• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانامہ اسکینڈل پر جاری ہنگامہ کس کروٹ بیٹھے گا، اس بارے میں مختلف منظر نامے پیش کئے جا رہے ہیں۔ ایک اہم منظر نامہ جسے اتنی آسانی سے رد نہیں کیا جا سکتا، یہ ہے کہ نواز شریف بالآخر نا اہل ہو جائیں گے۔ انکے بعد پھر عمران خان کی باری آئے گی اور وہ بھی اسی طرح عدالتی کارروائی کے ذریعے نا اہل ہونگے۔ اس صورت میں "کچھ لوگ" کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ آصف زرداری اکیلے میدان میں رہ کر فائدہ اٹھائیں، سو انہیں دوڑ سے باہر کرنے کیلئے عرصے دراز سے کام میں لگی ہوئی "جے آئی ٹی" کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لے گی۔ اس منظر نامے کا اصل مدعا یہ ہے کہ کسی طور اگلے عام انتخابات نہ ہوں اور جمہوری تسلسل جیسا بھی لولا لنگڑا سا یہ ہے، منقطع ہو جائے۔ اور پھر بنے وہ تین سال والی ٹیکنیکل لوگوں کی حکومت جس کا ذکر ہم اس وقت سے سن رہے ہیں جب سے آصف زرداری کی حکومت کے گرائے جانے کی افواہیں پھیلائی جاتی تھیں، جو پہلے احتساب کرے اور پھر انتخابات ہوں اور جو پہلے ریاست بچائے اور پھر بچائے سیاست۔
کسی بھی جمہوریت پسند شہری کیلئے یہ ایک خوفناک منظر نامہ ہو گا۔ اس منظر نامے کے دو حصے ہیں: پہلا حصہ ہے کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی موجودہ لیڈر شپ کو فارغ کر دیا جائے اور دوسرا حصہ ہے کہ جمہوری تسلسل کو توڑ دیا جائے یعنی اگلے عام انتخابات نہ ہو سکیں۔
واضح اشارے گو موجود ہیں کہ سیاسی اشرافیہ کے مختلف دھڑوں کی اس چومکھی لڑائی میں مخصوص عناصر کی طرف سے سازش کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ ان تینوں سیاسی قائدین کی فاش غلطیوں کو غیر جمہوری قوتوں کی سازشوں کے پیچھے چھپنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جمہوریت کے ساتھ انہوں نے جو ہاتھ کیا اسکی ایک لمبی فہرست ہے۔ اول، نواز شریف ہوں، عمران خان ہوں یا آصف زرداری، تینوں کا کوئی معلوم ذریعہ آمدن نہیں لیکن تینوں بادشاہوں جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ حالانکہ جمہوریت جسکا یہ دم بھرتے ہیں، وہ عجز، انکساری اور عوامی طرزِزندگی کی متقاضی ہے۔ دوم، تینوں کے معلوم اثاثے بھی اربوں روپوں کے ہیں جنکا حساب دینے کے وہ خود کو روا دار نہیں سمجھتے اور اگر با امر مجبوری دیتے بھی ہیں تو ایسے کہ ظاہر کم کرتے ہیں اور چھپاتے زیادہ ہیں اور جو تھوڑی بہت وضاحت وہ کرتے ہیں وہ عام فہم انسان کیلئے قابلِ یقین نہیں۔ عام تاثر موجود ہے خصوصا نواز شریف اور آصف زرداری کے معاملے میں کہ معلوم اثاثے تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ سرے محل اور مے فیئر فلیٹس تو وہ ہیں جو "بدقسمتی" سے سامنے آ گئے، نامعلوم اثاثے جانے کتنے ہونگے۔ اسی طرح عمران خان پر پارٹی فنڈ کے معاملے میں مشکوک یا مخصوص لوگوں سے فنڈز لینے اور ملکی و غیر ملکی فنڈز کے خورد برد کا الزام لگ رہا ہے اور بجائے اسکے کہ وہ کھل کر عوامی اور قانونی عدالت میں ہر چیز کھول کر رکھ دیتے، کئی سالوں سے گریز سے کام لے رہے ہیں۔ یہ اشارے اسی وبا کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس نے ہماری قومی زندگی کو مجروح کیا ہوا ہے، یعنی کرپشن۔ جمہوریت اور جمہوری تحریک کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ حکمران طبقے کی کرپشن کا خاتمہ ہولیکن ہماری سیاسی اشرافیہ نے جمہوریت کو ہی کرپشن کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ سوم، تینوں سیاسی قائدین نے اپنے اپنے وقت پر غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ ساز باز کا راستہ اپنایا۔ عمران خان تو کسی میثاقِ جمہوریت کے مکلف ہی نہیں ہیں سو مسند اقتدار پر پہنچنے کیلئے وہی طریقہ اپنایا جو نواز شریف نے اسی کی دہائی میں اپنایا تھا اور آج تک بضد ہیں۔ لیکن نواز شریف اور آصف زرداری نے بھی اپنے تنگ نظر سیاسی فائدے یا غیر جمہوری قوتوں کی ایما پر ایک دوسرے پر غیر جمہوری وار کرنے کو اتنا برا نہیں جانا۔ سو آصف زرداری نے اپنی حکومت میں پنجاب میں گورنر راج لگایا تو نواز شریف کالا کوٹ پہنے میمو گیٹ لیکر سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ سو تینوں سیاسی قائدین اپنے وقتی مفادات کیلئے جمہوریت اور غیرجمہوریت کے درمیان پنڈولم کی طرح جھولتے رہتے ہیں۔ شاید ہی کسی کو کوئی غلط فہمی ہو کہ ان تینوں میں سے کوئی ایک بھی جمہوریت کے تصور سے کوئی سچی ہمدردی رکھتا ہے۔ چہارم، تینوں نے سیاسی جماعتوں کو اپنی ذاتی اور خاندانی لمیٹڈ کمپنیوں میں تبدیل کیا ہوا ہے۔ پارٹیوں میں شخصی آمریتیں ہیں جنکو وہ قریبی رشتہ داروں یا منظورِ نظر لوگوں پر مشتمل بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ذریعے مسلط کئے ہوئے ہیں۔ نواز شریف اپنے بھائی، بھتیجے،دیگر رشتہ داروں کے ذریعے پارٹی چلاتے ہیں۔ آصف زرداری کے رشتہ داروں کی فہرست تو لمبی نہیں لیکن جو ہیں پارٹی مکمل طور پر انکے قبضے میں ہے۔ اورعمران خان بھی پہلے اپنے دو رشتہ داروں کے ذریعے معاملات کنٹرول کرتے تھےاور اب وہ پارٹی کے اصل اختیارات، فنڈز اور میڈیا سیل پر مکمل کنٹرول کے ذریعے پارٹی میں شخصی آمریت قائم کئے ہوئے ہیں۔ پنجم، جو جمہوریت کیلئے ان ساری خامیوں سے زیادہ خطرناک ہے، نواز شریف اور آصف زرداری اپنے بعد پارٹی قیادت پارٹی کی سینئر لیڈرشپ کو سونپنے کی بجائے مریم نواز اور بلاول زرداری کو لانچ کر چکے ہیں۔ اگر انہیں اگلے الیکشن تک کا وقت مل گیا تو سیاسی موروثیت کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ عمران خان کے بچے اگر پورے پاکستانی ہوتے تو انکا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے یقین سے کہا جا سکتا تھا کہ وہ بھی انہیں سیاست میں لانچ کر رہے ہوتے۔
سو اوپر بیان کئے گئے منظر نامے کا پہلا حصہ اگر کامیابی سے انجام کو پہنچ بھی جاتا ہے تو جمہوریت کو کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ شاید جمہوریت پہلے سے مستحکم ہی ہو کہ جمہوریت نےان تینوں سیاسی قائدین سے اپنا انتقام ایک نہ ایک دن ویسے ہی لینا ہے۔ لیکن جمہوریت کو اصل خطرہ اس منظر نامے کے دوسرے حصے سے ہے یعنی عام انتخابات نہ ہونے دیئے جائیں۔ کاش سازش کا یہ دوسرا حصہ ناکام ہو جائے۔ کاش نواز شریف کے بعد پارٹی کی قیادت کا فیصلہ چوہدری نثار، خواجہ آصف، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق اور دیگر سینئر رہنما جمہوری انداز میں طے کر لیں۔ کاش آصف زرداری کے بعد پارٹی قیادت کا فیصلہ اعتزاز احسن، خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ، شیری رحمان جیسے سینئر رہنما جمہوری طریقے سے طے کر لیں، کاش تحریک انصاف۔۔۔۔ تحریک انصاف میں تو ادھر ادھر سے لوگ اکٹھے کئے گئے ہیں، وہاں کس سینئر قیادت کا نام لوں لیکن جو بھی ہیں وہ اپنی قیادت کا فیصلہ جمہوری طریقے سے کر لیں اور اسطرح تینوں بڑی سیاسی جماعتیں نئی قیادت کے ساتھ اگلے انتخابات میں حصہ لیں۔ کاش اس دفعہ شر میں سے خیر کا پہلو نکل آئے اور اس بحران میں سے جمہوریت پہلے سے مضبوط ہو کر نکلے۔

تازہ ترین