• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج کا حالیہ بیان جس میں انہوں نے پاکستانی مریضوں کے لئے ویزوں کے اجرا کا عندیہ دیا ہے اس لئے خوش کن ہے کہ چلو کچھ تو برف پگھلی۔دنیا میں آج علاقائی تعاون سے تیسری دنیا کے ممالک اور خاص کر لاطینی امریکہ اور سائوتھ ایسٹ ایشیا کے ممالک بہت فائدہ اٹھا رہے ہیں۔یہ خطے اب جنگ کی بجائے معاشی خوشحالی کی باتیں کرتے ہیں۔علاقائی تعاون ان ممالک کے لئے خاص طور پرمفید ہے جو صنعتی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول میں دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں۔پاکستان اور ہندوستان اس ضمن میں علاقائی تعاون کے ثمرات نہیں اٹھا پا رہے جس کی وجہ سے اس خطے کی99فیصد آبادی جو کہ مزدوروں اور کسانوں پر مشتمل ہے مزید غربت کی دلدل میں دھکیلی جا رہی ہے۔بارڈر کے دونوں اطراف کے مفکرین اور دانشوروں کا خیال ہے کہ جب تک معاشرے میں اور خاص طور سے نوجوان نسل کو ایساشعور نہیں دیا جاتا جس سے نفرت اور عناد کی بجائے امن و آتشی کی فضا قائم ہو اس وقت تک اس خطے میں امن و امان اور خوشحالی ممکن نہیں۔
کچھ مبصرین کے خیال میںکوئی بھی ریاست جب نظریاتی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تو پھر اس میں دوسرے نظریات سے سیکھنے کا عمل رک جاتا ہے۔نئے خیالات و نظریات معاشرے میں ظہور پذیر نہیں ہوتے اور قدامت پرستی کی جڑیں مزید گہری ہوتی چلی جاتی ہیں۔نصاب کی کتابیں نیشنل ازم سے بھر جاتی ہیں۔ریڈیو اور ٹیلی وژن پر قومی ترانے بجنا معمولات میں شامل ہوجاتا ہے۔اپنے ماضی کو دوسروں کے مقابلے میں شانداراور اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈال کر پیش کیا جاتاہے۔معاشرے کو نہ صرف ہردم ہیروز کی پوجا کا درس دیا جاتا ہے بلکہ ہیروز کی تشکیل بھی کی جاتی ہے جس سے یہ معاشرہ کوئی نظام نئی روایتیں تشکیل نہیں کرپاتا۔
ایسا معاشرہ جس میں دوسری قوموں،ان کے کلچر اور ان کی روایتوں کی توہین کی جاتی ہو وہ دنیا کو وسیع تناظرمیں دیکھنے کے قابل نہیں رہتااور یوں نظریاتی ریاستیں مکمل طور پر اپنے اسلوب کے طابع ہوکررہ جاتی ہیں۔یہی حال آج کل ہمارے خطے کا ہے یہاں تنگ نظری نے دہشت گردی کی فضا پیدا کرنے میں آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ایسے معاشروں میں امن،رواداری،انسان دوستی اور انسانی حقوق کا پرچار کرنے والوں کو ہمیشہ زیرِعتاب ہی رہنا پڑتا ہے اور ان کی آواز سماجی تبدیلی کی محرک نہیں بن سکتی بلکہ تعصب،تنگ نظری اور نفرت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔مسلمان سائنسدانوں اور مفکرین نے اپنے اپنے دورمیں علم کے ذریعے سماجی تبدیلی میں بھرپور حصہ لیا۔ ابنِ رشد پر آج بھی یورپ کی یونی ورسٹیوں میں تحقیق ہورہی ہے۔لیکن یہاں اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ سائنس اور علم ایک مسلسل تبدیلی کانام ہے یہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ماضی کی تحقیق سے آگے بڑھنے ہی کو علم کی اصل روح کہاجاتاہے۔
معروف مورخ جے۔ایم ۔بلاٹ نے نو آبادیاتی طاقتوں کی سو چ کے بارے میں لکھا ہے کہ شاید دنیا کی تمام تہذیبیں ،اپنے ہمسایوں سے مقابلہ کرتے ہوئے خود کو دوسروں سے بہتر ،ترقی یافتہ اور اعلیٰ تصور کرتی ہیں۔اس مقصد کے لئے وہ اس قسم کے دلائل تلاش کرتی ہیں اورایسے نظریات کی تشکیل کرتی ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنی برتری ثابت کرسکیں۔جن معاشروں میں کوئی نمایاں مذہب ہوتا ہے وہ معاشرے اپنے نصاب میںمذہب کو ترجیح دیتا ہے۔مثلاََ ہمارے نصاب اورمعاشرتی علوم میں مذہب اور دوقومی نظریے کو فوقیت حاصل ہے۔ہندوستان کا نصاب بی جے پی کے دور میں ہندوتوا کے زیرِ اثر تشکیل پاتا ہے۔کسی بھی معاشرے میں نصاب کی کتابیں درحقیقت اس معاشرے کے کلچر کو سمجھنے کے علاوہ حکمران طبقے کے نظریات و خیالات کو سمجھنے کی عکاس بھی ہوتی ہیں۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ معاشرے کے نوجوانوں کا سماجی ارتقا کیسے کرنا چاہتی ہیں اور ماضی کو کس طرح پیش کرنا چاہتی ہیں تاکہ اس کی روشنی میں وہ موجودہ دنیاکو دیکھ سکیں۔
یورپ پر بھی بادشاہ اور چرچ نے مل کراٹھارہویں صدی تک اپنا تسلط قائم رکھا۔ لیکن سب سے پہلے فرانسیسی انقلاب (1789)نے تعلیم کی ذمہ داری چرچ سے واپس لے لی اور ریاست نے ایسے تعلیمی ادارے قائم کیے جو کہ فرانسیسی معاشرے کی ضرورت تھے۔صنعت اور آرٹ کا قومی ادارہ تشکیل دیا گیا۔نپولین نے تمام تعلیمی ادارے حکومت کی سرپرستی میں لے لئے اور نجی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی۔ پوری ریاست میں یکساں تعلیمی نظام کا نفاذکیا اور اس طرح صنعتی ترقی کی دوڑ شروع ہوئی اور رفتہ رفتہ دوسرے یورپین ممالک میں بھی ریاست نے تعلیمی اداروں کے جال بچھا دئیے۔لیکن یورپین اقوام نے طویل ترین مذہبی و علاقائی جنگیں لڑ کر یہ شعورحاصل کیا کہ قوموں میں کس طرح نفرت اور دشمنی پیدا ہوتی ہے۔ایک قوم کے ہیرو دوسری کے لئے ظالم اور غاصب بن جاتے ہیں۔
یورپین اقوام کی مثال ہمارے لئے بڑی سبق آموز ہے جس میں خاص طور پر جرمنی اور پولینڈ کی مثال ہمارے حالات سے مطابقت بھی رکھتی ہے کیونکہ دونوں ملک آپس میں طویل جنگیں بھی لڑ چکے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی نے پولینڈ کے ساٹھ لاکھ افراد موت کے گھاٹ اتارنے کے علاوہ بہت سارے علاقوں پر قبضہ بھی کرلیا تھا۔ وارسا میں ان لوگوںکی یادگار قائم کی گئی جو اپریل 1943ء کو جرمن فوجوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے ان حالات کی وجہ سے اس خطے میں وہی کشیدگی پائی جاتی تھی جو آج کل پاکستان اورہندوستان میں پائی جاتی ہے۔ وِلی برانٹ (Willy Brant)جو کہ جرمنی کے چانسلر تھے انہوں نے7دسمبر1970ء کو پولینڈ کا دورہ کیا تو اچانک اس یادگار مقام پر سجدہ ریز ہوگئے اور سر عام پولینڈ کے لوگوں سے جرمنی کے مظالم کی معافی مانگی جس سے پوری پولینڈ کی قوم حیرت زدہ رہ گئی اسی دن وِلی برانٹ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس میں نہ صرف دوسری جنگ عظیم کے دوران پولینڈ سے چھینے گئے علاقے واپس کردئیے بلکہ دونوں ممالک نے آئندہ کبھی جنگ نہ کرنے کا عہد کیا۔اسی دوران دونوں ممالک کے مورخین نے مل کر نصاب میں شامل تمام تر نفرت انگیز مواد نکال دیا ولی برانٹ کا یہ اقدام جرمنی میں بہت ہی غیر مقبول ہوااور اسے سخت مخالفت کا سامناکرنا پڑا ۔تمام مخالفت کے باوجود وہ مسلسل جرمنی اور دوسرے یورپین ممالک کو قریب لانے کی دھن میں لگا رہا۔ 1971ء میں وِلی برانٹ کو یورپ میں امن کی کوششوں کے صلے میں امن کا نوبل انعام دیا گیا۔
ہم وقت کے تقاضوں ،قومی مفاد اور اپنی آنے والی نسلوں کی بقاکے لئے اس واقعہ سے سبق حاصل کرسکتے ہیں ۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے مورخ،حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ،ایسانصاب ترتیب دیں جو فرقہ واریت،تعصب اور بنیاد پرستی سے پاک ایک ایسا معاشرہ تشکیل کرنے میں مددگار ثابت ہو جو دونوں قوموں کو نہ صرف قریب لے آئے بلکہ مفاد پرست گروہوں کے چھپے مفادات کو بھی عیاںکرے۔تاکہ نئی نسل میںیورپین اقوام کی طرح شعوری ارتقا پروان چڑھ سکے ۔ہندوستان اور پاکستان کو جلد ہی ایسے وِلی برانٹ کی ضرورت ہے جو سیاسی لیڈر سے زیادہ اسٹیٹس مین بھی ہو ،غیر جذباتی و غیر مقبول فیصلے قوم کی دیر پا ضرورت کے مطابق کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ایسا وِلی برانٹ یادگارِپاکستان اور دہلی کی پارلیمنٹ کے سامنے سجدہ ریز ہو کر دونوں ممالک کے درمیان ستر سال سے پیدا نفرت و تعصب کو ہمیشہ کے لئے سندھ ،گنگا اور جمنا کی عظیم تہذیبوں سے نکال باہر پھینکے۔

تازہ ترین