• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان میں امریکی فوجی حکام نے کہا ہے کہ بین الاقوامی نیٹو فورسز اور افغان فوجیوں نے جنوبی افغانستان میں منشیات کے اسمگلروں کو ہلاک کرکے بہت بڑی مقدار میں منشیات برآمد کی ہیں فوج کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہلمند صوبے میں چار دن کی کارروائی کے بعد یہ کامیابی حاصل کی گئی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پوست کے بانوے ٹن بیج اور چھ ٹن دوسری منشیات قبضے میں لی گئی ہیں جس سے منشیات کا ایک بہت بڑا گروہ ختم کردیا گیا ہے۔ طالبان نے اس بارے میں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا لیکن ایک بات یاد رکھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ ہلمند صوبہ میں پوست بڑی تعداد میں کاشت کی جاتی ہے اور اس صوبے سے دنیا کو فراہم کی جانے والی منشیات کا نوے (90)فیصد حصہ آتا ہے۔ ادھر تہران میں گزشتہ دنوں ایران اور افغانستان کی ایک روزہ کانفرنس میں منشیات کی اسمگلنگ اور اس سے منسلک دوسرے معاملات زیرغور آئے ہیں جبکہ افیون کی پیداوار سے لاحق خطرات پر بھی گفتگو ہوئی کہ طالبان اپنی کارروائیوں کے لئے پوست کی کاشت سے رقم حاصل کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ میں نیٹو ممالک کے وزرا دفاع کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ طالبان افیون کی تجارت سے سالانہ ایک سو ملین ڈالر کما رہے ہیں جس سے وہ افغانستان میں موجود اتحادی افواج کے خلاف لڑنے کے لئے اسلحہ خریدتے ہیں۔ قبل اس کے نیٹو کے آپریشنز کمانڈر امریکی جنرل جان کراڈوک نے نیٹو کے 26ممالک سے درخواست کی تھی کہ وہ افغانستان میں طالبان کے حملوں کی روک تھام کے لئے وہاں قائم افیون کی فصل، لیبارٹریوں، اسمگلروں کے نیٹ ورک اور منشیات کے اسمگلروں پر بمباری کی اجازت دیں جنرل جان نے یہ بھی کہا کہ منشیات کی بڑھتی ہوئی پیداوار سے حاصل ہونے والی آمدنی طالبان کی امداد کا بڑا ذریعہ ہے اور اس کو ختم کئے بغیر افغانستان میں سیکورٹی کی صورتحال کو کنٹرول کرنا مشکل ہوگا۔ انہوں نے اتحادی کمانڈروں کو بتایا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان میں ہیروئن کے کاروبار میں ملوث بڑی بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالا جائے اور ان لیبارٹریوں کو نشانہ بنایا جائے تاکہ طالبان کو جنگ کے لئے مالی وسائل مہیا نہ ہوسکیں۔ جبکہ تجزیہ نگاروں کے مطابق افغانستان کی 50فیصد معیشت منشیات کے دھندے پر ہی منحصر ہے۔ ان ’’بڑی مچھلیوں‘‘ کے ذکر کے حوالے سے نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے بھائی ولی کرزئی منشیات کے بڑے تاجر ہیں لیکن حامد کرزئی اپنے بھائی کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے ٹھوس ثبوت کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ منشیات کی تجارت میں حامد کرزئی کے بھائی کے ملوث ہونے کے الزامات کے پس منظر میں امریکی عہدیداروں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ تاثر کہ حامد کرزئی اپنے بھائی کا تحفظ کرسکتے ہیں ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق 2004ء میں قندھار کے باہر ایک ٹریکٹر ٹرالی سے منشیات کی بہت بڑی تعداد برآمد ہوئی تھی۔ افغان فوج کے مقامی کمانڈر حبیب اللہ جان نے بڑی تیزی کے ساتھ منشیات سے بھری ٹرالی کوا پنے قبضے میں لے لیا لیکن کمانڈر کے بقول کچھ ہی دیر میں انہیں صوبائی کونسل قندھار کے صدر احمد ولی کرزئی اور صدر حامد کرزئی کے ایک دوست شیدا محمد کی ٹیلیفون کال موصول ہوئی جس میں انہیں کہا گیا کہ وہ ٹرک اور منشیات کو چھوڑ دیں جس کی انہوں نے تعمیل کی اس طرح کمانڈر حبیب اللہ جان بعد میں رکن پارلیمنٹ بن گئے اور اسی طرح بعد میں انہیں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔
اخبار نے مزید لکھا ہے کہ اس کے بعد 2006ء میں امریکی اور افغان اہلکاروں نے کابل کے مضافات میں منشیات سے بھرا ایک اور ٹرک پکڑا جس کی اطلاع حکام کو حاجی امن خیری نامی مخبر نے دی تھی ایک سال کے بعد اسی حاجی امن خیری کو افغان نائب صدر کے قتل کی سازش کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ 2007ء میں افغان صدر کرزئی کو امریکی سفیر اور سی آئی اے کے اسٹیشن چیف نے ایک بریفنگ دی گئی جس میں انہیں ان کے بھائی احمد ولی کرزئی پر الزامات کے بارے میں بتایا گیا لیکن حامد کرزئی نے امریکی حکام سے ثبوتوں کا مطالبہ کردیا۔ اخبار کا کہناہے کہ وائٹ ہائوس اور امریکی حکام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ احمد ولی کرزئی منشیات کی تجارت میں ملوث ہیں تاہم کسی ثبوتٰ کے نہ ہونے کی وجہ سے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔یہ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ افغانستان جو منشیات کا گڑھ بنتا جارہا ہے کو اگر کنٹرول نہ کیا گیا تو اس کے اثرات مشرق وسطیٰ بلکہ پورے خطے میں پڑیں گے۔ یہی وجہ ہے اقوام متحدہ کے انسداد منشیات کے سربراہ نے گزشتہ دنوں برسلز (بلجیم) میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی حکومت کی طرف سے انسداد منشیات کی اسمگلنگ اور غیر قانونی نقل و حرکت کے سدباب کے لئے کئے گئے اقدامات کو سراہا اور بتایا کہ 3500ایرانی سیکورٹی اہلکار ڈرگ مافیا اور اسمگلنگ کے خلاف کارروائیوں کے دوران اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیںاور یہ بھی بتایا کہ افغانستان کے سرحدی علاقے اس وقت منشیات فروشی اور ہیروئن اسمگلنگ کے گڑھ بنتے جارہے ہیں۔ اس وقت افغانستان کے صرف 12صوبے منشیات کی اسمگلنگ سے بچے ہوئے ہیں جبکہ باقی صوبے اس لعنت میں براہ راست ملوث ہیں انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی باعث تشویش ہے کہ 2012ء کی نسبت 2015ء میں ہیروئن اور دوسری منشیات کی پیداوار میں 39فیصد اضافہ ہوا ہے اور طالبان کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ منشیات اور اسمگلنگ ہے میرے حساب سے بھی اگر افغانستان میں محض دس ہزار طالبان موجود ہیں اور ایک ’طالب‘‘پر آنے والا خرچ 40سے 50ہزار روپے تک ہے تو اس طرح سالانہ دو سے تین ارب تک رقم خرچ ہورہی ہے۔ یہ رقم کہاں سے آرہی ہے؟میں بھی سوچتا ہوں، آپ بھی سوچئے......
’’ستائے گی کسی دن بادِ باراں میں نہ کہتا تھا‘‘

تازہ ترین