• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے تنگ احتجاج کرتے عوام کو بجلی تو نہ مل سکی مگر وزیر اعظم کی صورت میں راجہ پرویز اشرف مل گئے۔ صدر آصف علی زرداری نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا جانتے ہیں۔ سڑکوں پر سراپا احتجاج عوام کو پیغام مل گیا۔۔۔ اور احتجاج کرو۔ ہمارا یقین ایک بار پھر پختہ ہو گیا ۔۔۔۔ یقیناً جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔ ووٹ دے کر پیپلز پارٹی کو عوام نے پانچ سال کے لیے حق حکمرانی دیا۔ اب حکمران سیاہ کریں یا سفید ، لوٹ کھسوٹ کریں یا کرپشن، قومی اداروں کا ستیاناس کر دیں یا اپنے چہیتوں اور جیل کے ساتھیوں کو اعلٰی سرکاری عہدوں سے نوازیں کسی کو سوال کرنے کا، احتجاج کرنے کایا احتساب کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ نے آصف علی زرداری کو صدر منتخب کیا۔ تو پھر اب احتجاج کیسا، احتساب کیسا۔ احتساب کرنا ہے تو آئندہ الیکشن میں کر لینا۔ لوٹ کھسوٹ، کرپشن تو سیاستدانوں اور حکمرانوں کا حق ہے۔ریاستی ادارے تو حکمرانوں کی ذاتی جاگیر ہیں۔ اس لیے وہ جسے چاہیں کسی بھی عہدے پر تعینات کر دیں۔معیشت تباہ ہوتی ہے تو ہو، قومی اداروں کا جنازہ نکلتا ہے تو نکلے،اندرونی و بیرونی قرضے چاہے کتنے ہی کیوں نہ بڑھ جائیں، مہنگائی بے شک آسمان کو کیوں نہ چھو لے، لوگ چاہے بھوک سے خودکشی کریں یاسرعام خودسوزی کر کے اپنی جان لیتے رہیں، نوجوان چاہے بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آ کر جرائم پیشہ ہی کیوں نہ بنتے جائیں، سب پانچ سال صبر کریں۔ احتساب کے لیے بنائے گئے اداروں بشمول نیب اور ایف آئی اے کو کوئی حق حاصل نہیں کہ حکومت میں شامل کسی لٹیرے کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھیں۔ ویسے بھی ایڈمرل فصیح بخاری جیسے ”ایمانداروں“ کی ایمانداری محض ایک پلاٹ کی مار ہے۔ عدلیہ اگر کسی حکمران پر ہاتھ ڈالے گی تو اُسے جمہوریت کے خلاف سازش سمجھا جائے گا۔۔ اگر کرپشن ، بدعنوانی یاعدلیہ کی حکم عدولی پر کسی وزیر، مشیریاممبر اسمبلی کو عدالت سزا دے تو ایسے”خوش قسمت“ کو ہیرو بنایا جائے گا۔ خوب نوازا جائے گا۔ دو سال قبل راجہ پرویز اشرف کو کابینہ سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ مگر جیسے ہی عدالت عظمٰی نے رینٹل پاور پلانٹس کرپشن کیس میں راجہ پرویز اشرف سمیت تمام ذمہ داروں کو گرفتار کر کے تفتیش کرنے کا کہا، راجہ صاحب کو ایک بار پھر وزیر بنا دیا گیا۔ عدالت عظمٰی کی طرف سے جب یوسف رضا گیلانی جیسے نااہل اورنالائق شخص کو وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کیا گیا تو جواب میں صدر زرداری صاحب نے راجہ صاحب کو وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر پیش کر کے نہلے پہ دہلے کا کام کیا۔”خودمختار“ پالیمنٹ کے ”خود مختار“اراکین نے واضح اکثریت کے ساتھ راجہ رینٹل کو پاکستان کا راجہ منتخب کر لیا۔ ایک روز قبل تک ایم کیو ایم اس اصول پر ڈٹی رہی کہ کسی صورت بھی راجے کو ووٹ نہیں ڈالنا مگر رات ہی رات میں نجانے جمہوریت کے نام پر کیا سودے بازی ہوئی کہ جمعہ کو روز ایم کیو ایم کے لیے سب ٹھیک تھا۔ ”با اصول“ اور کرپشن کے خلاف ”جہاد“ کرنے والے فیصل صالح حیات تو پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیس میں گواہ تھے مگر جمہوریت کی ”خوبصورتی“ دیکھیں کہ کل تک راجے کی کرپشن کے خلاف ڈھنڈورا پیٹنے والے مخدوم نے بھی وزیراعظم کے لیے راجے کے حق میں ووٹ دیا۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم کی مہربانی سے سیاسی جماعتوں میں ڈکٹیٹرشپ کایہ حال ہے کہ پارٹی لیڈر جو فیصلہ کر لے کوئی چوں چرا نہیں کر سکتا۔ ضمیر کی آواز کا گلا گھونٹ دیا گیا۔بھٹو اور بے نظیر کی پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والا کوئی ایک رہنما بھی انتہائی اعتراض کے باوجود منہ نہ کھول سکا۔پارٹی مفاد اور پارٹی ڈسپلن ملکی مفاد اور عوامی بہبود پر ترجیح لے گئے۔ عوام کو کچھ ملے نہ ملے، خواص کے مزے ہی مزے ہیں۔ ملک ریاض کا ایک اور خادم وزیر اعظم بن گیا۔ یہ شاید بہت سوں کو نہیں معلوم مگرراجہ پرویز اشرف کو رینٹل پاور پلانٹ کی کرپشن سے ”بے قصور“ ثابت کرنے کے لیے”ایماندار“ فصیح بخاری کی دوستانہ تفتیش کا بہت بڑا کمال ہے۔ بخاری ملک ریاض کے ملازموں جیسے ہیں۔ اُن کو ملک صاحب کی ہی خواہش پر اس بڑھاپے میں نیب کا چئرمین بنایا گیااور اب تک خوب ”ایمانداری“ کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ حکومت اور حکمرانوں سے متعلق ہر کرپشن کیس، چاہے کتنے ہی ثبوت کیوں نہ موجود ہوں، پر مٹی ڈالی گئی یا ڈالی جا رہی ہے۔ اس بہتریں کارگردگی کی وجہ سے سب کے سب لٹیرے نیب کے دودھ سے دھل کر تروتازہ ہو کر ایک بار پھر لوٹ مار کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ نیب کی اسی ”قومی خدمت“ پر حکومت نے ملک ریاض۔ارسلان افتخار کیس بھی فصیح بخاری کے حوالے کر دیا ہے تا کہ وہ کھائے ہوئے نمک کا پوری ایمانداری سے حق ادا کر سکے۔اس صورتحال میں عوام پریشان ہو سکتے ہیں، لوگوں کو یہ سب بُرا لگتا ہو گا، سیاست اور سیاست دانوں سے گھن آتی ہو گی مگر یہی جمہوریت ہے۔ ہر طرف بکھرا ہوا گند دراصل جمہوریت کا”حسن“ ہے۔ عوام کو بے صبرا ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ سبق پڑھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت ایک ارتقائی عمل ہے۔ ہمیں یہ بات لوگوں کو باور کرانی ہے کہ جمہوریت کا ارتقا عشروں کا نہیں بلکہ صدیوں کی بات ہوتی ہے۔ کرپشن سے باز رہنے کے لیے ہمیں اپنے سیاستدانوں کو صدیوں کا وقت دینا ہو گا۔ بہتر طرز حکمرانی کے لیے میڈیا اور لوگ کیوں اتنے پریشان ہیں ابھی تو صدیوں کا سفر ہمیں طے کرنا باقی ہے تاکہ جمہوریت مستحکم ہو سکے اور ہمارے سیاستدان اور حکمران یہ سمجھ سکیں کہ اُن کو کرپشن نہیں کرنا، اُن کو خراب حکمرانی کی بجائے عوامی مفاد اور ملک کی ترقی اور کامرانی کے لیے کام کرنا ہے۔ جب تک سیاستدان نہیں سیکھتے اُن کو کھلی چھٹی دیے رکھیں، لوٹ مار کرنے دیں، ریاستی اداروں کا بیڑا غرق ہونے دیں، اقرباپروری اور رشوت خوری کو خوب پنپنے دیں چاہے ملک ہی کیوں نہ ختم ہو جائے، چاہے عوام بھوک سے مر ہی کیوں نہ جائیں، چاہے بجلی پانی آٹا ناپید کیوں نہ ہو جائے۔آپ کو حق حاصل ہے کہ جمہوریت کے اس” حسن“ کا لطف اُٹھائیں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، ایسی جمہوریت اور جمہوریت کے نام پر عوام سے کیے جانیوالے اس سنگین فراڈ پرتُف ہے۔
تازہ ترین