• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت ایک جے آئی ٹی ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف کرپشن کے مبینہ الزامات کی تحقیقات کیلئے بنی تھی جس نے یہ ناقابل یقین نتیجہ نکالا تھا کہ ملزم نے 469 ارب روپے کی کرپشن کی ہے۔ جب یہ بات سامنے آئی تو بہت سے لوگوں نے اس جے آئی ٹی کا مذاق اڑایا تھا کہ اس نے کیا تحقیقات کی ہیں۔ عدالتوں نے بھی اس پر یقین نہیں کیا اور اسی وجہ سے ڈاکٹر عاصم حسین کی تمام مقدمات میں ضمانت منظور کر لی ۔ اس جے آئی ٹی میں خفیہ ایجنسیوں کے علاوہ سندھ رینجرز اور پولیس کے نمائندگان بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری اور ان کے خلاف تفتیش کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں تھا کہ سابق صدر آصف زرداری کو ان کے ذریعے ’’فکس‘‘ کیا جائے مگر یہ سارا کھیل الٹا پڑ گیا۔ اس جے آئی ٹی کے سامنے سندھ کی سیاست تھی جس میں پیپلزپارٹی کے رول کو ہر صورت نقصان پہنچانا تھا تاہم سیاسی مقاصد تو کچھ حاصل نہیں ہوئے کیونکہ سندھ میں اب بھی کوئی سیاسی قوت آصف زرداری کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور ان کی پوزیشن اس صوبے میں اب پہلے سے بہتر ہے۔ یہ جے آئی ٹی رائج الوقت قانون کے تحت بنی تھی۔ ڈاکٹر عاصم کے خلاف دہشتگردی کی دفعات لگائی گئیں ۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے دہشتگردوں کا علاج اپنے ذاتی اسپتال میں کروایا اور اس طرح انہوں نے ایسے مجرموں کی اعانت کی۔ ان کی ضمانت کے بعد اب کیس جس رفتار سے چل رہا ہے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شاید ہی ان کو جے آئی ٹی کی تحقیقات کی روشنی میں کوئی سزا ہوسکے۔
اب پاناما جے آئی ٹی پر نظر ڈالیں۔یہ کسی قانون کے تحت نہیں بلکہ عدالت عظمیٰ کے حکم پر تشکیل دی گئی۔ ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا۔ دوسری ایسی تفتیشی ٹیموں کے برخلاف اس جے آئی ٹی میں نہ تو کوئی پولیس کا نمائندہ شامل تھا اور نہ ہی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)کا۔ آئی بی کو اس میں نمائندگی نہ دینے پر بہت سے حلقوں میں تشویش کا اظہار کیا گیا مگر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ترمیم نہ کی۔ اس جے آئی ٹی کی سفارشات بھی ڈاکٹر عاصم حسین پر بننے والی ایسی ٹیم سے کچھ زیادہ مختلف نہیں لگتیں کیونکہ ان دونوں کے پیچھے ایک ہی ’’مائنڈ سیٹ‘‘ نظر آتا ہے کہ چاہے کچھ ملے نہ ملے ملزمان پر ہر قسم کا گند ڈال دینا ہے اور ایسی زبان استعمال کرنی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف ان کی توہین ہے۔ ایسی ناشائستہ زبان استعمال کرنے اور غیر تصدیق شدہ موادشامل کرنے اور اس کو کچھ ضرورت سے زیادہ ہی اہمیت دینے سے اصل حقائق پر بھی کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں ہے جن کی طرف جے آئی ٹی نے نشاندہی کی۔ عدالت عظمیٰ نے تو یہ جے آئی ٹی تحقیقات کیلئے بنائی تھی مگر اس ٹیم کے سامنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا تھا تاکہ ہر صورت وزیراعظم نوازشریف اور ان کی فیملی کو عوام کی نظر میں گرایا جائے۔ یہ کھیل بھی الٹا پڑا کیونکہ نون لیگ کا نقصان اتنا زیادہ نہیں ہوا جتنا کہ اندازہ لگایا گیا تھا۔ جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کے علاوہ جس انداز میں اس نے اپنی ساری کارروائی کی اور کچھ گواہان کو دھمکیاں دیں ،نے کوئی شک و شبہ نہیں چھوڑا کہ یہ بری طرح تعصب کا شکار تھی مگر پھر بھی وہ ان افراد کو جن کااس نے انٹرویو کیا وہ کچھ نہیں اگلوا سکی تھی جو وہ چاہتی تھی۔ اس کی خواہش تھی کی کوئی شریف فیملی کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائے۔
یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اس جے آئی ٹی میں شریف فیملی کے سخت مخالفین کو شامل کیا گیا۔ اس کی کمپوزیشن اور سفارشات کو سامنے رکھیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہر صورت نوازشریف اور ان کے خاندان کے دوسرے ممبرز کو پھنسانا تھا مگر اس کے باوجود بھی جے آئی ٹی یہ ثابت نہیں کرسکی کہ وزیراعظم نے کرپشن کی یا اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرکے کوئی اثاثے بنائے۔ جب وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے یہ نکتہ سپریم کورٹ میں اجاگر کیا تو جج صاحبان نے بھی کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں نوازشریف پر کرپشن اور عہدے کے غلط استعمال کا الزام نہیں ہے۔ یہ یقیناً وزیراعظم کیلئے تسلی بخش بات ہوگی کہ اب عدالت نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ انہوں نے قومی خزانے کی لوٹ مار کر کے کوئی پیسہ نہیں بنایا۔ وہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ پانامہ کیس میں ساری تفتیش ان کی فیملی کے بزنس کی ہو رہی ہے جس میں کوئی سرکاری فنڈز کا وجود نہیں ہے یعنی ان کے والد نے دبئی میں اسٹیل مل لگائی اسے بیچ کر پیسہ قطر میں لگایا اور اس سے حاصل ہونے والے منافع کو سعودی عرب اور لندن منتقل کیا گیا۔ جہاں تک شریف فیملی کے لندن فلیٹس کا معاملہ ہے تو اس کے بارے میں بھی جے آئی ٹی نے انتہائی کمزور مفروضوں اور قیافوں سے کام لیا۔ اس نے لکھا کہ بہت زیادہ امکان ہے کہ نوازشریف ہی ان اپارٹمنٹس کے حقیقی مالک ہیں اور انہوں نے اپنے بچے دراصل سامنے رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی اس طرح کی ناقص اور متعصبانہ تحقیقات پر کسی کو سزا نہیں ہوسکتی۔ اگر جے آئی ٹی صحیح پروفیشنل انداز میں کام کرتی ، وزیراعظم کے خلاف اپنے انتہائی غصے کو ایک طرف رکھتی اور یہ ایجنڈا کہ ہر قیمت پر نوازشریف اور ان کی فیملی کو ’’ تْن‘‘ کے رکھنا ہے تو شاید یہ کچھ ایسا ’’ملزمان‘‘ کے خلاف نکال سکتی جس سے ان کیلئے بہت سی مشکلات پیدا ہوجاتیں۔
پاناما کیس سے سیاسی فوائد اٹھانے کی ’’اٹریکشن‘‘ کا یہ عالم ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے اہم رہنما جن کا اس مقدمے سے سرے سے کوئی تعلق اس لحاظ سے ہی نہیں ہے کہ وہ اس میں فریق نہیں ہیں اور اس کو سپریم کورٹ میں لے جانے کے مخالف رہے ہیں وہ بھی اب ریسیں لگا کر عدالت عظمیٰ جارہے ہیں تاکہ انہیں بھی شاید کچھ فائدہ حاصل ہو جائے ۔اس طرح وہ بھی انگلی کٹوا کر شہیدوں کی صف میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ ایک عظیم سیاسی تھیٹر ہے جس میں ہر جماعت ایکٹنگ کرنے میں لگی ہوئی ہے تاکہ ووٹرز اس کیلئے بھرپور تالیاں بجائیں ۔ اتنا لمبا سیاسی ڈرامہ شاید ہی پاکستان میں کوئی چلا ہو۔ ہر سیاسی رہنما کو اسٹیج میسر ہے کہ وہ مقدمے کی سماعت سے پہلے اور بعد میں اپنی دانشمندی کے موتی بکھیرے اور اپنے مخالفین کو ’’لتاڑے‘‘۔ شاید ہی پیپلزپارٹی کو اس سے کچھ ملے کیونکہ اگر اس کو پاناما کیس کا کچھ فائدہ ہونا ہوتا تو پنجاب میں اس کے کئی اہم ساتھی تحریک انصاف میں نہ بھاگ جاتے جبکہ یہ مقدمہ عروج پر رہا۔ اس صوبے میں اسے ابھی بہت محنت کرنی ہے تاکہ اس کی حالت کچھ تھوڑی سی ہی بہتر ہو جائے۔ شاید ہی پاناما کیس کی کوئی پیشی ہو جس میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق خود بہ نفس نفیس حاضر نہ ہوئے ہوں۔ انہیں اس سے کیا سیاسی فائدہ ہو رہا ہے اس کا اظہار تو مختلف ضمنی انتخابات میں نظر آتا رہا ہے جس میں جماعت کے ووٹ کم ہی ہوئے۔ باقی رہ گئی تحریک انصاف اس نے تو بار بار سیاسی ناکامیوں کے بعد اب اپنی ساری امیدیں پاناما کیس پر لگائی ہوئی ہیں کہ اس سے ایک ایسا بم پھٹے جس میں اس کی سب سے بڑی سیاسی مخالف جماعت نون لیگ بھسم ہو جائے اور پھر تحریک انصاف اکیلے ہی سیاسی میدان میں راج کرے ۔ تاہم ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ تحریک انصاف کو کچھ اور حربے استعمال کرنے ہوں گے جس سے وہ کسی نہ کسی طرح نون لیگ کو میدان سے باہر نکال سکے سیاسی مقابلے میں وہ تو اس کے ہم پلہ نہیں ہے۔

تازہ ترین