• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سڑکوں کی رانی’ ڈبلیو گیارہ‘ زبوں حالی کا شکارہوگئی ہے

Princess Of Roads W 11 Are The Victims Of The Hills

کراچی کی سڑکوں پر چلنے والی ’شہر کی رانی‘ اور خوب صورت منی بس ’ڈبلیو گیار ہ ‘سے کون واقف نہیں ۔ بہت بنی سنوری اور سجی ہوئی یہ گاڑی اس شہر کی سڑکوں پر راج کیا کرتی تھی اور اپنے سفر کرنے والوں کو ایک آرام دہ اور پر سکون مگر انتہا ئی سستا سفر مہیا کیا کرتی تھی ۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب اس شہر میں کبھی رات نہیں ہوا کرتی تھی اور پوری را ت لوگوں کویہ سواری با آسانی مہیا ہوا کرتی تھی ۔


ماضی میں اس پر کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں ،کئی مشہور ڈرامےبھی اس کے ذکر سے بھرے پڑے ہیں ۔دنیاکے کئی ممالک میں اس بس کے منفرد اسٹائل کو کاپی بھی کیا گیا ہے اور وہاں ’ڈبلیو گیار ہ ‘کے انداز کی خصوصی ٹرام بھی چلائی گئی ہیں ۔

مگر آج یہ زبوں حالی کا شکار ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہورہا ہے ۔خدشہ ہے کہ دنیا بھر میں شہرت کا سبب بننے والی یہ گاڑی کہیں دوسری بسوں کی طرح بند ہی نہ ہو جائے ۔

تباہ حالی کی وجوہات جاننے کے لیے نمائندہ ’’جنگ‘‘ نے جب بس مالکان ، ڈرائیور ، کنڈیکٹرز اور اس کے دیگر ذمہ داران سے معلومات لیں تو کئی نئے پہلو سامنے آئے ۔

کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد ، ضلع وسطیٰ کے نائب صدر عامر رضا نے بتا یا ’ ڈبلیو گیارہ کراچی میں 1979 میں شروع کی گئی تھی ۔ابتداء میں 200 سے زائد بسیں چلاکرتی تھیں بعد میں یہ تعداد بڑھتے بڑھتے 350 تک جا پہنچی ۔ 80 اور 90 کی دہائی میں اس کی دھوم پورے شہر سے نکل کر ساری دنیا تک پہنچ گئی ۔ ہر جگہ اسے پذیرائی ملی اوریہ کراچی کی پہچان بن گئی۔ لوگ دور دور سے اسے دیکھنے آیاکرتے تھے اور اس میں سفر کرکے فخر محسوس کیا کرتے تھے ۔

انہوں نے مزید بتایا ’سن 2000ء سے پہلے ان گاڑیوں کی تعداد 350 تھی جو آج کم ہوتے ہوتے صرف 100 رہ گئی ہیں اور ان میں سے بھی 10 سے 15 گاڑیاں خراب حالت میں کھڑی ہیں جبکہ روڈ پر صرف 85 سے 90 گاڑیاں چل رہی ہیں ۔ ‘

انہوں نے کہا کہ 2000ء کے بعد اس گاڑی کا زوال شروع ہو گیا ۔ گاڑیاں دن بہ دن کم ہو نا شروع ہو گئیں ۔ عامر رضا نے بتایا کہ چنگچی رکشوں کے آنے سے ہمارے کاروبار کو بہت نقصان پہنچا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی برھنے کی وجہ سے اس کا کرایہ بھی بہت کم ہے جس سے ان کے کاروبار کو کا فی نقصان ہورہا ہے ۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہـ’ سب سے لمبا روٹ ’ڈبلیو گیار ہ ‘کا ہے ۔ ان کا کہناتھا کہ تقریباً 30 کلو میٹر تک کا اس کا روٹ ہے اور کرایہ صرف 17 روپے ہے ۔ مہنگائی بڑھنے اور کرایہ کم ہونے کی وجہ سے ان کی آمدنی بہت کم ہو گئی ہے ۔ بس مالکان کو پریشانی کا سامناہے جس کی وجہ سے مالکان کو خرچہ نکالنے میں مشکلات در پیش ہیں ۔حتیٰ کہ اب وہ گاڑی کو سجا بھی نہیں پاتے ۔حالانکہ اس کی سجاوٹ اور بناوٹ ہی اس کی انفرادیت اور پوری دنیا میں الگ پہچان ہے۔ ‘‘

عامر رضا کا کہنا تھا کہ پے در پے حادثات اور نقصانات کی وجہ سے کئی بس مالکان کاروباری طور پر تباہ ہو گئے ہیں اور سینکڑوں لو گوں نے اپنی گاڑیاں بند کر دی ہیں جبکہ انہیں خدشہ ہے کہ جو بچے کھچے لو گ رہ گئے ہیں وہ بھی کہیں مستقبل میں اسے مکمل طور پر بند نہ کر دیں ۔ انہوں نے بتایا کہ پو لیس آئے دن ان کی گاڑیاں بے گار پر لے جا تی ہیں جس کی وجہ سے انہیں بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔



عامر رضا نے کہا کہ بس مالکان اور ان کی یونین اسے بچانے کی پوری کو شش میں لگی ہو ئی ہے ۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ تمام بسیں اپنی پرانی حالت میں آجائیں ۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مالکان کے بوجھ کو کم کرنے اور ان کی آمدنی کو بڑھانےکےلئے احسن آباد معمار سے کیماڑی تک کاکرایہ 30 روپے کیا جا ئے ۔ اور بے گار پر لے جانے سے ان کی گا ڑیوں کو بچا یا جائے ۔

عامر رضاکا کہنا تھا کہ دنیا کے تمام ممالک میں حکومت پرائیویٹ سیکٹر کو سپورٹ کرتی اور ان کی مدد کرتی ہے جبکہ ہمارے ہاں پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والوں کو تنگ کیا جاتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ڈبلیو گیار ہ ‘ کی وجہ سے پوری دنیا میں سستی اور معیار ی سواری کا ایک اچھا امیج بن گیا ہے لیکن حکومت اس پر کو ئی تو جہ نہیں دے رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک زمانہ تھا جب سجی ہوئی گاڑیوں میں ’ڈبلیو گیار ہ ‘کی مثالیں دی جاتی تھیں ۔ جن میں سے کچھ گاڑیوں میں چاندی کا اسٹیئرنگ اور سونے کی چابیاں ہوا کرتی تھیں جبکہ اور آج یہ حال ہو گیا ہے کہ گاڑیوں کے ٹائر اور ان میں لگے گیس سیلنڈر بھی قسطوں پر لیئے ہوئے لگے ہیں ۔ بس مالکان قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ وہ جب صبح روڈ پر اپنی گاڑی نکالتے ہیں تو کسی سے قرضہ لے کر نکالتے ہیں اور شام میں پھر اسے لو ٹانے کی کو شش کرتے ہیں ۔‘

’ڈبلیو گیار ہ ‘کے ایک ڈائیور نادر کا کہنا تھا کہ وہ ایک عرصے سے اس بس پر ڈرائیونگ کر ہے ہیں ۔ پہلے انہیں گاڑی چانے میں بڑا مزا آتا تھا جبکہ اب اس کی تباہ حالی کی وجہ سے ان کا دل اچاٹ ہو گیا ہے اور وہ بھی بہت اداس رہنے لگے ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں مزدوری اب کمیشن کی صورت میں ملتی ہے ۔ 100 روپے میں سے صرف 10 روپے ملتے ہیں ۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر کی دیہاڑی برابر ہو تی ہے ۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک دن میں گلشن ِ معمار احسن آباد سے کیماڑی تک تین چکر لگاتے ہیں اور ہر چکر میں انہیں تقریباً 350 سے 400 روپے تک مل جاتے ہیں ۔

تازہ ترین