• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ میں آئے دن خلق کے ساتھ کئی زیادتیاں ہونے کی خبریں عام طورپر ملکی میڈیا اور خاص طور سندھی میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ کہیں پولیس کی زیادتیوں کی خبریں ہیں تو کہیں ایسے واقعات کے پیچھے مقامی چھوٹے بڑے وڈیروں اور انکے وانٹھوں (حواریوں) کا ہاتھ نظر آنے یا نظر نہ آنے والا ہوتا ہے۔ کہیں کسی عورت کے ساتھ زیادتی، کہیں کسی کے گھر ڈاکہ چوری، کسی کی زمین پر قبضہ، تو کسی کے پیارے قتل کروا دئیے گئے ہوتے ہیں۔ کہیں جعلی مقابلوں میں تو کہیں بظاہر قبائلی تنازع کے مسئلے پر تو کہیں نام نہاد غیرت کے نام پر۔ ایسے واقعات اور سندھی عوام پر ظلم کرنیوالے ظالموں اور زورآوروں کو اخبارات ’’بااثر‘‘ لکھتے ہیں۔ اور ایسی کئی خبریں سندھ میں جاگیردارانہ نظام کی ہولناکیاں ہی۔ زیادہ تر یہ ’’با اثر‘‘سندھ میں کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو وہ ہر دور میں برسراقتدار پارٹی میں شامل ہوتے ہیں۔ ایسے ہی سندھ کے تین انتہائی طاقتور اور بڑے جاگیرداروں میں سے جب ایک سے پوچھا گیا تھا کہ سردار صاحب آپ ہر بار کیوں حکومتی پارٹی میں شامل ہوتے ہیں تو سندھ کے اس طاقتور سردار نے کہا تھا: ’’بابا، ہم لوگ کیا کریں۔ حکومت ہی پارٹی بدل جاتی ہے۔ ہم تو حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں۔‘‘ اور اس بار تو سندھ میں ہے ہی دوسری باری بھی زرداری۔اب تو وہ ہی سندھ کا سب سے بڑا جاگیردار ہے کہ سب سے زیادہ زمینیں شاید اس کی ہیں یا پھرایک بزنس ٹائیکون و بلڈر کی۔
لیکن ماضی قریب تک سندھ میں سب سے بڑی زمینداریاں تین چار جاگیرداروں کی ہوتی تھیں جتوئی، مہر اور پیر پگاڑو یا پھر ہالا کے مخدوم۔ تھے تو یہ دونوں پیر لیکن انگریز سرکار یا اس سے بھی پچھلے کلہوڑو حکمرانوں کے زمانے سے انکی درگاہوں کو زمینوں کے بڑے رقبے جاری کیے ہوئے تھے۔ سندہ گزیٹیر ان پر تحصیل اور ضلع بہ ضلع روشنی ڈالتی ہے۔ بہت سارے خانوادے سندھ کے تالپور حکمرانوں سے ناراض تھے کہ انہوں نے کلہوڑوں کی طرف سے دی گئی خلعتیں اور زمینیں مسترد کی تھیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حر بغاوت کے دوران بھی کوئی شازو نادر ہی پیر کی کیٹیاں منسوخ کی گئی ہوں!۔
جب اٹھارہ سو تینتالیس میں سندھ پر سر چارلس نیپر کی قیادت میں انگریز فوجوں نے تالپوروں کا اقتدار ختم کیا تو حیرت ہے کہ انہوں نے نہ فقط تالپوروں کی طرف سے سندھ کے پیروں سرداروں اور مخدوموں کی چھینی ہوئی زمینیں اور شکار گاہ واپس کیے بلکہ سندھ میں جاگیرداری اور بڑی بڑی زمینداریوں کو ایک منظم شکل دیکر انکو اپنے حق میں مضبوط کیا۔ اس سے پہلے زمین اللہ کی اور بادشاہ اسکا نائب کہلاتا تھا۔ دہلی کو خراج جاتا تھا۔ اسی لیے تو شوکت صدیقی نے لکھا تھا کہ برصغیر میں جاگیردار زیادہ تر وہ تھے جن کے بڑے یا تو ڈاکو تھے یا پھر محب وطن لوگوں کے خلاف انگریزوں کی دربار میں چغل خوری کر کے انعام و اکرام میں بڑے بڑے رقبے حاصل کیے تھے۔ سندھ کا تو باوا آدم ہی نرالا تھا اور نرالا ہے۔ آج بھی ایک آدھ جیالوں کو چھوڑ کر، دو چار مڈل کلاسیوں اور پروفیشنلز کو چھوڑ کر باقی وہ لوگ اسمبلیوں میں براجمان ہیں جنکے بڑوں نے سندھ پر قبضے کے وقت چارلس نیپر سے وفاداری دکھلائی تھی۔ پھر انکی پود نے ونیونٹ کے حق میں ووٹ دیا اور پھر انہی لوگوں کی اولادیں غلام حسین ہدایت اللہ سے لیکر ایوب کھوڑو اور جنرل ایوب تک بھٹو ہو کہ ضیا کہ زرداری ہر چڑھتے سورج کے ساتھ ہیں۔ بس بیچ میں ایک چھوٹے وقفے آئے تھے جب انکو بڑے جاگیردار غلام مصطفی جتوئی نے یقین دہانی کروائی تھی کہ جیل بھرو تحریک محض دو تین ہفتوں کی بات ہے اسکے بعد حکومت اپنی۔ پر جب تین چار ماہ بمشکل گزرے پھر جیلوں میں وڈیروں کے معافی ناموں کے فارم ختم ہو گئے جو وہ ضیا آمریت سے معافی مانگ مانگ کر رہا ہوتے گئے۔ ان میں سے کئی وڈیرے ضیا کے نظام کا حصہ بنے اور اب زرداری ’’سب پر بھاری ‘‘ کا حصہ ہیں۔
مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی جب کوہستان اور جامشورو کے خود کو بے تاج بادشاہ کہلانے والے کا آصف زرداری سے تنازع ٹائپ اختلاف ہوا تو مجھے شیخ ایاز کا وہ شعر یاد آیا:
یوں تو وڈیرہ چیل رے
پر جو غصہ ہو سرکار
تو اسکا چڑی جیسا دل رے
یوں تو وڈیرہ ناگ رے
پر غصہ ہو سرکار
اسکے گرگٹ جسے رنگ رے۔
اور پھر ایسا ہی ہوا۔
سندھ کے کچے کی ہزاروں لاکھوں ایکڑ زمین زیادہ تر غیر سروے شدہ ہے لیکن اسکا قبضہ وڈیروں اور سرداروں کے پاس ہے۔ کچا ہو کہ پکا نہریں انکی نہری پانی انکا باقی ساری خلق گویا کہ پوچھڑ کی آباد گار۔ سرکاری پارٹی یا برسراقتدار ٹولے پھر وہ سول ہوں کہ فوجی اس میں شامل ہو جائو پھر چاہے کتنے ہی قبضے کرو۔لوگ اغوا اور قتل کروائو، قبضے کرو، سائیں تو سائیں کی موٹر بھی سائیں۔ قبائلی فسادات کی جڑ بھی یہ سردار وڈیرے، چوروں کی نانیاں بھی یہی۔ ڈاکو بھی انہی کو ابا کہتے ہیں۔ اب تو انہوں نے سیکھ لیا ہے کہ سندھ پر حکومت کیلئے مسکینوں کو دبا کر رکھنے کیلئے خود کمی کاسبی یا کمدار بن جائو جنریلوں کے یا پھر ایک اور نسخہ تیر بہدف عرب شیوخ اور حکمرانوں کے۔ اور سندھ میں کئی پولیس کے ایس ایس پی اور ڈی آئی جی ایسے وڈیروں کے کمدار۔اب تو ان شیخوں کے ملباری منیجروں کی بھی جوتیاں سندھی وڈیرے سیدھی کرتے ہیں۔ اچھی بات ہے کہ ان میں سے کچھ نے اولاد کو باہر کی دنیا میں لکھایا پڑھایا ہے بس انہوں نے انسانوں کا گوشت چھری کانٹوں سے کھانا سیکھ لیا ہے۔ ورنہ ہاریوں مزارعوں کو تو وہ بھی فرش پر بٹھاتے ہیں۔ انکے بڑوں نے انکو دکھلایا ہے کہ مشرف ہو کہ نواز شریف یا عمران خان کہ زرداری آنا تو انکو جلسے کرنے کو ہمارے ہی ہاں ہے نا۔ پارٹی میں ہاری تو نہیں وڈیرے ہی جمع کریں گے نا۔
جاگیرداری کو ختم کون کرے؟ آمر! جو کر سکتے تھے وہ خود وڈیرے بن گئے بلکہ قبائلی سردار۔ تو جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی کے خاتمے کے بغیر سندھ کے مصائب کبھی ختم نہیں ہونے والے۔

تازہ ترین