• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں پاناما لیکس کا کیس ہائی پروفائل ہونے سے کرپشن فری پاکستان کی تحریک دن بدن زور پکڑتی جارہی ہے۔ سب سے پہلے کرپشن فری پاکستان کا نعرہ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے لگایا تھا۔ لیکن پاناما لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد کرپشن کے خلاف تحریک اب عوامی شکل اختیار کر چکی ہے۔ تحریک انصاف اور دوسری جماعتیں بھی اس وقت میدان عمل میں اتر چکی ہیں۔ دکھائی یہ دیتا ہے کہ پاناما لیکس کے فیصلے کے بعد ایک بدلا ہوا روشن اور خوشحال پاکستان نمودار ہوگا۔ پاکستان کے عوام گزشتہ 70سال سے مسلسل کسی ایسے مسیحا کی راہ تک رہے تھے جو ہمیں اس گند سے نجات دلائے اور ہمیں اس شجر سایہ دار کی طرف لے کر جائے جہاں ہم اپنی زندگی کے شب و روز آسودگی سے بسر کر سکیں۔ ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ملک وملت کو وہ مسیحا سینیٹر سراج الحق کی صورت میں نصیب ہوا ہے کہ جس کے بارے میں سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ پورے ملک کے سیاستدانوں میں اگر کوئی دفعہ 62 اور 63 پر پور اترتا ہے تو وہ سراج الحق ہے۔ جناب سراج الحق کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف ملک بھر میں عوام کو کرپشن کے خلاف بیدار کیا بلکہ وہ سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کے سنگین اور اہم معاملے کو بھی سب سے پہلے لے کر گئے۔ ان کی یہ بات درست ہے کہ وزیراعظم نوازشریف سمیت پانامالیکس میں شامل پانچ سو پاکستانیوں کا بھی بلاامتیاز احتساب ہونا چاہئے۔ اب احتساب کے عمل کو مذاق نہیں بننا چاہئے۔ اس وقت پورا ملک کرپشن کے بحر اوقیانوس میں ڈوبا ہوا ہے اور ہر آنے والا جانے والے کو موردِ الزام ٹھہراتا ہوا قوم کو سبز باغ دکھا کر اسی ڈگر پر چل نکلتا ہے۔
ہمارے موجودہ حکمرانوں کی چارہ سازی غربت کے خاتمے کے لئے نہیں بلکہ وہ غریب کو ختم کرنے پر اپنی تمام تر حکمت عملی مرکوز رکھے ہوئے ہے۔ آج مُردہ معاشرے میں روحِ بلالی کی ضرورت ہے۔ کرپشن ایک کرپٹ معاشرے کو جنم دیتی ہے اور اس کے بطن سے رشوت، ناجائز منافع خور، ذخیرہ اندوز، اسمگلر، چور، ڈاکو اور لٹیرے جنم لیتے ہیں۔ اس بیمار معاشرے میں اگر مسیحائی اوصاف کی حامل شخصیات کا وجود نہ ہو تو ملک و ملت کی ناموس خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ بقول مرحوم عبدالستار ایدھی کے ’’ایک وہ جو انسانوں کو مارتے ہیں دوسرے وہ جو تماشا دیکھتے ہیں اور تیسرے وہ جو مدد کرتے ہیں‘‘۔ آئو ہم سب مدد کرنے والے خوش نصیب قافلے میں شامل ہوجائیں۔ جس میں ہماری دین و دنیا کی بھلائی کا سامان موجود ہے۔ آج معاشرے اخلاقی قدروں کی پامالی اور بدحالی کا کیوں شکار ہیں کہ ہماری اخلاقی تربیت کرنے والے ادارے خود کرپشن کے سمندر میں غوطہ زن ہیں۔ موجودہ نظام کی موجودگی میں بڑے سے بڑے ملکوتی تخیل کے حامل قائدین بھی کرپشن کے دیو سے نجات حاصل نہیں کرسکتے اصل مرض کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے۔ ہم کنویں سے پانی کے ڈول نکال رہے ہیں مگر کرپشن کا کتا اندر ہی اندر پانی کو بد بودار کر رہا ہے۔ ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ مُردار کتے کو پانی کے سو ڈول سے پہلے نکالنا ہے ہم صرف100ڈول پانی کے یاد رکھتے ہیں۔ 70 سال سے ہر آنے والا حکمران صرف پانی نکال رہا ہے اور غریب کا تیل نکل رہا ہے۔ امرا کے کتے بھی عیش کر رہے ہیں۔ غریب کا بچہ اسپتالوں میں نہیں اپنے گھر کی دہلیز پر دم توڑ رہا ہے۔ اس نا انصافی اور ظالمانہ نظام کی زنجیروں سے اگر کوئی آزاد کر سکتا ہے تو ہمیں غیروں کی غلامانہ فکر سے مکمل آزاد ہونے کے لئے اسلام کے نظام کی طرف لوٹنا ہوگا۔ اسلام ہی وہ دین ہے جس میں دنیا و آخرت دونوں جہانوں کا اطمینان ہے۔ کرپشن فری معاشرے کی تشکیل کے لئے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا وگرنہ ظلم کی رات اتنی طویل ہوجائے گی کہ ہم صبح صادق کو ترس جائیں گے کیونکہ ہمارے معاشرے میں عدل و انصاف نام کی کوئی چیز نہیں رہی ہے۔ عادل لوگ سایہ دار درختوں کو پانی دیتے ہیں اور ظالموں کا گروہ کانٹوں کی آبیاری کرتا ہے۔ کرپٹ افراد سے نجات کے لئے صالح معاشرے کا قیام انتہائی ضروری ہے۔ کرپشن دیمک کی طرح ملک کو کمزور کرتی ہے اور چند افراد کو طاقت ور بنا رہی ہے۔ ہمیں اُن قوتوں کے خلاف صف آرا ہونا ہوگا جو ملک کی دولت پر صرف اپنا ہی استحقاق رکھتے ہیں۔ دولت کو جمع کرنا اور گردش کو روکنا بھی کرپشن مافیا کے وسائل کا حصہ ہے اور آج ہم اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے آغاز پر کیا دیکھ رہے ہیں کہ 22 خاندان اب ہزاروں خاندانوں کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ اگر یہ 20کروڑ عوام میں بدل جائیں تو دولت کی درست تقسیم سے معاشرہ خوشحال اور کرپشن سے نجات پاسکتا ہے۔ آئو ہم سب مل کر پاکستان کو کرپشن جیسے موذی مرض سے بچائیں۔ یہ مرض لا علاج نہیں ہے اس کا ایک علاج ہے اور وہ ہے اسلامی نظام کا نفاذ! اس کے بغیر کوئی اور نظام ہمیں ایسے امراض سے شفایاب نہیں کرسکتا۔ اسی تناظر میں لاہور سے ہمارے کرم فرما دانشور دوست جناب منشا قاضی نے بڑے درد دل کے ساتھ اپنا خط بھجوایا ہے جو کہ نذر قارئین ہے
جناب محمد فاروق چوہان صاحب!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ !
آپ قومی ایشوز پر بھرپور انداز میں اپنے کالموں میں لکھتے رہتے ہیں۔ روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے آپ کے کالموں کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود پاکستانی کمیونٹی بڑے ذوق وشوق سے پڑھتی ہے۔ آج میں آپ کے کالم کے توسط سے ایک اہم مسئلے کی جانب پاکستانی قوم کی توجہ مبذول کرانا چاہتاہوں۔ 21ویں صدی کے دوسرے عشرے میں ہمارا ملک کرپشن کی وجہ سے بہت بدنام ہورہا ہے۔ دنیا کے178کرپٹ ملکوں میں پاکستان کا درجہ 16ویں نمبر پر ہے اور یہ حالت کوئی قابل ستائش نہیں بلکہ شرم کا مقام ہے کہ ہم سے اپنے وطن عزیز کو ہر روز 133 ملین ڈالر کا ٹیکا لگتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور کوئی بھی انسان نہ درد محسوس کرتا ہے جیسے روزمرہ کی کرپشن ضرورت بن گئی ہے اور اس سے نجات پانا مشکل ہوگیا ہے۔ مگر تاریخ شاہد ہے کہ جب مسلمان پورے کے پورے نظامِ اسلام میں داخل ہوگئے تو انہوں نے ہر شعبہ حیات میں اتنی عظیم الشان ترقی کی کہ تمام دنیا ورطہ حیرت میں ڈوب گئی۔ علاوہ ازیں، زمانے بھر کی قیادت اُن کے قدموں پہ نثار ہونے لگی، لیکن جب فکر و عمل ارادہ و اختیار کے حامِل مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام و قوانین اور ہدایات و تعلیمات سے منہ موڑا اور آہستہ آہستہ اسلامی نظامِ زندگی سے دُور ہوتے گئے تو ذلیل و خوار ہوگئے۔ علم الاقتصاد کی رُوسے ملک کی تمام آبادی کی محنت و مشقت کا حاصِل مجموعی طور پر اُس ملک کا قومی سرمایہ ہوتا ہے۔ معاشرہ ایک جسم ہے تو قومی سرمائے کی حیثیت خون ایسی ہے۔ جس طرح ایک جسم کی صحت و تندرستی اور نشو ونما کے لئے لازم ہے کہ خون گردش کرتا ہوا جسم کے نازک ترین حِصّے میں پہنچے، بعینہ، ایک معاشرے کی بقا و تکمیل، نشوونما اور اِرتقا و عروج کے لئے قومی سرمایے کا گراس روٹ تک پہنچنا ناگُزِیر ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ جسم کے کسی بھی حِصّے میں خون کی گردش میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو وہاں کینسر جیسی خوفناک بیماری جنم لیتی ہے جو آہستہ آہستہ تمام جسم کو اپنی لپیٹ میں لے کر انسان کو موت سے ہمکنار کردیتی ہے۔ اس صورتِ حال سے بچنے کے لئے معاشرے میں قومی سرمائے کو مسلسل گردش میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ قوم سینیٹر سراج الحق جیسے دیانتدار اور باکردار لیڈر پر اعتماد کرے اور زمام اقتدار ایسے ہی افراد کے ہاتھوں میں تھمائی جائے تاکہ پاکستان کرپشن سے پاک ہوسکے۔
والسلام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد منشا قاضی

تازہ ترین