• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے ایک قریبی دوست کو سندھ کے ایک چھوٹے شہر کے ایک اسکول کے بچے اکثر یاد آتے ہیں۔ڈیڑھ‘ دو سال پہلے ان کا وہاں جانا ہوا تھا۔انہیں اس اسکول کا ماحول خلاف توقع اچھا لگا۔انہیں لگا کہ بچے ذہین اور پڑھنے میں تیز ہیں۔لیکن سربراہ استاد نے بتایا کہ بورڈ کے امتحان میں ان کے گریڈ اچھے نہیں آتے۔کیوں؟سادہ سا جواب یہ تھا کہ ’’یہ بچے غریب ہیں‘‘۔ اگر آپ اس جواب کا مطلب فوری طور پر نہیں سمجھ پائے تو ایک دوبار گہری سانس لے کر یہ سوچیں کہ ہمارا تعلیمی نظام کیا ہے اور بورڈ کے امتحانات میں بدنظمی اور کرپشن کو کتنے نمبر دیئے جاسکتے ہیں۔یعنی یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجائے گی کہ اچھے گریڈ اکثر کسی قیمت پر فروخت ہوتے ہیں۔کراچی کے بورڈ کے بارے میں آپ خبریں پڑھ چکے ہیں۔اسی ہفتے ’’جیو‘‘ نے یہ دکھایا کہ کوئی استاد پرچے کس لاپروائی اور برق رفتاری سے جانچ رہا ہے۔امتحانوں میں کی جانے والی نقل تو جیسے قومی کردار کا ایک آئینہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میرے دوست کا سنایا ہوا واقعہ کسی تعجب یا حیرت کا سبب نہیں ہوسکتا۔گویا اسے سن کر اور تعلیم کی بدحالی پر چند ماتمی فقرے ادا کرکے آپ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ٹیلی وژن کی اسکرین پر شعلہ فشاں شاید شیخ رشید آپ کا انتظار کررہے ہوں لیکن ٹھہریئے۔اپنے ذہن میں وہ تصویر بنائیے جسے میرے دوست نے بیان کیا۔ ایک پسماندہ پس منظر میں‘ ان بچوں کو دیکھنے کی کوشش کیجئے کہ جن کے کپڑے میلے ہوں اور آپ یہ جان جائیں کہ ان کے ذہن اوران کے خواب اجلے ہیں تو پھر آپ کیا محسوس کریں گے؟ کیا آپ میں اتنی سمجھ ہے کہ آپ اس قومی المیے کو پہچان لیں؟ ظاہر ہے کہ آپ یہ سوچیں گے کہ میں کیا کروں؟ آخر یہی اکیلی مثال تو نہیں کہ ہمارے معاشرے میں کتنا ظلم ہے اور کتنی ناانصافی ہے؟ ان توضیحات سے قطع نظر‘ میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اپنے ملک کے ٹھکرائے ہوئے بچوںکی محروم زندگی کی عکاسی کرسکوں۔ سوچتے سوچتے دل ڈوبنے لگتا ہے۔ تب میں بھی کسی فروعی مصروفیت سے اپنا دل بہلانے کی کوشش کرتاہوں۔دوسری کئی باتیں ہیں جو حیران کرتی ہیں اور سمجھ میں بھی نہیں آتیں۔ کسی دعوت میں اگر کوئی یہ بتائے کہ اس کے بچے کی اسکول کی ماہانہ فیس اب 25 ہزار روپے ہوگئی ہے تو میں چپ رہتاہوں۔
یہ بتانا ضروری ہے کہ میں نے آج یہ موضوع کیوں چناہے۔یہ دوسری بات ہے کہ تعلیم کا معاملہ ہماری قومی زندگی کی ہرسرگرمی یا مشغلے کے پیچھے کھڑا ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتاہے۔ ہوا یہ کہ اس ہفتے منگل اور بدھ کے دنوں کا بڑا حصہ میں نے ایک ورکشاپ میں گزارا جس میں سندھ اور بلوچستان کے کالجوں کے استاد شریک تھے۔ورکشاپ کا عنوان تھا‘سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری میں اساتذہ کاکردار ’’اس کا انتظام اسلام آباد کی ایک غیرسرکاری تنظیم نے کیا تھا کہ جو خاص طور پر اس ملک میں شدت پسندی اور عدم برداشت کے پھیلائو کو روکنے اور امن اور سماجی ہم آہنگی کی ترویج کی جدوجہد میں مصروف ہے۔میں اس ورکشاپ کی روداد بیان کرنا نہیں چاہتا۔ کئی معروف دانشوروں اور تعلیم کے ماہرین نے الگ الگ موضوعات پر اساتذہ سے گفتگو کی اور اساتذہ نے بھی اہم نکتے اٹھائے۔تعلیم کے مکمل نظام کے ساتھ ساتھ پاکستان کی شناخت کے بحران اور قومی سلامتی کی ترجیحات پر بھی غور کیا گیا۔سو یہ سب میں ایک کالم میں کیسے سمیٹ سکتا ہوں۔بس یہ بتادوں کہ ورکشاپ میں عمومی رویوں‘ نصاب‘ پاکستان کے فکری چیلنج‘ غیرمسلموں کے مسائل‘ استاد کے کردار اور میڈیا کے رول کے بارے میں سنجیدہ گفتگو ہوئی۔ پاکستان کے تعلیمی نظام اور سماجی ہم آہنگی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا خاص طور پر جائزہ لینے کی کوشش کی گئی۔لیکن شاید آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ بات کچھ بھی ہو حوالہ کوئی بھی ہو‘ کہنے والوں اور سننے والوں کی اپنی سیاسی اور معاشرتی وابستگیاں کتنی ہی مخالفانہ کیوں نہ ہوں‘ مایوسی اور بے بسی کے تاثر سے نجات نہیں ملتی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے مسائل اور زندہ حقائق کا سچا تجزیہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اور ایسی ہرکاوش کے نتیجے میں چند بڑے سوال سراٹھاتے ہیں جن سے ہمارے حکمراں مسلسل آنکھیں چراتے رہے ہیں۔تعلیم ہماری قومی زندگی کی سب سے بڑی پہیلی بن گئی ہے۔دہشت گردی‘ انتہاپسندی اور عدم برداشت کی پرورش یاتو ناخواندگی اور جہالت نے کی ہے یا ایسی تعلیم نے کہ جو سماجی انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتی اور شاگردوں کو ذمہ دار شہری نہیں بناتی۔
جب ہم تعلیم کے بارے میں سوچتے ہیں تو بے شمار الجھنیں ہمارے خیالات کو منتشر کردیتی ہیں۔سمجھ میں نہیں آتا کہ بات کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ یہ شکایت اب بہت پرانی ہوگئی کہ تعلیم کوکوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔اور یہ کہ استادوں کی تنخواہیں بہت کم ہیں۔تعلیم کے بجٹ میں بھی آٹھویں ترمیم کے بعد صوبوں کی سطح پر کافی اضافہ ہواہے گواتنا نہیں کہ ہم دوسرے ملکوں کی حدیں چھولیں۔میں نے یہ دیکھا ہے کہ کئی اعلیٰ سرکاری عہدیدار بھی اس سلسلے میں بہت پریشان رہتے ہیں۔یہ سب کچھ ہے لیکن زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوپارہے۔سول سوسائٹی کی کاوشیں بھی قابل قدر ہیں۔ادھر ادھر روشنی کے چند دائرے موجود ہیں لیکن اندھیرے کا غلبہ واضح ہے۔ایک وضاحت یہ کی جاسکتی ہے کہ عمومی سطح پر اداروں کی کرپشن اور نااہلی نے تعلیمی نظام کو برباد کردیاہے۔لیکن زیادہ گمبھیر مسائل پالیسی کے ہیں۔حکمرانوں کی سوچ کے ہیں۔ اب یہ تو کوئی نہیں کرسکتاکہ حکمراں اشرافیہ کے اہم افراد کو گھیر کر انہیں ایک کلاس روم میں بٹھادے اور انہیں تعلیم کے بنیادی نکات کی تعلیم دے۔ مثال کے طور پر تعلیم کا ایک کلیدی مقصد طالب علم کو سوچنا سکھاناہے۔سوچنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔وہ تمام لوگ جو خالی بیٹھے خلا میں گھورتے رہتے ہیں سوچ نہیں رہے ہوتے۔سوچنے کیلئے علم اور حقائق سے آگاہی لازمی ہے۔ تعلیم کی پہیلی کو حل کرنا تو حکمرانوں کا کام ہے۔ اب یہ جو انتہاپسندی کا سیلاب ہماری بقا کیلئے خطرہ بنتا جارہاہے تو اس کا تعلق بھی تعلیم کے ذریعے معاشرے کو بدلنے سے ہے۔ایک مشکل یہ ہے کہ عدم برداشت صرف معاشرہ کی سطح پر ہی نہیں بڑھی ہے۔ریاست کی سطح پر بھی ہم نے اس کا مظاہرہ دیکھا ہے۔ورکشاپ کی فضا میں آزاد ذہنوں کی آبیاری کوئی کیسے کرے گا؟ مطلب یہ ہے کہ عملی مسائل اپنی جگہ جو نظریاتی الجھنیں ہمارے اعصاب پر سوار ہیں انہیں کون سلجھائے گا؟ تعلیم کی اور پورے ملک میں یکساں نظام کے اطلاق کی بات تو بعد میں ہوگی پہلے یہ تو فیصلہ کریں کہ قائداعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر ہم سے کیا کہتی ہے۔اقلیتوں کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کے تناظر میں یہ فیصلہ زیادہ ضروری ہے۔پھر بیٹھ کر یہ بھی سوچیں کہ سیاست میں مذہب کا کتنا دخل ہوسکتا ہے اور اب تک تجربے سے ہم نے کیا سیکھا ہے اور جہاں تک سیکھنے کی بات ہے تو مشال خاں کے قتل سے جو سوال پیدا ہوئے ہیں وہ بھی تو ہمارے راستے میں کھڑے ہیں۔اور آخر میں مجھے تعلیم کے حوالے سے اپنے ملک کی اس بدنصیبی کاذکر کرنا ہے جس کا نام ملالہ یوسف زئی ہے۔ ہم کیوں تعلیم کی اہمیت پرزور دیتے ہیں جب ساری دنیا کے لئے تعلیم اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کا سب سے درخشاں سمبل اپنے ہی ملک میں بڑی حدتک ایک ناپسندیدہ شخصیت ہے۔حکمرانوں کے امتحان کا ایک سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟

تازہ ترین