ہائوس کے ایسٹ روم سمیت پروٹوکول اور دیگر مناظر کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا تو پھر فرزند بھٹو مرتضیٰ کو نیویارک اور بوسٹن میں کینیڈی خاندان کے بوبی کینیڈی جونیئر کے ذریعے ضیا کی قید میں اپنے والد بھٹو کی جان بچانے کے لئے ملاقاتیں اور سرتوڑ کوششیں کرتے بھی دیکھا ہے۔ پاکستان میں پی این اے کی بھٹو مخالف تحریک میں ’’نظام مصطفیٰ ؐ‘‘ کے دلفریب وعدوں اور نعروں پر نوجوانوں کے لگائو اور سرفروشی کے واقعات کی تفصیلات میڈیا میں دیکھیں اور پڑھیں تو پھر نظام مصطفی ؐکے وعدے پر چلنے والی تحریک کی اصلیت، ڈالرز کی بھرمار، امریکی حمایت و سرپرستی کی تفصیلات کو امریکہ کے ڈی کلاسفائیڈ ہونے پر خفیہ امریکی دستاویزات سے اصل حقائق پڑھنے اور سمجھنے کا موقع بھی ایک طویل عرصہ بعد ملا۔ روس کے خلاف مجاہدین افغانستان کی جنگ کے ایک اہم کردار کانگریس مین چارلی ولسن سے متعدد بار تفصیلی گفتگو میڈیا انٹرویوز کے ذریعے کافی کچھ جاننے اور سمجھنے کے مواقع ملے تو پھر صدر ضیاء الحق کی موت پرچارلی ولسن کو افغان ٹوپی پہنے بچوں کی طرح بے بسی سے روتے بھی دیکھا ہے۔ کیلیفورنیا میں مقیم سیتا وہائٹ کو ایک بچی کی ماں بننے پر ان کے وکیل کی فون لائن پر موجودگی میں سیتا وہائٹ کو نیویارک سے فون پر انٹرویو ریکارڈ کرنے اور جنگ میں اس کی رپورٹنگ کی جس کی تردید کسی بھی جانب سے آج تک نہیں کی گئی اور یہ بھی ’’جنگ‘‘ کے صفحات میں کئی سالوں سے محفوظ ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے کینیڈا کے ٹورنٹو ایئرپورٹ پر امریکی امیگریشن کے ہاتھوں روکے جانے کی اصل وجوہات اور پھر اگلی فلائٹ پر نیویارک پہنچنے کے عینی مشاہدے، اقتدار کے دوران بے نظیر بھٹو کے سرکاری دورہ امریکہ اور اقتدار سے محرومی کے ایام میں خاموشی سے واشنگٹن اور نیویارک میں ٹیکسی یا کسی میزبان کی کار میں کانگریس مینوں اور سینیٹروں سے ملاقاتیں کرنے کے لئے سفر کرتے بھی دیکھا جبکہ سرکاری دورہ امریکہ کے دوران یہی اراکین کانگریس وزیراعظم بے نظیر کا امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں سے مشترکہ خطاب سننے کے لئے ایوا ن میں پہلے سے موجود بیٹھے انتظار کرتے دیکھے گئے۔ پاکستان، شاہ پرست ایران، فلپائن اور جنگ زدہ افغانستان کے بدعنوان اور کرپٹ عناصر کی کرپشن کی دولت سے کیلیفورنیا، ورجینیا اور نیویارک ریاستوں میں خرید کردہ جائیدادوں کے افسانے اور حقائق بھی گردش دوراں کا حصہ ہیں۔ مذکورہ بالا چند مشاہدات بطور نمونہ پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قانون یا آمرانہ احتساب کے ساتھ ساتھ خدائی احتساب بھی اپنی جگہ اصل اور اتنا حتمی ہے کہ جس کے سامنے دنیا کے فرعون بھی بے بس ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح عصر حاضر کی دنیا میں ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں مطالبہ جمہوریت، مذہبی اختلافات، قانونی مساوات اور دیگر عنوانات کے تحت بظاہر عوامی تحریکوں کے پس منظر میں عالمی طاقتوں کا ایجنڈا آئٹم اور عدم استحکام پیدا کرنا حقیقی مقصد ہوتا ہے۔ خود پاکستان میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنا، ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے اور نظام مصطفیٰکے نعرے کے تحت عوامی تحریک، ضیاء الحق کا جہاد افغانستان، پرویز مشرف کی اقتدار سے رخصتی وغیرہ کے ظاہری خد و خال اور داخلی اسباب کچھ اور نظر آتے ہیں جبکہ اصل اسباب و حقیقی مقاصد کچھ اور تھے۔ اب تو ان تمام پاکستانی واقعات کے بارے میں خفیہ امریکی دستاویزات، سفارتی ٹیلیگرام اور نوٹس ڈی کلاسفائیڈ ہوکر سامنے آچکے ہیں جو اس کی تصدیق بھی کرتے ہیں اور اصل حقائق بھی سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ایٹمی پاکستان کے اردگرد کے حالات، مودی کے دورہ امریکہ، چین امریکہ صورتحال سی پیک کے بارے میں بھارتی رویہ اور پاکستان میں بھارتی کل بھوشنوں کی سرگرمیاں اور عقب میں افغان حکومتی رویوں کے ساتھ ساتھ امریکہ۔ بھارتی معاونت وغیرہ محض نظریہ سازش اور اندرونی صورتحال سے توجہ ہٹانے کا بہانہ نہیں بلکہ عملی حقیقت ہے۔ بیرونی خطرات کا خوف اور غیرملکی سازشوں کا دعویٰ کرکے حکمرانوں کے اقتدار کو طول دینے کی قابل مذمت کوششیں بھی کی جاتی رہی ہیں۔ احتساب، قانون کی بالادستی، کرپشن کا خاتمہ، عدالتی فیصلوں کا نفاذ، پاکستان کی بقا، ترقی اور جمہوریت کے استحکام کے لئے ایک لازمی ضرورت ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی انتہائی لازمی فریضہ ہے کہ ماضی میں حکمرانوں کو تبدیل کرنے کے لئے ایوب خاں کے دور سے لے کر تحریک انصاف کے عمران خاں تک جتنی بھی تحریکیں کسی بھی دلکش عوامی نعروں کے ساتھ چلیں وہ سب دو رخی یعنی ڈبل فیس کی حامل تھیں پاکستان میں ان احتجاجی تحریکوں، عدالتی کارروائیوں اور انتظامی احکامات کو عوامی جمہوری اور قومی خدمت کے نعروں اور وعدوں سے سجایا گیا لیکن دوسرا اور حقیقی رخ یہ تھا کہ غیر ممالک سے فنڈنگ فراہم کی گئی اور غیر ملکی ایجنڈا اور مقاصد کا حصول اصل ٹارگٹ تھا۔ لہٰذا حکمرانوں اور اپوزیشن دونوں پر لازم ہے کہ اپنے سیاسی اور ذاتی مفاد کو مفاد پاکستان کا نام دینے کی بجائے اس بات کو یقینی بنائیں کہ موجودہ تحریک اور بحران کا صرف ایک ہی داخلی چہرہ ہے اور اس میں کوئی غیر ملکی فنڈنگ غیرملکی ہاتھ اور غیر ملکی ایجنڈاشامل نہیں ہے۔ اب تو امریکہ کی خفیہ دستاویزات 30سال کی مدت کے بعد ڈی کلاسفائیڈ کردی گئی ہیں آپ خود بہت سے امور کے داخلی اور خارجی ڈبل چہروں کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل اور بھٹو کے عدالتی قتل، مولوی تمیز الدین کے عدالتی کیس کے کاغذات میں نوزائیدہ پاکستانی جمہوریت کی لاش کو لپیٹ دیا گیا۔ انتخابات اور جمہوریت کے نام پر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے والے بحران کو جنم دیا گیا۔ ایوب خان کے دور میں بدعنوانی ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ’’ایبڈو‘‘ اور ’’پوڈو‘‘ کے قوانین بناکر ایوب خان کا ساتھ نہ دینے والے سیاستدانوں پر پابندیاں لگاکر نااہل قرار دیا گیا اور جمہوری عمل کو کئی سالوں کے لئے فریز کردیا گیا۔ گنگا نامی ایک بھارتی طیارے کو اغوا کرکے لاہور لانے والوں نے آزادی کشمیر کا نعرہ لگایا اور ہم نے بھی انہیں کشمیری مجاہد اور ہیرو قرار دے کر والہانہ خیرمقدم کیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو خود ایک بھارتی سازش تھی جومغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان پاکستان کا فضائی روٹ اور رابطہ بند کرکے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لئے بھارتی ایجنڈا کا حصہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کے بے حد عوامی تحریک کا نعرہ نظام مصطفیٰ کا نفاذ، جمہوری مساوات وغیرہ تھا لیکن یہ تحریک ڈالرز کی اتنی بڑی فنڈنگ سے چلی کہ پاکستان میں ڈالر کا ریٹ کم ہوگیا تھا۔ تحریک کامیاب ہوگئی بھٹو حکومت ختم ہوگئی لیکن پاکستان میں نظام مصطفیٰ کا نفاذ آج تک نہ ہوسکا اور جمہوریت کی بجائے پاکستانی عوام کو مزید 10سال ضیا آمریت ملی۔البتہ غیر ملکی ایجنڈا کا ٹارگٹ جزوی طور پر پورا ہوگیا۔ پاکستان اور دنیا کے بعض دیگر ممالک کے ماضی کے ان ڈبل چہروں والے واقعات اور تحریک سے سبق سیکھ کر غلطیاں نہ دہرانے اور یک رنگی اپنا کر حقائق کا ظاہر و باطن جاننا پاکستان کے حکمرانوں اور اپوزیشن دونوں کے لئے لازم ہے۔ ملکی سلامتی اور بقا کو پیش نظر رکھنا لازمی ہے ورنہ تبدیلی کی جنگ لڑنے والے تبدیلی آنے پر راج کہاں کریں گے؟ احتساب اور امین و صادق ہونے کا معیار، قومی وسائل کی لوٹ مار اور قانون کی بالادستی کا دائرہ اور عمل وسیع کرکے فی الحال موجودہ اپوزیشن پارٹیوں اور ان کی قیادت کا بھی احتساب کرنے کی روایت کا آغاز کیا جائےتاکہ جس احتساب کا آغاز موجودہ حکمرانوں سے کیا گیا تاکہ تمام پارٹیوں،پارلیمنٹیرین اور افسر شاہی کی سمت درست کی جاسکے اور امریکہ کی طرح 25سال بعد مملکت کی خفیہ دستاویزات کو ڈی کلاسفائیڈ کرکے عوام کو رسائی دینے کا سلسلہ شروع کیا جائے اللہ پاکستان کے موجودہ بحران کو حل کرنے میں عدلیہ، عمران خان،اپوزیشن اور حکمرانوں کو بصیرت اور رہنمائی عطا کرے۔

تازہ ترین