• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کیس کئی اعصاب شک مراحل سے گزرنے کے بعد اپے منطقی انجام کو پہنچ گیا ہے ۔ یہ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کے ان بڑے مقدمات میں سے ایک مقدمہ ہے ، جن کے فیصلے ’’ ٹرننگ پوائنٹ ‘‘ یعنی تاریخ کا ایک اہم موڑ بن گئے ۔ پاناما کیس کا فیصلہ بھی ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو گا ۔ فیصلہ محفوظ کیا گیا ہے ۔ توقع کی جا رہی ہے کہ رواں ہفتے یہ فیصلہ سنا دیا جائے گا اور یہیں سے پاکستان کی سیاست ایک نیا رخ اختیا رکر لے گی ۔ آج چوہدری نثار اہم پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ کانفرنس میں کچھ بھی کہیں وہ آج تک کے حکمرانوں میں سب سے کلین آدمی ہیں۔ان سے اختلاف کرنے والے بھی ان کی ایمانداری اور competency کا اعتراف کرتےہیں۔40 سال قبل ایک مقدمہ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی چلا تھا ۔ یہ مقدمہ بھی پاکستان کی تاریخ کا ٹرننگ پوائنٹ تھا ۔ اگر بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی تو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا دھارا کسی اور سمت بہہ رہا ہوتا اور آج یہ حالات نہ ہوتے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کے دو ر رس منفی نتائج مرتب ہوئے اور پاکستان آج تک اس کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکا ہے ۔ اس مقدمے کا فیصلہ کرنیوالے ججوں میں سے ایک دو جج صاحبان نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہیں اس مقدمے میں دباؤ کا سامنا تھا ۔ اس مقدمے میں جو فیصلہ ہوا ، اسے ’’ انصاف ‘‘ سے نہیں بلکہ ’’ عدالتی قتل ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ مقدمے کا فیصلہ کرنیوالے ججوں کے اعتراف کے بعد عدالتی قتل کی اصطلاح کا استعمال شروع ہوا ۔ ججوں کے اعتراف کے باوجود عظیم نقصان کا ازالہ نہیں ہو سکا کیونکہ بھٹو کو پھانسی دیدی گئی تھی اور وہ واپس نہیں آ سکتے تھے ۔ بھٹو کے بعد غیر سیاسی اور غیر جمہوری قوتوں نے پاکستان کی تاریخ کے دھارے کو ایک ایسے رخ پر ڈال دیا ، جس میں سیاسی عدم استحکام ، خونریزی ، انتہا پسندی اور تشدد، بدعنوان سیاست اور تباہی کے سوا کچھ نہیں تھا ۔ اسی طرح پاناما کیس کا فیصلہ بھی ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوگا، جسکے ذریعہ پاکستان کیلئے ایک نئی راہ متعین ہو گی ، جس پر چل کر پاکستان عالمی برادری میں اپنا بلند مقام حاصل کر سکتا ہے اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہماری داستان بھی نہیں ہو گی داستانوں میں ۔
آج دنیا بہت بدل گئی ہے ۔ میڈیا بشمول سوشل میڈیا نے آج کے انسانی سماج کو ماضی کے تمام زمانوں سے مختلف اور ممتاز بنا دیا ہے ۔ آج جس طرح کسی بھی معاملے کا بے شمار پہلوؤں سے جائزہ لیا جاتا ہے ، اس طرح پہلے کبھی نہیں تھا ۔ پروپیگنڈے کے قدیم اور روایتی حربے ناکام ہو چکے ہیں ۔ آج رائے عامہ پر ایک نقطہ نظر کو مسلط کرکے اپنی مرضی سے سیاست یا سماج کو نہیں چلایا جا سکتا ۔ پاناما کیس نئے عہد کا مقدمہ ہے ۔ عدلیہ نے ساری صورت حال کا ادراک کیا ہے اور باوقار انداز میں مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچایا ہے ۔ کہیں ایک فریق کے حق میں میڈیا میں مہم چلائی جا رہی تھی اور کہیں اس فریق کو مخالفانہ مہم کا سامنا تھا ۔ میڈیا میں کیس کی رپورٹنگ اور ماہرانہ تبصروں کی وجہ سے مقدمے کے ایک ایک نکتے کے کئی قانونی اور سیاسی پہلو سامنے آئے۔ مقدمے کی سماعت کرنیوالے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ میں شامل فاضل جج صاحبان انتہائی قابل اور اچھی شہرت کے حامل ہیں ۔ دو جج صاحبان جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جناب جسٹس گلزار احمد نے پہلے ہی وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ دیدیا ہے ۔ دیگر تین جج صاحبان نے بھی وزیر اعظم کو کلین چٹ تو نہیں دی بلکہ مزید انکوائری کیلئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا ۔ اگر جے آئی ٹی نہ بنتی تو شاید پاناما کیس کے بہت سے پہلو سامنے نہ آتے ۔ جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ نے بادی النظر میں اول الذکر دو جج صاحبان کے فیصلے کے حق میں خاطر خواہ مواد مہیا کیا ہے۔ تاریخ ساز پاناما کیس کو شروع کرانے اور اسے منطقی انجام تک پہنچانے میں اگرپاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے کردار کا تذکرہ نہ کیا جائے تو یہ انصاف نہیں ہو گا ۔ انہوں نے وزیر اعظم کیخلاف پاناما کیس چلانے کیلئے تحریک کی ابتداء اکیلے کی تھی ۔ شیخ رشید احمد کے سوا ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا ۔ پیپلز پارٹی کے اکابرین عمران خان پر تنقید کر رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کو نہ صرف تقسیم کیا ہے بلکہ اپوزیشن کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی یہ کہہ رہے تھے کہ انہیں سپریم کورٹ پر اعتماد نہیں ۔ پارلیمانی یا جوڈیشل کمیشن بنانے اور اس کمیشن کے اختیارات و فرائض ( ٹی او آرز ) کو حتمی شکل دینے میں خاصا وقت نکال دیا گیا اور عمران خان کو بھی اس میں الجھانے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے اپنی تحریک جاری رکھی اور پاکستان کو ایک اہم موڑ پر پہنچا دیا ۔ پیپلز پارٹی اور باقی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ بس چھوٹ گئی ہے ۔ وہ اب اس تحریک میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ عمران خان ان سب پر سبقت حاصل کر گئے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے پاس پاناما کیس کیخلاف کوئی دلیل نہیں ہے ۔ بار بار یہی کہا جا رہا ہے کہ جمہوریت ڈی ریل ہو رہی ہے اور ترقی کا راستہ رک جائیگا۔ جمہوری ممالک کی تاریخ احتساب اور سزاؤں سے بھری پڑی ہے ۔ ان سے جمہوریت کمزور نہیں بلکہ مستحکم ہوئی ہے ۔ کرپشن اور جرائم پر سزاؤں سے جمہوریت اور جمہوری ادارے مضبوط ہوتے ہیں ۔ تاریخ میں احتساب کا سب سے بڑا اور آزمایا ہوا نظام جمہوریت ہے ۔ جمہوری ممالک میں سربراہان مملکت و ریاست کے علاوہ وزرا اور اہم حکومتی عہدیداروں کے جیل جانے اور سزائیں کاٹنے کی ہزاروں مثالیں ہیں لیکن ہم حال ہی میں چند مثالوں کا تذکرہ کرینگے ۔ جنوبی کوریا کی سابق خاتون صدر پارک گیون ہائی اس وقت کرپشن کے ایک مقدمے میں جیل کاٹ رہی ہیں ۔ پاناما اسکینڈل سامتے آتے ہی آئس لینڈ کے وزیر اعظم سگمنڈر ڈیوڈ گون لاگسن نے اپریل 2015ءمیں ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ۔ اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کا مقدمہ چل رہا ہے اور ان کے اپنے وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کو سزا ہو جائیگی ۔ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم اولمرٹ نے 19ماہ تک جیل میں سزا کاٹی ہے ۔ فرانس کے سابق صدور نکولس سرکوزی اور جیکوٹس شیراک کو کرپشن کے مقدمات میں سزائیں ہو چکی ہیں ۔ ان ممالک میں نہ تو جمہوریت ڈی ریل ہوئی اور نہ ہی مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے یہ کہا کہ جمہوریت کو خطرہ ہے ۔ لوگوں کو اس بات پر یقین کرنا چاہئے کہ احتساب سے جمہوریت کمزور یا ختم نہیں ہو گی بلکہ مضبوط ہو گی ۔ احتساب جمہوری نظام کی طاقت ہے اور جمہوریت کا حسن ہے ۔ ابھی کچھ دن قبل فرانس کے سابق وزیر اعظم ایڈورڈ بیلا ڈور کے خلاف چارج شیٹ عائد کی گئی ہے ، جس میں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان کو آبدوزوں کی فروخت پر کک بیک حاصل کیا ۔
اس ملک میں بے شمار لوگ ایسے ہیں ، جنہوںنے کرپشن ، اقربا پروری اور میرٹ کی خلاف ورزی والے نظام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بے پناہ دولت جمع کی ہے آج وہ پاکستان کی قسمت کے فیصلے کر رہے ہیں ۔ صرف وزیر اعظم یا ان کے خاندان کا نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کا احتساب ہونا چاہئے ، جن کے نام پاناما پیپرز میں ہیں ، جو آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں اور جنہوں نے بیرونی ممالک میں اپنے اثاثوں اور کمپنیوں کا منی ٹریل نہیں دیا ہے ۔ ان لوگوں کا بھی احتساب ہونا چاہئے ، جو اپنے ذرائع آمدنی سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں اور اثاثے بنا رہے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف یا ان کے اہل خانہ کے احتساب کو سب لوگوں کے احتساب تک موخر کر دیا جائے ۔ یہ ابتدا ہے ۔ اب انتہا کی طرف آگے بڑھتے رہنا چاہئے ۔ پاناما کیس نے راستہ صاف کر دیا ہے ۔ اگر قافلے اس راستے پر چل پڑیں تو پھر واقعی یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ ان کا قیام کہاں ہو گا ۔
نہ دیکھیں دیر و حرم سوئے رہروان حیات
یہ قافلے نہ جانے کہاں قیام کریں

تازہ ترین