• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمانی کمیٹی نے بلآخر تین سال بعد انتخابی اصلاحات کا انتہائی اہم عمل مکمل کر لیا ہے۔ ملک میں انتخابات سے متعلق رائج آٹھ قوانین کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ انتخابی اصلاحات کے چیدہ چیدہ نکات کے تحت الیکشن کمیشن کو مکمل خود مختاری دی گئی ہے جو صدر مملکت یا حکومت کی پیشگی منظوری لئے بغیر الیکشن کے قواعد وضع کرنے کا مجاز ہو گا۔ عام انتخابات سے چھ ماہ قبل جامع ایکشن پلان مرتب کیا جائیگا۔ الیکشن کمیشن انتخابی عمل کے دوران شکایات کا ازالہ کر سکے گا جبکہ انتخابی نتائج کیلئے جدید نظام قائم کیا جائیگا۔ ہر مردم شماری کے بعد حلقہ بندیاں کی جائینگی۔ نادرا سے شناختی کارڈ لینے والے ہر شخص کا از خود اندراج ووٹر لسٹوں میں ہوگا۔ مخصوص فیس کے عوض ووٹرز کی تصاویر پر مبنی انتخابی فہرستوں کی کاپی تمام امیدواروں کودستیاب ہوگی۔ عام انتخابات کا پروگرام جاری ہونے سے ساٹھ دن قبل تمام ریٹرننگ افسران کی تعیناتی کی جائیگی،حساس پولنگ اسٹیشنوں کی مانیٹرنگ کیلئے سرویلینس کیمرے نصب ہونگے، ارکان پارلیمنٹ سالانہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ جمع کرائینگے، امیدوار الیکشن پٹیشن براہ راست الیکشن ٹریبونل میں جمع کرا سکے گا جبکہ انتخابی تنازع کا فیصلہ چارماہ کے اندر کیا جائے گا۔ نگراں حکومت پالیسی سازی کی بجائے صرف ہنگامی نوعیت کے فیصلے کرے گی۔سیاسی جماعتیں پانچ فیصد ٹکٹ خواتین امیدواروں کو دینے کی پابند ہوں گی جبکہ کسی حلقے میں خواتین کے ووٹوں کا ٹرن آوٹ دس فیصد سے کم ہونے کی صورت میں ایک سے زائد پولنگ اسٹیشن یا پورے حلقے کا الیکشن کالعدم قرار دیا جا سکے گا۔ ملک میں عام انتخابات کو منصفانہ، شفاف اور غیر جانب دار بنانے کیلئے چالیس سال بعد متعارف کرائی جانیو الی اصلاحات پرتمام سیاسی جماعتیں خراج تحسین کی مستحق ہیں لیکن ابھی اس تاریخی کام کو متفقہ قانون سازی کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا کٹھن مرحلہ باقی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اس مرحلے پربھی مطمئن نہیں ہے جبکہ حکومت کو بھی اسے قائل کرنے کی چنداں فکر نہیں ہے۔ یہ وہی جماعت ہے جس نے گزشتہ عام انتخابات میں منظم دھاندلی کے الزامات پر 126 دن پرمحیط طویل ترین دھرنا دیا تھا۔ تحریک انصاف کے احتجاج کے نتیجے میں ہی جولائی 2014 میں سینیٹر اسحق ڈار کی سربراہی میں انتخابی اصلاحات کیلئے چونتیس رکنی پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ آغاز میں جب یہ کمیٹی پارلیمنٹ کے اندر اجلاس منعقد کر رہی تھی تب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما پارلیمنٹ کے سامنے کنٹینرپر کھڑے ہو کر 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونیو الے عوامی نمائندگی کے ادارے کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے تھے۔ احتجاج کے خاتمے پر تحریک انصاف کنٹینر سے اتر کرانتخابی اصلاحات کے عمل میں شریک ہوئی۔ یوں وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد کی سربراہی میں قائم ذیلی کمیٹی کی طرف سے تیار کی گئی پہلی عبوری رپورٹ کی بنیاد پر چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کی اہلیت کو تبدیل کرنے اور سینیٹ کی طرز پر الیکشن کمیشن کے تسلسل کو قائم رکھنے کیلئے آئین میں 22 ویں ترمیم کی گئی۔ دوسری عبوری رپورٹ کیساتھ اب انتخابی عمل میں جامع اصلاحات کیلئے الیکشن بل 2017،الیکشن ر ولز 2017 ءاور آئین میں 27 ویں ترمیم کے بل تیار کئے گئے ہیں۔ ذیلی کمیٹی نے سینیٹ انتخابات کے طریقہ کار بشمول فاٹا سے سینیٹر کے انتخابات ،مخصوص نشستوں پرخواتین اور غیر مسلموں کے انتخاب، ارکان کی اہلیت اور نا اہلیت سے متعلق آرٹیکلز 62 اور 63 جبکہ نگراں حکومت کے قیام کے طریقہ کار کے ضمن میں چار اہم معاملات پر آئینی ترامیم لانے کا حتمی فیصلہ مرکزی پارلیمانی کمیٹی کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ الیکشن بل 2017 ء اور 27 ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ بل کو منظوری کیلئے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائیگا جبکہ الیکشن بل 2017 ء کی روشنی میں الیکشن کمیشن، الیکشن رولز 2017 ء تشکیل دے گا۔ مجوزہ انتخابی اصلاحات میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے آئندہ اجلاسوں میں مذکورہ انتخابی اصلاحات کے ضمن میں قانون سازی کی جائے گی لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مجموعی طور پر تین سال جبکہ انتخابی اصلاحات کی ذیلی کمیٹی کے ڈھائی سال اور 93اجلاسوں کے بعد بھی انتخابی اصلاحات کے حتمی مسودے پر تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ معاملے کے اہم ترین فریق پاکستان تحریک انصاف سمیت پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق نے حتمی مسودے پر دستخط تک نہیں کئے۔ پاکستان تحریک انصاف نے چار اہم معاملات پر اختلافات کے باعث انتخابی اصلاحات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور آخری اجلاس سے بائیکاٹ تک کیا لیکن تین سال کچھوے کی رفتار سے چلنے والی وفاقی حکومت اب بغیر اتفاق رائے حاصل کئے جست لگانے پر تلی ہوئی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر گزشتہ کئی عرصے سے دہائی دیتے رہے کہ آئندہ عام انتخابات کی تیاریوں کیلئے درکار قانون سازی جلد از جلد کی جائے ورنہ سنگین مسائل پیدا ہو جائینگے لیکن پاناما کے کھیل تماشے میں مصروف حکومت اور اپوزیشن کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اب چھتیس ماہ بعد انتخابی اصلاحات کامسودہ تیاربھی کیا گیا تو وہ متفقہ نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف جس نے مبینہ دھاندلی کے الزامات کے تحت تاریخی احتجاج سے پورے جمہوری نظام کی چولہیں تک ہلائے رکھیں کو آئندہ انتخابات کے انعقاد کے طریقہ کار پر بھی راضی نہیں کیا جا سکا تو یہ ضمانت کیسے دی جا سکتی ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات کے نتائج کو تسلیم کر لے گی؟ پاکستان تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں ووٹرز کی بائیومیٹرک تصدیق یقینی ہو، رائے شماری کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا جائے، بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے، الیکشن کمیشن کی از سر نو تشکیل کی جائےجبکہ نگراںحکومت کے قیام کا طریقہ کار بھی تبدیل کیا جائے۔ حکومت کی طرف سے تحریک انصاف کے چاروں مطالبات یکسر مسترد کر دئیے گئے ہیں حتی کہ ڈاکٹرعارف علوی کی سربراہی میں قائم ایک ذیلی کمیٹی کی سفارشات کو بھی رد کر دیا گیا۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی کی حتمی رپورٹ میں ان سفارشات کا ذکر تک نہیں کیا گیا اوراسی طرح جن سیاسی جماعتوں نے اپنے اختلافی نوٹ جمع کرائے ان کا بھی کوئی ذکر حتمی مسودے میں شامل نہیں کیا گیا۔ گزشتہ چار سال کی دھما چوکڑی کو مد نظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کا فرض تھا کہ وہ اپوزیشن بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کو انتخابی اصلاحات کے حتمی مسودے پر قائل کرتی اور دلائل کے ذریعے اسے باور کرایا جاتا کہ ہالینڈ اور آئرلینڈ سمیت یورپ اور مغرب کے متعدد ممالک الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے نظام کو ناقابل اعتماد قرار دے کرترک کر چکے ہیں۔امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں آج بھی بیلٹ پیپرز کا نظام ہی رائج ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت میں ای وی ایمز کے بارے میں جو شکایات سامنے آئی ہیں وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ بالکل ایسے ہی دیگر تین مطالبات پر بھی فیصلہ مسلط کرنے کی بجائے تحریک انصاف کے ارکان کو قائل کیا جاتا کہ اس سطح پر یہ قابل عمل نہیں ہیں۔ بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے مطالبے کی پاکستان پیپلزپارٹی بھی حامی ہے جبکہ الیکشن کمیشن کی محدود مالی خود مختاری پر اسے بھی تحفظات ہیں۔ ارکان کی اہلیت اور نا اہلیت سے متعلق آئینی شقوں 62 اور 63 میں ترامیم پر بھی اپوزیشن جماعتیں منقسم ہیں جبکہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی ف نے بھی اس پر اختلافی نوٹ جمع کرا ئے ہوئے ہیں جبکہ رائے شماری کے دوران خواتین کے ووٹ دس فیصد سے کم نکلنے کی صورت میں متعلقہ حلقے کا الیکشن کالعدم قرار دینے پر بھی ان دونوں جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ان حالات میں جب حکومت انتخابی اصلاحات پر قانون سازی کیلئے بل پارلیمنٹ میں پیش کریگی تو پاکستان تحریک انصاف سمیت اپوزیشن جماعتیں اپنے مطالبات تسلیم نہ کئے جانے پر اس کی مخالفت کریں گی،جوحکومت تین سال میں پارلیمانی کمیٹی میں اتفاق رائے پیدا نہیں کرسکی وہ قائمہ کمیٹی کی چنددن کی کارروائی میں کیسے اپوزیشن ارکان کو قائل کر سکے گی۔ حکومت عددی اکثریت کی بنیاد پر مذکورہ بل قومی اسمبلی سے منظور کرا بھی لیتی ہے تو ستائیسویں آئینی ترمیم کو سینیٹ سے پاس کرانا ممکن نہیں ہوگا جس کے لئے وہاں بھی دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ اہم ترین انتخابی اصلاحات پر قانون سازی سے قبل اپوزیشن جماعتوں بلخصوص پاکستان تحریک انصاف کو ہر ممکن مشاورت کے ذریعے قائل کرے ورنہ متنازعہ انتخابی اصلاحات کے تحت منعقدہ آئندہ عام انتخابات کے نتائج پربھی انگلیاں اٹھیں گی جو جمہوریت کیلئے زہر قاتل کے مترادف ہے۔

تازہ ترین