• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں نواز شریف خاندان سمیت سیاسی آزمائش سے دوچار ہیں۔کہا جارہا ہے کہ ان کی چوری پکڑی گئی ہے۔یہ امر اپنی جگہ اہم سہی، مگر کیااس کے بعد ایوان اقتدار چوروں کیلئےممنوعہ علاقہ قرار دیدیا جائیگا!اصل سوال یہ ہے کہ کیاچوری ہی اس کشاکش کی واحد وبنیادی وجہ ہے یا اس کے پسِ پشت اور عوامل کارفرما ہیں۔آئیےتاریخ سے رہنمائی لیتے ہیں۔
برطانوی حکومت نے1935کاجو ایکٹ متعارف کروایا تھا ،اُس کے تحت 1937میں ہندوستان میں پہلے عام انتخابات ہوئے۔اس قانون کی شق 10کے تحت اسمبلی توڑنے اور حکومت برخاست کرنے کا اختیار گورنر جنرل کو حاصل تھا، لیکن انگریزوں نے اس غیر جمہوری حق کا استعمال نہیں کیا،یہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے اولین ہرکارے گورنرجنرل غلام محمد ہی تھے جنہوں نے 1953میںایکٹ 1935کی شق10کے تحت خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو ختم کیا ۔اگرچہ قائد اعظم کے ایام ِ علالت کے دوران ہی اقتدار پر گرفت کے خواہاں عناصر کاسازشی کھیل شروع ہوچکا تھا، لیکن خواجہ ناظم الدین کی حکومت کا خاتمہ ایسے عناصر کی برہنہ طاقت کا بیانیہ بنا۔ قابل افسوس امر یہ ہےکہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والےبھارت میں ایک دن کیلئے بھی مارشل لا نہیں لگا، جبکہ پاکستان میں آج بھی جمہوریت پابہ جولاں ہے۔ 16 اکتوبر 1951ء کو جب لیاقت علی خان شہید ہوئے تو مسلم لیگ کے ارکان اس بات پر متفق تھے کہ سردار عبدالرب نشتر کو ملک کا وزیر اعظم بنایا جائے لیکن پاکستان کے پہلے سیکرٹری دفاع میجر جنرل اسکندر مرزا اور غلام محمد نے سازش کے ذریعے سردار عبدالرب نشتر کو مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکت ہی کرنے نہیں دی۔ان دونوں کی ایما پر خواجہ ناظم الدین وزیراعلیٰ بنے، لیکن جب ناظم الدین نےآئین پر توجہ دی،تو اسٹیبلشمنٹ حواس باختہ ہوکر، کہ ہمارے تراشے ہوئے بت میں جان کیوں آگئی ہے، جیسا کہ کہا گیا کہ ان کی حکومت کو قصہ ماضی بنا دیا ۔ گورنر جنرل ملک غلام محمد نے امریکہ میں  پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو بلاکر وزیراعظم نامزد کردیا۔ اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے گورنر جنرل کے اس اقدام کو سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کردیا ، سندھ چیف کورٹ نے مولوی تمیز الدین کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں اپیل کی جس کی طویل سماعت کے بعد فیڈرل کورٹ نے گورنر جنرل کے اقدامات کو درست قرار دیا۔چیف جسٹس منیر کانام اسی ’’تاریخ ساز فیصلے‘‘ کی بدولت آج تک ’’تابندہ‘‘ ہے۔ ستمبر 1954ءمیں گورنر جنرل غلام محمد ایبٹ آباد میںتھے، دارالحکومت کراچی میں ان کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے ایک قانونی مسودہ تیار کیا جس کا مقصد گورنر جنرل کے اسمبلی توڑ نے سے متعلق اختیارات کوختم کرنا تھا۔ حسب پروگرام دوسری صبح وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے اس قانونی مسودہ کو اسمبلی سے پاس بھی کروالیا۔ گورنر جنرل غلام محمد کو جب اطلاع ملی تو وہ آگ بگولہ ہو گئے اور صرف 33دن بعد ملک بھر میں ہنگامی حالات کا اعلان کرکے قانون سازی اسمبلی برخاست کردی اورمحمد علی بوگرہ کو امریکا بھیجتے ہوئے یہ باور کرایا کہ ’حدود سے باہر‘ ہونے کی قیمت کیا ہوتی ہے (ذرا محمدخان جونیجو کی برطرفی کا واقعہ ذہن میں تازہ کیجئے) ان کی جگہ چوہدری محمد علی وزیر اعظم بنے۔ ان کی اسمبلی نے 30 ستمبر 1955ء کو ون یونٹ کا فارمولا پاس کیا۔ چوہدری محمد علی نے 8 جنوری 1956ء کوآئین کا مسودہ اسمبلی میں پیش کیا جو29فروری کو پاس ہوا 2مارچ1956ءکو گورنر نے اس کی توثیق کردی 23مارچ کو 1956ءکا آئین نافذ العمل ہوگیا۔
اگست 1956ء میں اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے غلام محمد کو فارغ کردیا (غلام اسحٰق خان کا انجام مدنظر رہے) اسکندر مرزا گورنر جنرل سے صدر بن گئے۔جب مسلم لیگی لوٹے بن گئے تو اسمبلی میں اکثریت کھو نے کی وجہ سے 9 ستمبر کو چوہدری محمد علی مستعفی ہوگئے۔ ان کے بعد حسین شہید سہروری ،اسماعیل ابراہیم چندریگر اور پھر فیروز خان نون یکے بعد دیگراقتدار کی سنگھاسن سے لطف اُٹھاتے اور پھر تماشا بنتے دیکھے گئے۔ سیاسی جماعتوں کی جدوجہد کی وجہ سے عوامی سطح پر جب انتخابات کے مطالبات شدید ہوگئے تو حکومت نے مارچ 1958ء میں عام انتخابات کرانےکا اعلان کردیا ، لیکن پھر عام انتخابات کو نومبر1958ءتک ملتوی کردیا گیا۔17اکتوبر 1958ء کو میجر جنرل اسکندر مرزا نے ملک میں مارشل لانافذ کرکے 1956ءکا آئین منسوخ کردیا، حکومتیں اور اسمبلیاں ختم کردیں اورافواج پاکستان کی کمان خود سنبھالی ۔انہوں نے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔ 27اکتوبر 1958ء میں ایوب خان نے اسکندر مرزا سے استعفیٰ لے کر انہیں لندن بھیج دیا اور خود صدر بن گئے۔انہوں نے 1962ء کا صدارتی نظام متعارف کروایا۔25 مارچ 1969ءکو صدر ایوب خان نے اقتدارجنرل یحییٰ خان کے سپرد کردیا، جنہوں نے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا۔ 17دسمبر 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ نے قومی اسمبلی کی 300نشستوںمیں سے 160اور پیپلز پارٹی نے 81 نشستیں حاصل کیںلیکن اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو اقتدارمنتقل نہیں کیا گیا۔ ردعمل میں تحریک برپا ہوئی اور16دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہو گیا۔ آپ نے ملاحظہ کیا کہ کس طرح جمہوریت کی بیخ کنی کی جاتی رہی، اور اس کامنطقی نتیجہ ہم نے پاکستان ٹوٹنے کی صورت میں دیکھا۔
تاریخ کا نوحہ یہ ہےکہ ’نئے پاکستان‘ میں بھی مہم جو عناصر صرف اپنی طاقت منوانے کیلئے تمام وسائل و مشینری کو بروئے کار لاتے رہے اور ابن الوقت سیاستدان ان کے عزائم کی تکمیل کیلئے ہمہ وقت دستیاب رہے۔ توہم عرض کررہےتھے کہ 20دسمبر 1970ء کوذوالفقار علی بھٹو سول چیف مارشل لا اینڈ منسٹریٹر اور صدر بنے ،بعد ازاں وہ وزیراعظم بنے۔پیپلزپارٹی کی حکومت نے 7مارچ 1977کو عام انتخابات کرائے، لیکن دھاندلی کی وجہ سے اپوزیشن نے نتائج کو تسلیم نہیں کیا اورتحریک شروع کی کہ 5جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نےمارشل لا نافذ کرکے 1973ء کے آئین کو معطل کردیا۔ جنرل ضیا نے 9 2 فروری 1985ء کو غیر جماعتی بنیادوں پرانتخابات کروائے ۔یوں محمد خان جونیجووزیر اعظم منتخب ہوئے۔ اسی اسمبلی نے آرٹیکل 58 کی شق دو جیسی ترمیم سمیت دیگر ترامیم کیں۔لیکن جب جونیجو صاحب مخالف سمت جانے لگےتو 29مئی1988ء کو ضیاء الحق نے اسی آرٹیکل58 کی شق 2کے تحت قومی اسمبلی توڑ دی اور وزیر اعظم محمد خان جونیجوکی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ 1988ء کو صدرجنرل ضیاء الحق فضائی حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ نومبر 1988ء کے انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں ۔6جون 990کو صدر غلام اسحاق خان نے آئین کے آرٹیکل 58کی دفعہ 2بی کے تحت قومی اسمبلی توڑ کر بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیا۔24اکتوبر 1990ء کے انتخابات میں نواز شریف وزیراعظم بنے۔ جب نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان کے درمیان اختلافات نےشدت اختیار کر لی تو آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے18جولائی 1993ء کو دونوں کو چلتاکردیا۔ یوں ایک مرتبہ پھر سیاسی حکومت اپنی مدت پوری نہ کرسکی اور اکتوبر1993میں انتخابات منعقد ہوئے۔محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں لیکن5نومبر 1996ءکو صدر فاروق لغاری نے آئین کے آرٹیکل 58دفعہ بی2کے تحت اسمبلی توڑ کر محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کردی ۔ اکتوبر 1999ءکو جنرل مشرف نے نواز شریف حکومت کا خاتمہ کردیا۔
یہ یاد رہے کہ اس دوران حقیقی سیاسی جماعتیں ملک میںجمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کیلئے مسلسل جدوجہد کرتی رہیں،انہی ادوار میں لازوال انقلابی ادب تخلیق ہوا۔آج بھی جن اشعارپر عوام جھوم جھوم جاتے ہیں، یہ اسی دور ابتلا کی دین ہے۔آج ملک میں جمہوریت کا جو تھوڑا بہت دم خم ہے، یہ ماضی کے جمہوریت پر یقین رکھنے والے سیاستدانوں ہی کی مرہونِ منت ہے۔چونکہ مقابل عالمی سامراج اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ تھے اسی لئے قید وبند کی ناقابل بیان سختیاں بھی اُن کے حصہ میں آئیں۔آج پھر سیاستدانوں کو ایک امتحان درپیش ہے۔اُنہوں نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ آلہ کار بن کر جمہوریت کے پودے کو جڑسے اکھاڑنا چاہتے ہیں ، یا جمہوریت کے پودے کی آبیاری کی خاطر ایک اور میثاق جمہوریت .......

تازہ ترین