• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیر اور بھلائی کی تمام طاقتیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور وہی بگڑے ہوئے کام سنوارتا ہے۔ ہم دیکھتے آئے ہیں کہ پاکستان کے بعد آزاد ہونے والے ممالک اعلیٰ منصوبہ بندی، انسانی وسائل کی ترقی، اجتماعی نظم و ضبط اور قیادتوں کی بلند نگاہی سے سیاسی اور اقتصادی میدان میں پاکستان سے بہت آگے نکل گئے اور عالمی طاقتوں میں شمار ہونے لگے۔ چین، جنوبی کوریا اور ملائیشیا کی بڑی بڑی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جبکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی ترقی اور خوشحالی میں اہلِ پاکستان کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ہمارے عوام اِس قدر جفاکش، باہمت اور پُرعزم واقع ہوئے ہیں کہ آٹھ آٹھ اور دس دس برس آمریتوں میں گزارنے کے باوجود نئے عزم کے ساتھ جمہوری روایات اور اقدار کی احیا کیلئے کمربستہ ہو جاتے اور پستی سے بلندی کی طرف سفر شروع کر دیتے ہیں۔ دراصل برصغیر کے مسلمانوں نے جمہوری اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے قائد اعظم کی عظیم الشان قیادت میں پاکستان حاصل کیا، اِس لیے اُن کی نفسیات میں جمہوریت رچی بسی ہے اور وہ لاغر جمہوریت کو بھی انتہائی منظم آمریت سے بہتر سمجھتے ہیں۔
موجودہ حکومتوں کو اقتدار میں آئے چار سال ہو چکے ہیں، مگر اِس پورے عرصے میں قومی انتخابات میں ہار جانے والے جناب عمران خاں نے نوازشریف حکومت کے خلاف دھرنوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور خیبر پختونخوا میں اچھی حکمرانی کی مثال قائم کرنے کے بجائے مرکزی حکومت پر تازیانے برساتے چلے آ رہے ہیں۔ گزشتہ سوا سال پاناما لیکس کی تفتیش میں گزر گیا اور اب مشترکہ تفتیشی ٹیم کی رپورٹ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ عملدرآمد بنچ خود کوئی فیصلہ صادر کرے گا یا کیس نیب کے سپرد کر دے گا۔ قوم کے سنجیدہ طبقے اپوزیشن کی ان جماعتوں کو عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں جو وزیراعظم سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہیں اور بعض وکلا تنظیمیں بھی اس مطالبے میں شامل ہو گئی ہیں جس نے ملک میں ایک غیریقینی صورتِ حال پیدا کردی ہے۔
سی پیک منصوبہ جس کی تکمیل سے پاکستان اور اِس خطے کی تقدیر بدل جائے گی اور شنگھائی تعاون تنظیم کی مستقل رکنیت مل جانے سے پاکستان کے وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ معاشی، مواصلاتی اور سیاسی تعلقات گہرے ہوتے جائیں گے، جبکہ روس ایک اسٹرٹیجک پارٹنر کی حیثیت سے بہت قریب آ رہا ہے، ان پر غیریقینی صورتِ حال کے سائے پڑ سکتے ہیں۔ ان تعلقات کی نشوونما میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کی ٹیم نے بڑی جانفشانی اور عرق ریزی سے کام لیا ہے اور علاقائی اور عالمی زعما کا اعتماد حاصل کیا ہے۔ امریکہ جس نے سی پیک منصوبے کے خلاف بھارت سے گٹھ جوڑ کر لیا ہے، وہ چین کی تیزی سے اُبھرتی ہوئی معاشی اور عسکری قوت کے مدِمقابل بھارت کی پشت پناہی کر رہا ہے جو پاکستان کو زِک پہنچانے کا ہر حربہ بروئے کار لا رہا ہے۔ یہی قوتیں پاکستان کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کرنے پر تُلی ہوئی ہیں اور اِس مقصد کے لیے افغانستان کی سرزمین بھی استعمال کر رہی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے اندر جو عناصر غیرجمہوری اور غیر آئینی طریقوں سے اقتدار پر قابض ہونا چاہتے ہیں، وہ سیاسی ابتری پھیلانے میں پاکستان دشمن طاقتوں کا شعوری یا غیرشعوری طور پر سہارا بن رہے ہیں اور معروف سیاسی طریقوں کے بجائے عدالت یا دوسرے ذرائع سے وزیراعظم کی تبدیلی کے لیے کوشاں ہیں۔ حکومت کی آئینی مدت ایک سال بعد ختم ہونے والی ہے۔ سیاسی تبدیلی کا فطری اور مناسب طریقہ یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے پاس جا کر اُن سے آئندہ پانچ سال کا مینڈیٹ حاصل کریں جس سے پُرامن انتقالِ اقتدار کی روایت مستحکم ہوگی اور پاکستان کا وقار عالمی برادری میں یقیناً بلند ہو گا۔ یہ روایت پاکستان میں پہلی بار 2013ء میں قائم ہوئی جس نے پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی سیاسی قیادتوں کے درمیان میثاقِ جمہوریت کے بطن سے جنم لیا تھا۔
وزیراعظم جب یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے، تو عام آدمی کی سمجھ میں بات آسانی سے آ جاتی ہے کہ جب سے پاکستان اور چین کے مابین چین پاک اقتصادی راہداری کے منصوبے پر دستخط ہوئے ہیں، پاکستان میں ایک طرف دہشت گردی اور دوسری طرف سیاسی احتجاج کا عمل تیزتر ہو گیا ہے۔ اِن دونوں سرگرمیوں کا بنیادی مقصد قومی سلامتی اور داخلی استحکام کو تہ و بالا کرنا ہے جن کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کے ڈانڈے بھارت اور اِس کے سیاسی اتحادیوں سے ملتے ہیں۔ بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کے اعترافی بیان میں اِس خوفناک سازش کے جملہ مراکز بے نقاب ہو گئے ہیں جن سے صاف پتا چلتا ہے کہ پاکستان کے گرد تخریب کاری کا ایک جال بچھا دیا گیا تھا جس کا ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بروقت سراغ لگا کر اپنے وطن کو بہت بڑی تباہی سے بچا لیا ہے۔ پاناما لیکس میں دنیا بھر کی ہزاروں شخصیتوں کے نام آئے، مگر کسی بھی ملک میں پاکستان جیسا تماشا نہیں لگا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے تشکیل شدہ جے آئی ٹی نے بلاشبہ حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، مگر اِس نے وزیراعظم اور ان کے خاندان کے بارے میں جو زبان استعمال کی ہے، اس سے بدنیتی کی بو آتی ہے اور اِس تاثر کو بڑی تقویت ملتی ہے کہ اِس پوری مشق کا بنیادی مقصد نوازشریف کو اقتدار سے محروم کرنا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے بیان میں اِس تاثر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
ہمیں سب سے زیادہ فکر اپنے وطن کی ہے جس میں ایک مصنوعی بحران پیدا کر کے عین اس وقت سیاسی قیادت کو تبدیل کرنے کی مہم جاری ہے جب ملک ترقی کے مراحل تیزی سے طے کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے، اِس سے جمہوری نظام کی چولیں ہلتی جا رہی ہیں۔ جمہوری نظام باہمی احترام، قوتِ برداشت اور میانہ روی کی بنیاد پر قائم رہتا اور مضبوط ہوتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے باہر سیاسی کارکنوں کے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے کے جو مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں، وہ ہمیں طوائف الملوکی کی طرف لے جا سکتے ہیں، اس لیے ہماری عدالتِ عظمیٰ سے گزارش ہو گی کہ وہ عدالت کے باہر عدالت لگانے پر پابندی عائد کرے اور مقدمے کے فیصلے میں تحمل اور تدبر سے کام لیا جائے۔ خوشی اور طمانیت کی بات یہ ہے کہ تمام فریق عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ تسلیم کرنے کا اعلان کرچکے ہیں، لہٰذا حکمران جماعت اور اپوزیشن کے لیے بے سروپا الزام تراشیوں اور کردار کشی کی پالیسی پر نظرثانی کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ اگر عدالت کے ذریعے وزیراعظم گھر بھیجے گئے، تو محترمہ عاصمہ جہانگیر کی رائے میں جناب عمران خاں اور دوسرے سیاسی زعما بھی نااہل قرار پائیں گے۔ اس طرح مقبول سیاسی قیادتوں کے ایوان سے باہر رہنے کے پاکستان میں سیاسی ارتقا اور استحکام پر مہلک اثرات مرتب ہوں گے۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے خود احتسابی کا ایک مؤثر نظام قائم کرنا اور زندگی کے ہر شعبے میں اسے تقویت پہنچانا ہوگی۔ آئین کے آرٹیکل10-a میں شہریوں کو جو بنیادی حق دیا گیا ہے، اس کی رُو سے ہر ادارے کو فیصلہ کرتے وقت فیئر ٹرائل اور ڈیو پراسیس آف لا کا خاص خیال رکھنا ہو گا۔ اچھی حکمرانی اور اچھے نظامِ عدل کے یہ بنیادی اصول ہیں جن کی پاسداری ازبس لازم ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنی پریس کانفرنس میں دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ فوج دستور اور قانون کی محافظ ہے اور اس کا سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے واضح اعلان سے بہت ساری پھیلائی ہوئی غلط فہمیاں دم توڑ گئی ہیں۔ اِسی طرح نون لیگ کے مرکزی رہنما خواجہ سعدرفیق نے بڑے مستحکم لہجے میں کہا ہے کہ ہمیں اپنی عدالتوں کی غیر جانبداری پر مکمل اعتبار ہے اور ہم ان سے انصاف پر مبنی فیصلے کی توقع رکھتے ہیں۔ جناب نوازشریف کو اِس امر کا پورا پورا خیال رکھنا ہوگا کہ جمہوری عمل پٹری سے اُترنے نہ پائے اور عوام کا اپنی قیادت کی امانت اور دیانت پر اعتماد مستحکم ہو۔ انہیں حکمرانی کا اسلوب زیادہ جمہوری بنانا اور مشاورت کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا۔ہم آخر میں اپنے ربِ کریم کے حضور دست بہ دعا ہیں کہ وہ ہمیں دشمن کے شرسے محفوظ رکھے اور آج کی انتہائی کڑی آزمائش میں سرخرو فرمائے اور ہمارے حکمرانوں کو صراطِ مستقیم پر چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اپوزیشن کی ان جماعتوں کو بھی احساس کی دولت سے نوازے جن کی صوبائی حکومتوں کے اندر بدعنوانی، نااہلی اور قانون کی پامالی بہت عام ہے۔ ہم رب العالمین سے التجا کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کو خیر سے معمور کر دے کہ خیر اور بھلائی کی تمام قوتیں اِسی کے ہاتھ میں ہیں۔

تازہ ترین