• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ انکشاف ہوا ہے کہ بعض کمپنیاں بچوں کے چپس اور نمکو بنانےکیلئے مردہ جانوروں کی ہڈیوں سے بنایا گیا تیل اور کیمیکلزاستعمال کرتی ہیں، بعض مقامات پربغیر فروٹ استعمال کئے ہر روز لاکھوں لیٹر جوسز تیار کئے جا تے ہیں، زائد المیعاد پَلپَ بلکہ یہ بڑھانے کیلئے کیمیکل استعمال کئےجاتے ہیں اور ٹیکسٹائل رنگوں سے انار، لیچی ، سیب، اورنج ، آم اور دیگر جوسز بنانے والے لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں ، خراب انڈوں اور ان کے سفوف کا کاروبار بھی عروج پر ہے، چھوٹی سے لیکر بعض بڑی بیکریاں تک گندے اور خراب انڈوں کے بسکٹ ، کیک اور دیگر مصنوعات لوگوں کو کھلا رہی ہیں، اس سے لوگ یرقان ، گیسٹرو اور ہیضے کے مرض میں مبتلا ہورہے ہیں ۔ منرل واٹر کے نام پر آلودہ پانی بیچنے والا مافیا اتنا سرگرم ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود یہ دھندہ اپنے عروج پر ہے ۔ پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہے جہاں دودھ کی پیداوار سے لاکھوں گنا زیادہ دودھ مارکیٹ میں دستیاب ہے ،کیا فریش اور کیا ڈبہ بند دودھ ہر کوئی یوریا ، ڈیٹرجنٹ اور کیمیکل استعمال کر کے لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے ۔ تخت لاہور کی ناک کے تلے چلنے والی ٹولنٹن مارکیٹ میں مردہ مرغیوں کا گوشت ، کتوں کی بھرمار ، گندے نالے کے تعفن کا گڑھ ہے ۔ جعلی کیچپ ، جعلی صابن ، جعلی مرچیں، جعلی چائے کی پتی یعنی انسانی استعمال کی ہر چیز جعلی بنانیوالے مافیاز کسی کی پکڑ میں نہیں—پلاسٹک کی بوتلیں جن کو خطرناک ترین قرار دیا گیا ہے ۔ اس کے استعمال میں خوفناک اضافہ ہورہا ہے ۔ امپیریل کالج لندن کے ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ 480ارب پلاسٹک کی بوتلوں کی تجارت جبکہ ری سائیکلنگ 240ارب کی ہوتی ہے ۔ ایشیائی ممالک میں 2021تک اس کے استعمال میں 20فیصد سے زائد اور اضافہ ہو جائے گا۔ پلاسٹک کی ان بوتلوں کی تیاری میں ایک کروڑ 70لاکھ بیرل پٹرول استعمال کیاجاتا ہے جس سے 25لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے۔ آپ کہہ رہے ہوںگے کہ میں اتنے بڑے بڑے انکشاف کیسے کر رہا ہوں یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ خوراک میں ملاوٹ اور جعلسازی تو برسوں سے اسی طرح جاری و ساری ہے ۔ آپ کوئی نئی بات تونہیں کررہے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مکروہ دھندہ برسوں سے جاری ہے مگر ہمیں اس وقت ہوش آرہا ہے جب سے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ’’ فوڈ لیکس‘‘ سامنے آرہی ہیں ۔بالکل اسی طرح جس طرح پاناما لیکس سامنے آئیں اور پاکستانیوں کو معلوم ہوا کہ کرپشن کا ناسور کس طرح وطن عزیز کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ اسی طرح فوڈ اتھارٹی کے ایک دو سال کی سرگرمی اور چھاپوں سے عوام کو معلوم ہوا کہ جب لاکھوں لیٹر مضر صحت اور کیمیکل سے بنا مصنوعی دودھ ضائع کیا گیا ، جب منرل واٹر کے نام پر مضر صحت آلودہ پانی کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے سامنے آئے ، جب جعلی مشروبات کی فیکٹریاں سیل کی گئیں ۔ جب چھاپے مار کر مردہ اور حرام جانوروں کا گوشت برآمد کیا گیا، جب لاکھوں لیٹر جعلی مشروبات کی بوتلیں ضائع کی گئیں اور ہزاروں کلو مردہ جانوروں کی ہڈیوں کے تیل سے بنے چپس اور نمکو برآمد ہوئے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جتنی مرضی ’’ فوڈ لیکس ‘‘ اور پاناما لیکس آجائیں ، یہ دھندہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہے گا ۔ جب تک ہم اس سے حاصل ہونیوالے سبق کو یاد کر کے اس پر عملدرآمد نہیں کرتے ، ویسے تو ہم بطور شہری بڑے خوش ہیں کہ حکمراںخاندان کے چار فلیٹس کی بات ہورہی تھی جے آئی ٹی کی تحقیق اور سپریم کورٹ کے پاس موجود ثبوتوں کے بعد وکلا کے اعتراف نے توکئی بڑے انکشافات اور وہ پہلو عیاں کردیئے ہیں جن کا عوام کو تصور بھی نہیں تھا ۔ بالکل اسی طرح جس طرح پنجاب فوڈ اتھارٹی کے چھاپوں نے عوام کو یہ سبق دیا ہے کہ یہاں پر ہر چیز جعلی اور ہر دوسرا شخص بدعنوان ہے، نہ کسی کی اخلاقیات ہے اور نہ ہی کوئی خوف خدا۔ان چوروں ، جعلسازوں اور لوگوں کی صحت سے کھیلنے والوں کا علاج سخت ترین اقدامات اور قوانین ہیں۔ گو اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک تو ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی نے اس کا دائرہ کار پورے پنجاب تک پھیلانے کا قدم اٹھایا اور گورنر نے اس کی منظوری دے دی ہے۔ دوسرا اہم قدم قانون سازی کے حوالے سے ہے، پہلے سے موجود قانون اتنا کمزور ہے کہ آپ کسی ملٹی نیشنل کمپنی کو زیادہ سے زیادہ دس لاکھ جرمانہ کر سکتے تھے یا پھر چھ ماہ قید تھی، اس قانون پر بھی کبھی صحیح معنوں میں عمل درآمد نہ ہوسکا۔ لیکن اب جو مسودہ قانون تیار کیا گیا اس میں زیادہ سے زیادہ جرمانہ ایک کروڑ اور 14سال قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ فوڈ اتھارٹی کو ملاوٹ شدہ فوڈ آئٹمز ، خام مال اور مشینری بحق سرکاری ضبط کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔امید تو یہی ہے کہ یہ وزیراعلیٰ اور پنجاب اسمبلی کی حتمی منظوری کے بعد بل نافذ ہوجائے گا ۔ اگر یہ بل نافذ ہو جاتا ہے تو ملاوٹ شدہ خوراک کی تیاری اور فروخت پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے ۔ لیکن اگر ہم نے اس قانون کی موجودگی میں بھی پہلے کی طرح اہلکاروں کے ساتھ مک مکا اور جعل سازوں سے مل کر دھندہ جاری رکھا تو پھر کسی سبق کو یاد رکھنے کا فائدہ نہیں۔یہی حال پاناما سبق کا ہے ، پاناما کیس سے عوام نے تو کم از کم یہ سبق لیا ہے کہ اس کا فیصلہ کچھ بھی ہو ، وزیراعظم کے صادق اور امین ہونے پرمہر بھی ثبت کر دی جائے لیکن اب جو احتساب کی ہوا چل نکلی ہے یہ چلتی رہے گی اور کوئی بھی سیاسی لیڈر ہو ، جج یا فوج کا جنرل ہو ، بیوروکریٹ ، سرکاری ملازم ،استاد ہو یا پھر بینکر ، صنعت کار ، وڈیرہ ، یا زمیندار اس کا احتساب ہو کر رہے گاکیونکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے عیبوں کی پردہ پوشی کرتا ہے، اُسے غرور اور تکبر پسند نہیں، عوام نے یہ سبق یاد کر لیا ہے کہ اگر احتساب نہیں ہوگا تو ملکی سلامتی کو خطر ہ اور آئندہ آنیوالی نسلوں کی بربادی ہوگی ۔ اسلئے کرپشن کرنیوالا ، لوگوںکی صحتوں اور جانوں سے کھیلنے والے تمام مافیاز اور وطن عزیز کے خلاف سازشیں کرنے اور لوٹنے والوں کیلئے بھی یہ سبق نوشتہ دیوار ہے !
اعجاز رسول بھٹہ کی وفات:
جنگ گروپ سے عرصہ چالیس سال سے وابستہ ہمارے سینئر ترین نامہ نگار مظفر گڑھ اعجاز رسول بھٹہ گذشتہ ہفتے انتقال کر گئے ۔ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی اور انکی مغفرت کیلئے دعا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں بلند درجہ عطاء فرمائے۔ (آمین )

تازہ ترین