• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ جاری و ساری عمل کا نام ہے اور ہر لمحے پرمنیر نیازی کا مصرع ’’ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو‘‘ صادق آتا ہے۔ اب جبکہ میڈیا کی بڑی بڑی ہستیاں وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے کفن دفن کا اعلان کر چکی ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ایک خاندان کی حکمرانی کے خاتمے کا مظہر ہے یا پھر ایک پورا عہد ماضی کا قصہ بننے جا رہا ہے۔ بہت ہی بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا یہ ایک اور وزیر اعظم کا حسب معمول احتساب ہو رہا ہے یا پاکستان کی طبقاتی ہیئت ترکیبی بدل چکی ہے اور اب وہ طبقہ ماند پڑ گیا ہے جس کی نمائندگی نواز شریف کر رہے تھے؟ کیا اسی کی دہائی سے شروع ہونے والا بد عنوان سرمایہ داری کا عہد اختتام پذیر ہو رہا ہے اور کیا اب مغربی ملکوں جیسا نام نہاد شفاف سرمایہ داری دور شروع ہو رہا ہے؟
جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاکے بعد اسی کی دہائی سے شروع ہونے والے دور کی اپنی خصو صیات تھیں۔ عام طور پر اس دور سے شروع ہونے والی مذہبی تنگ نظری اور فرقہ پرستی کو ہی اجاگر کیا جاتا ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ اس زمانے سے شروع ہونے والی بد عنوانیوں اور رشوت ستانیوں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ بدیہی طور پر یہ سب کچھ درست ہے لیکن جس بات کو نظر انداز کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس دور میں پاکستان کی پوری معیشت کا ڈھانچہ تبدیل ہوناشروع ہوا، زرعی شعبے کی حیثیت کمتر ہونا شروع ہو گئی اور صنعتی و کاروباری طبقات میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ملک میں نئی دولت کے انبار لگنا شروع ہوئے جسے مخصوص طبقات نے لپیٹنا شروع کر دیا۔ بر سبیل تذکرہ یہی کچھ پڑوسی ملک ہندوستان میں ہورہا تھا اس لئے یہ کہنا بنیادی طور پر درست نہیں ہے کہ پاکستان میں بنیادی تبدیلیاں افغان جہاد کے لئے آنے والے امریکی اور عرب سرمائے سے شروع ہوئیں۔
اسی کی دہائی سے شروع ہونے والا تاریخی عہد عالمی سطح پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ امریکہ میں رونلڈ ریگن کا رد انقلاب 1980سے شروع ہوا جس میں امریکہ کی فلاحی ریاست کو ختم کرکے نجی سرمایہ داری کو فروغ دیا گیا۔ یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ ریگن رد انقلاب میں سرمایہ داروں کا مذہبی قدامت پرستوں کے ساتھ گٹھ جوڑ مضبوط ہوا۔اب ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں یہ گٹھ جوڑ اپنی بد ترین صورت میں سامنے آرہا ہے۔ ہندوستان میں بھی بی جے پی کا ابھار اسی کے اوائل سے شروع ہوا یعنی ہندوستان میں بھی مذہبی قوم پرستی اور نئی سرمایہ داری کا اتحاد قائم ہوا جو اب وزیر اعظم نریندر مودی کی صورت میں دکھائی دے رہا ہے۔ عالمی تناظر میں دیکھیں تو ضیاء الحق کا دور اپنے عہد کی نمائندگی کر رہا تھا۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک نیا امیر طبقہ پیدا ہونا شروع ہوا جس کی سیاسی نمائندگی بھی نئے ابھرنے والے طبقات کے ہاتھ میں آگئی۔ شریف خاندان، چوہدری نثار، اور آج کے بہت سے سیاستدان اسی عہد کی پیداوار ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نظام مصطفی کے جھنڈے تلے تاجر، صنعتکار اور روایت پرست درمیانے طبقے نے بغاوت کی تھی۔ یہ طبقات بھٹو کی فلاحی ریاست کی نفی کرتے تھے اور مادر پدر آزاد سرمایہ داری نظام کے حامی تھے۔ لیکن اسی کی دہائی میں اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھاؤں میں نئے امیر طبقے نے جنم لیا جس کی سیاسی رہنمائی بھی اسی طبقے سے آئی۔ شریف خاندان کی تاریخ اس عہد کا استعارہ ہے۔ نئے امیر ہونے والوں میں ایک شریف خاندان ہی نہیں تھا بلکہ اس طبقے میں لاکھوں قسمت آزما شامل تھے۔ اگر اسی کی دہائی سے شروع ہونے والے دور کو دیکھیں تو اس میں فوج کے حامی ہی نہیں بلکہ اس کے روایتی مخالف (پاکستان پیپلز پارٹی) نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ اسٹیبلشمنٹ نئے امیر ہونے والے طبقات کا حصہ تھی اور اسے جائز یا ناجائز دولت جمع کرنے والوں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے ادوار حکومت میں خوب دولت جمع کی اور اس کے اکثر نمائندے نئے امیر طبقے کا حصہ بن گئے۔ گویا کہ پیپلز پارٹی بھی اسی رنگ میں رنگ گئی جس کا مظہر پاکستان مسلم لیگ تھی۔
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے نواز شریف دیہی اشرافیہ کی بجائے شہری تاجر طبقے کے نمائندہ تھے۔ یہ تاجر طبقہ آزاد صنعت و تجارت کا حامی تھااس کے لئے ہندوستان کے ساتھ تجارت کرنا فطری عمل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف بار بار ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو نارمل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ یہ سارا کچھ اسٹیبلشمنٹ کو قابل قبول نہیں ہے اور یہ تضاد بار بار سامنے آتا رہتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی نظر آرہا ہے کہ پاکستان میں نئے درمیانے طبقات پیدا ہوئے ہیں جو اسی کی دہائی سے شروع ہونے والے لوٹ کھسوٹ کے نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف آزاد عدلیہ قائم کرنے کے لئے وکلاء کی تحریک اسی نئے رجحان کی آئینہ دار تھی۔ اگرچہ میاں نواز شریف نے عدلیہ کی جدو جہد کی بھر پور حمایت کرکے الیکشن تو جیت لیا لیکن اس نے پچھلے چار سالوں میں گورننس کے نظام میں کوئی مثبت تبدیلی پیدا نہیں کی۔ مسلم لیگ (ن) نے پچھلے چار سالوں میں کسی جمہوری ادارے کو مضبوط نہیں کیا۔ میاں نواز شریف کی قومی اسمبلی سے لا تعلقی اور اداروں کی کمزوریاں اس امر کی غماز ہیں کہ شریف خاندان ملک کو ذاتی فیکٹری کے طور پر چلا رہا ہے۔ پاکستان میں ابھرنے والے نئے درمیانے طبقات کے لئے یہ صورت حال ناقابل قبول ہے۔ قطع نظر اس کے کہ میاں نواز شریف کے احتساب کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ اسی کی دہائی سے شروع ہونے والے دور کا انجام قریب ہے۔ اس دور کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پہلے ہی دیہی سندھ تک محدود ہو چکی ہے۔ اب اگر مسلم لیگ (ن) کی بھی شکست و ریخت شروع ہو جاتی ہے تو پچھلے چالیس سالوں سے قائم سیاسی ڈھانچہ یکسر تبدیل ہو جائے گا۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کیا عمران خان نئے طبقات کے نمائندہ ہوتے ہوئے نئے نظام کی بنیادیں قائم کر سکتے ہیں یا نہیں!

تازہ ترین