• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

JITنے نیک نیت BONAFIDE رہنا تھا، بدنیتی MALAFIDE چسپاں ہوچکی۔ چینی سفیر کا تازہ بہ تازہ بیان ،’’اقتصادی ترقی اور سیاسی استحکام لازم وملزوم ہیں۔‘‘ سانحہ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد، وطن عزیز اپنی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی بحران میں، عدم استحکام کی زد میں آنے والے دن بھیانک۔
عمران خان کے امپائروں کو یقین دلاتا ہوں،کہ انگلی اٹھنے سے پہلے ہی کھیل ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا، وطن عزیز کھلواڑہ بننے کو عمران خان پچھلے تین سال سے نواز شریف کے استعفیٰ سمیت ، اسمبلیوں کی تحلیل کے آرزو مند، امید ویاس کے دائمی مریض بن چکے۔ فرسٹریشن کی انتہا، اپنی ممکنہ نااہلی کو چھوٹی قربانی قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی ابتری، سیکورٹی معاملات کو تہس نہس نہ رکھے، کیسے ممکن؟ دشمنان وطن ایک عرصے سے انتشار کے متمنی، مہربان، پاسبان ممدو معاون کیوں؟ پاناما لیکس سے بہت پہلے، 2014 کی احتجاجی سیاست المشہور دھرنا ون کی رٹ ، نواز شریف کا استعفیٰ، قومی مفادات سے جڑ چکا۔ نادیدہ قوتوں کا تب سے شبانہ روز نواز شریف سے گلو خلاصی، خلاصی کا خلاصہ بن چکا۔ سال قبل گارڈین اخبار میں اور مخدوم جاوید ہاشمی کی تین سال پہلی بمع حالیہ پریس کانفرنس نے رونما ہونے والی ورداتوں کا اسکرپٹ ہی تو بتادیا بعین ہی سب کچھ اسکرپٹ کے مطابق۔
بد قسمتی، وطن عزیز جیسے ہی آسمان کی جانب سفر شروع کرتا ہے،پیالی کا طوفان بصورت سیاسی بحران وطن عزیز کو چاروں شانے چت کر جاتا ہے۔ایٹمی ہتھیاروں سے لیس واحد مسلم ریاست، خطے کے اہم ترین مقام پر مقیم، ایسی مملکت کا سیاسی عدم استحکام امریکہ بھارت کی آسودگی ضرور، دوست چین کا چین اور سکون برباد کر جائے گا۔ خدشات، تفکرات ذہن کو جکڑ ے خاکم بدہن موجودہ بحران وطن عزیز کو نئی گہرائی و پستی میں دھکیل گیا تو نکلنا، نکالنا نا ممکن رہے گا۔
برسوں سے لکھ رہا ہوں کہ امریکہ کی پہلی دلچسپی پاکستان کو توڑنا نہیں بلکہ انتشاراور افراتفری کو مستحکم کرنا ہے، اتحادی بھارت ہمہ وقت مددگار۔ تخریبی کارروائیاں، دہشت گردی، ڈرون اسٹرائیکس، ڈو مور سارے زیر استعمال حربوں کا مقصد ، نفسا نفسی، انارکی پھیلانا تھا۔ کتنے زور سے پکاروں، پاناما لیکس کیس سے منسلک امریکی ایجنڈا، مخصوص ممالک میں سیاسی افراتفری اور لا قانونیت کو عام کرنا ہے۔
پچھلے سال سے وقوع پذیرواقعات کو ترتیب دیں۔ اپریل 2016 کو پاناما دستاویزات منظر عام پر آئیں، آغازِ سفر سے کن مراحل سے گزرہوا، حقائق چکا چوند رکھنے کے لئے کافی۔ جولین اسانج (لاکھوں امریکی راز وں کا امین) کی وکی لیکس نے اپریل 2016 کو مصدقہ اطلاع دی کہ،’’پاناما لیکس دستاویزات کی فنڈنگ یو ایس ایڈ اور امریکی ارب پتی جارج سورس(GEORGE SOROS) کی اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن نے کی۔ امریکہ نے روس اور چین کو محدود رکھنے کے لئے DUAL CONTAINMENT (بیک وقت دو سطح پر سدباب) پالیسی اختیار کی۔ ایک طرف ایشیااور افریقہ کے ممالک کو عدم استحکام میں دھکیلنا جبکہ دوسری طرف چین اور روس کے گردو نواح ممالک اور سمندروں میں مزید نئے فوجی اڈے بنانا، مضبوط کرنااور دفاعی معاہدوں کو مربوط کرنا ہے۔‘‘
پہلے ہلے میں افغانستان، عراق ، لیبیا، یمن، مصر ، سوڈان ، صومالیہ، شام، درجنوں ممالک کو آگ اور خون میں دھکیلا گیا۔ جبکہ پچھلے سولہ سالوں سے وطن عزیز کو افغانستان، عراق ، شام بنانے کے جتن جوبن پر ہیں۔ چند سالوں سے ترکی اور اب قطر نشانے پر۔ پاکستان غیر مستحکم تو چین بھی مسدود، مزید ایران اور وسط ایشیا پر اثرورسوخ موجود۔ چین اور روس کے ساتھ پچھلے چند سالوں میں پاکستان اقتصادی اور دفاعی معاہدوں میں دن دگنے رات چوگنے نتائج حاصل کر چکا ہے۔
اقتصادی راہداری کامیابی نوشتہ دیوار، چین کی ترسیلات کے لئے محفوظ گزر گاہ کا اکلوتا اور محفوظ ذریعہ بھی، بحر ہند پر چین کے کلی انحصار کا متبادل ہے۔
پاناما کیس کی کارروائی جوں جوں آگے بڑھی، توں توں ایک تسلسل سےملکی سیاسی جماعتوں میں تناؤ اور ٹکراؤ میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ لگتا ہے ایک منصوبے کے تحت فساداور ٹکراؤ با اہتمام کروایا گیا۔ ہر طرف سے خطروں میں گھرے پاکستان کا بڑا مسئلہ نواز شریف کی معزولی بنا دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے اندر چلنے والے مقدمے سے باہر کھلی عدالت میں فیصلے سنانا معمول رہا۔ تحریک انصاف کے ’’نوے آنے والے سوہنے‘‘NEW ENTRANTSجلتی پر ٹنوں تیل ڈالتے رہے۔ عدالتوں کی تضحیک کرنے والے بابر اعوان، فواد چوہدری خوبصورتی سے کمانڈ اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کو ملوث اور متنازع بنانے کی مذموم کوشش کروفر سے جاری ہے۔ تاثر عام کہ جے آئی ٹی کا معاندانہ، متعصبانہ اور WITCHHUNTING کا تاثر بھی باہمی تصادم کو بڑھا گیا ہے۔ JIT ، پی ٹی آئی بمع نادیدہ قوتیں، ایک صفحے پر نظر آنا معاندانہ اورتکلیف دہ ہے۔ آرٹیکل10-A موجود ،بار کونسلوں کا فیصلہ کہ فیئر ٹرائل کا راستہ روکنا، آئین کی خلاف ورزی اور سپریم کورٹ پر دباؤ کی مذموم جسارت ہے۔
نواز شریف نے مبینہ کرپشن 1993 میں کی۔ اس کے بعد کئی دفعہ اداروں کی آنکھ کا تارا رہے۔2009 کے اوائل میں عمران خان مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں غرقاب ، نواز شریف کی سیاست میں اپنی سیاست جمع رکھنے پر کمر کس چکے تھے ،یک جانی کے لئےعمران خان کی تڑپ دیدنی تھی۔مارچ 2014 میں نواز شریف کو گھر پا کر خوشی سے کھلی باچھیں اخباروں کے اول صفحے کی زینت بنیں۔ شیخ رشیددہائیوں بغل بچہ رہے۔ نوازشریف جب مبینہ کرپشن کر رہا تھا، یہ سارے مبینہ دست وبازو تھے۔ اداروں، حواریوں سے گزارش اتنی ، اگر اتنا عرصہ کرپٹ نواز شریف کے ساتھ مزے لوٹ لئےتو مزید چند سال گزار لیں۔ موجودہ ہنگامی دور اور عالمی خطرات کو گزر جانے دیں۔ مضبوط و مربوط نواز شریف کو "کٹ ٹو سائز" کے کئی مواقع میسر رہیں گے۔
کرپشن کے خلاف جنگ اور وہ بھی شیخ رشید، جہانگیر ترین، علیم خان، بابر اعوان، فردوس عاشق اعوان، فواد چوہدری ، گوندلوں کے سنگ، آفرین۔ تنگ آمد بجنگ آمد ضرور، نواز شریف نے طبل جنگ بجانے میں جلدی کی۔سیاسی افراتفری اور جنگ وجدل نے بھیانک نتائج پیدا کرنے ہیں۔ کیا پاکستان متحمل ہو پائے گا؟
سپریم کورٹ پر دباؤ کے نت نئے طریقے، سوشل میڈیا، جلسے، جلوس،وکلا تنظیمیں، سب کچھ استعمال کیا جاچکا ہے۔ یقینی منفی سیاسی اثرات مرتب ہوچکے ہیں۔ ریاست کی چولیں ہل رہی ہیں۔ چند ماہ پہلےمملکت کو لاک ڈاؤن رکھنےکے لئے کیا کیا جتن نہ ہوئے۔ خواہشات بر آور رہتیں تو، مملکت نے مستقلاََ لاک ڈاؤن رہنا تھا۔کیا پاکستان متحمل ہو پاتا؟
روسی فارن پالیسی تحقیقی جریدےمیں الزام ہے کہ "امریکہ پاکستانی اپوزیشن لیڈر کو ملکی حالات خراب رکھنے کے لئے بطور کٹھ پتلی(PUPPET) استعمال کر رہا ہے۔امریکہ نے اس مقصد کے لئے بعض خلیجی ممالک کو شریک کار بنا رکھا ہے۔’’سابق عسکری سربراہ کااپنے دور میں21روزہ امریکی دورہ ہمیشہ وجہ نزاع رہے گا،شکوک وشبہات چسپاں ہیں۔ 2014 کے دھرنے ترتیب دینے کا الزام بھی ان کی ٹیم پر تھا، ملکی معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا۔ چینی صدر کا دورہ ملتوی رہا۔ چین کی مدد سے وجود میں آنے والے درجنوں منصوبے التواکا شکار رہے۔ سابق چیف سعودی خصوصی طیارہ کے ذریعے7 جولائی 2017 کو پاکستان وارد ہوئے تو دل دھڑکنا لازم تھا۔ اچھنبے کی بات اتنی کہ JIT انہی دنوں اپنی رپورٹ فائنل کر رہی تھی۔ بین الاقوامی جریدوں میں ان کا کردار جے آئی ٹی کے حاصل کردہ شواہد اور ترتیب میں"GROUND BREAKING ROLE" لکھا گیا ہے۔ جے آئی ٹی کو متحدہ عرب امارات کی حکومتی معاونت سمجھ کے ہر خانے میں فٹ بیٹھتی ہے۔
پاناما کیس کے اوپر مخصوص خاندان کو ٹارگٹ کرنے کے لئے، آئین سے تجاوز نظر آیا ہے۔آئین سے ماورا حکومت کو تبدیل کرنے کی خواہش کامیاب ہوئی تو جسٹس منیر ڈاکٹرائن دوبارہ زندہ ہوجائے گی۔ قانون کی بالا دستی کا نعرہ،مگر فی الحقیقت قانون اور آئین سےتجاوز نقش ہو رہا ہے۔دگرگوں بین الاقوامی صورتحال میں سیاسی عدم استحکام کے لئے سینہ سپر رہنا، نامساعد صورت حال میں حکومت گرانا، دو مقدس اداروں کی مٹی پلید رہنا ،شکوک وشہبات عام رہنا،WITCHHUNTING بارے شکوک وشہبات عام رہنا،باہمی ٹکراؤ اور سیاسی ابتری کا با اہتمام نظر آنا، کسی بھی باشعور محب وطن کا ایجنڈا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ وطن دشمنی میں درج رہیگا، یہ ایجنڈا مخصوص مفاداتیوں کا ہے۔
پاکستان لاقانونیت اور نفسا نفسی کا شکار رہتا ہے تو چینی مفادات اور روسی توقعات کا ریزہ ریزہ ہونا لازم، امریکہ کی DUAL CONTAINMENT پالیسی بھی یہی کچھ۔ بات حتمی: امریکہ کا یار، پاکستان کا غدار۔

تازہ ترین