• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

17 جولائی2017 ءکو ایک خبر نے سنسنی پھیلا دی تھی کہ بھارت کی سرحد سکم کی ایک چوکی پر چین نے ایک میزائل داغا جس سے 158 بھارتی مارے گئے، یہ خبر غلط ثابت ہوئی مگر اس خبر نے چین اور بھارت کے درمیان سکم کے تنازع کو نمایاں کردیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ چین اور بھارت کے درمیان سکم تنازعہ ایک بڑے تصادم کا سبب بن سکتا ہے۔ بھارت یہاں احتیاط سے کام نہیں لے رہا ۔ بھارت اور چین کے درمیان تنازع ڈونگ لینگ زمینی پٹی پر ہے جسے 1890ءمیں برطانیہ اور چین کے ایک معاہدے کے تحت چین کا علاقہ مانا جاتا ہے مگر بھارت یہاں پر چین کو ایک سڑک تعمیر کرنے سے روک رہا ہے۔ جون 2017ءمیں بھارت کے فوجی سرحد عبور کرکے ڈونگ لینگ کی سرزمین میں داخل ہوگئے۔ جس پر چین نے بھارت کو سخت الفاظ میں انتباہ کیا مگر اس نے اپنی روش ترک نہ کی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ بھارت کا یہ کہنا ہے کہ اگر چین نے یہ سڑک تعمیر کرلی تو چین اس کو بھارت کے شمال مشرقی علاقوں سے علیحدہ کردے گا، جہاں پہلے ہی بھارت کے خلاف بغاوتوں کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے۔ 1890کے معاہدےکے مطابق چین کو اس پر خودمختاری حاصل ہے، وہ چین کا حصہ ہے۔ بھارت کی تمام سابقہ حکومتوں نے اِس معاہدے کو تسلیم کیا ہے لیکن نریندر مودی چین کا حصہ ماننے سے انکار کرکے تصادم کی راہ پر چل پڑے ہیں اور انہوں نے عالمی طاقتوں سے اس پر حمایت حاصل کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ ہمارے اندازے کے مطابق وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اس سلسلے میں حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ڈونگ لینگ کی پٹی بھوٹان کی سرحد سے ملتی ہے اور بھوٹان پر مکمل طور پر بھارت کا تسلط ہے۔ بھوٹان اِس قدر بھارت کے دبائو میں ہے کہ اُس نے دُنیا کے بیشتر ممالک سے تعلقات تک قائم نہیں کئے ہیں، یہاں تک کہ پانچ بڑے ممالک سے اس کے تعلقات نہیں ہیں، میں نے 2008میں بھوٹان کا دورہ کیا تھا، ہر جگہ مجھے بھارتی فوجی نظر آئے، اُن کے تربیتی مراکز اور اُن کے اسلحے کے انبار، پاکستان کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ بھارت ایٹمی اسلحے کا ذخیرہ بھوٹان میں چھپاسکتا ہے کیونکہ جب شاہین III کا کامیاب تجربہ ہوا تو پاکستان کا یہ دعویٰ تھا کہ اس نے جزائر انڈمان میں جہاں بھارت کا ایٹمی اسلحہ رکھا ہوا ہے، کو ہدف بنانے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے، کیونکہ وہ پاکستان کےمیزائلوں سے بہت دور سمجھا جاتا تھا مگر شاہین III کے کامیاب تجربے اور اُس کے نشانہ لگانے کی کامیاب کارکردگی نے بھارت کو کافی پریشان کردیا تھا اور اس نے دفاعی نظام کے حصول کی تگ و دو شروع کردی۔ دفاعی نظام کے تحت غیرملک کے میزائل اس کی فضائی حدود میں داخل نہیں ہوسکتے مگر حماس نے فلسطین میں اسرائیلی اسٹیل ڈروم دفاعی نظام کو 5 ہزار میزائل ایک ساتھ اسرائیلی حدود میں پھینک کر ناکام کردیا تھا۔ ڈونگ لینگ میں چنگ خاندان حکمراں تھا جبکہ سکم پر برطانیہ نے قبضہ کرلیا اور ڈونگ لینگ کی سرزمین چین کو دے دی گئی تھی۔ 1975 ءتک سکم ایک آزاد ملک تھا، بھارتی نے اس پر قبضہ کرلیا اور بھارتی وزیراعظم موراجی ڈیسائی نے اس ناجائز قبضہ پر معافی مانگی تھی مگر یہ بھی کہا تھا کہ اب اس کو آزاد نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت نے بھوٹان سے اس کی ملکیت کا دعویٰ کرا دیا، اگرچہ خود بھوٹان بھارت کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ 2013ءمیں بھوٹان نے چین سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی تو اس کو بجلی کی فراہمی میں رعایت ختم کرکے بھوٹان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ بھارت بھوٹان کی 75فیصد ایکسپورٹ کرتا ہے۔
نیپال کیخلاف بھی بھارت نے یہی طریقہ استعمال کیا، جب اس نے چین سے تعلقات بڑھائےتو اس کے پہاڑی علاقوں میں سپلائی کو روکنا شروع کردیا۔ چین نے بھارت کی کوششوں کو اس طریقہ سے ناکام بنا دیا کہ نیپال کو تیل، خوراک اور دوسری ضروریاتِ زندگی کا سامان ہنگامی بنیادوں پر پہنچایا۔ اب نیپال میں چین کی سرمایہ کاری بھارت سے کہیں زیادہ ہے۔ اس طرح چین کا گھیرائو مکمل نہ ہوسکا۔ یوں دیکھا جائے تو سکم پر قبضہ بھارت کی توسیع پسندی اور غاصبانہ قبضہ کا سلسلہ ہے۔ اس نے حیدرآباد دکن، جونا گڑھ،امانا ودر، کشمیر اور سکم کے علاوہ اب بھوٹان کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے جبکہ نیپال اس کے اثر سے نکل گیا ہے۔ نیپال اور چین بہت گہرے رشتوں میں جڑ گئے ہیں۔ نیپال ایک پٹی اور روڈ کا حصہ بنا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ کوہ ہمالیہ میں سرنگ کی تعمیر کرکے چین اور نیپال کے درمیان رسائی اور سامانِ ضرورت پہنچانے کے لئے چین ایک ٹرین سروس پر کام کررہا ہے۔ امریکہ کی حمایت کے حصول میں نریندر مودی کامیاب تو ہوگئے ہیں، اسلئے امریکہ سے 365ملین کی لاگت سے C-17 ملٹری ٹرانسپورٹ طیارے اور 2لین کی قیمت کے بحرہند میںجاسوسی کیلئے ڈرون خریدنے کا معاہدہ کر چکا ہے جبکہ اسلحے سے لیس ڈرون اسرائیل سے حاصل کررہا ہے۔ جس نے خطے میں سخت کشیدگی پیدا کردی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت چین اور پاکستان کے دو محاذوں پر جنگ کرسکتا ہے، اس کا جواب تو بھارتی فوج کے سربراہ نے مثبت میں دیا ہے مگر لگتا نہیں ہے کہ ایسا کرسکیں گے۔ چین کے اخبار گلوبل ٹائمز نے بھارت کو سخت الفاظ میں تنبیہ کی ہے کہ اگر اس نے اپنی روش نہ بدلی تو اس کو 1962ءسے بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مگر بھارت اِس دھمکی کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا اور چین اور پاکستان سے ٹکرانے میں امریکہ کو اپنا اتحادی بنانے پر تلا ہوا ہے۔ اگر ہم امریکہ کے چین اور پاکستان کے تعلقات کا جائزہ لیں تو امریکہ کیلئے کافی مشکل کام ہوگا کہ وہ پاکستان کیخلاف یکطرفہ یا مکمل طور پر بھارت کا ساتھ دے کیونکہ امریکہ کی مسلح افواج افغانستان میں اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں، دوسرے پاکستان کو مکمل طور پر روسی کیمپ میں جانے سے روکنے کیلئے کچھ گنجائش رکھے گا۔ امریکہ اگرچہ بھارت کو افغانستان میں استعمال کرنا چاہتا ہے جہاں بھارت کو بہت نقصان اٹھانا پڑے گا، اسی طرح بحرہند میں چین کیخلاف بھارت کو استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ وہاں بھی بھارت کا سرمایہ اور خون امریکہ کے مفادات میں بہے گا۔ تاہم سکم میں چین سے ٹکرائو کرا کر بھارت کی عالمی فوجی امداد کی راہ کھولے گا جیسا کہ 1962 میں ہوا تھا۔تاہم بھارت اس وقت جو آگ اور خون کا کھیل کھیل رہا ہے اس سے ساری دُنیا کے امن کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ امریکہ اور روس کو بھارت سے تعلقات کو انتہائی سنجیدگی اور گہرائی سے دیکھنا ہوگا۔

تازہ ترین