• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کےخلاف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی این اے کی تحریک زوروں پر تھی، ’’طاقتوروں‘‘ کی اشیرباد بھی حاصل تھی، ایک روز جناب بھٹو کے ایک قریبی ساتھی نے پوچھا کہ سر! کیا حالات چل رہےہیں، کیا بنےگا؟ تو وزیراعظم بھٹو نے ایک لمحے کے لئے کھڑکی کے باہر دیکھا اور برجستہ بولے،
"Everything is in the melting pot"
گویا غیریقینی صورت حال اس قدر غیرواضح تھی کہ ایک منتخب اور طاقتور وزیراعظم کو اندازہ نہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے، بعین ویسے ہی حالات آج بھی ہیں، گزشتہ برس اپریل میں غیرملکی پاناما پیپرز کے ہیجان انگیز انکشافات کے بعد ملکی سیاسی افق پر ابھرنے والے حالات واقعات نے بدستور پراسراریت پیدا کر رکھی ہے، معاملہ عدالت میں جانے، پانچ رکنی بنچ میں سےدو ججز کے واضح فیصلے کےبعد تین ججوں کی بنائی گئی جے آئی ٹی اور اس کی 60روزہ کارروائی پر سپریم کورٹ میں فیصلہ محفوظ ہے، فیصلہ کیا آئےگا؟ کیا وزیراعظم کےخلاف آئے گا یا حق میں؟ وزیراعظم خود چلے جائیں گے یا نکال باہر کئے جائیں گے؟ مزید کیسز بنیں گے اور احتساب کورٹس میں چلیں گے یا وزیراعظم صاف بچ نکلیں گے، کوئی اندازہ تو لگا سکتا ہے حتمی بات کوئی نہیں کرسکتا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کی توقع اسی ہفتے میں کی جارہی ہے کیا اس کے بعد سیاست کا نقشہ تبدیل ہونے جارہا ہے؟ صحافتی، قانونی وسیاسی نجومی اپنے اپنے ’’ستاروں‘‘ کی مدد سے متوقع سیاسی چالوں و نتائج کی پیش گوئیاں کرنے میں غلطان ہیں۔
بعض قانونی و آئینی ماہرین کی رائے میں کیس کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تین قسم کے فیصلوں کی توقع کی جاسکتی ہے، ایک تو وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا جائے اور وہ خاندان سمیت مزید مقدمات کا سامنا کریں، دوسرا نااہل نہ ہوں اور نیب کی مزید تحقیقات بھگتیں جبکہ تیسرا، تین میں سے دو ججز کی جانب سے 62/63لاگو کرنے کے لئے ناکافی شواہد اور عدم وجوہات کی بنا پر انہیں مکمل بے قصور قرار دے دیا جائے، تیسرے فیصلے کے چانسز اس لئے مخدوش ہیں کہ یو اے ای کی آف شور زیڈ ٹی ای کمپنی کا بطور چیئرمین (مارکیٹنگ منیجر) اقامہ نکل آنا اور تحریری تسلیم کیا جانا بطور وزیراعظم ’’کنفلکٹ آف انٹرسٹ‘‘ کی بھیانک مثال ہے کیونکہ بیرون ملک تو کجا وہ اندرون ملک بھی کوئی دوسری نوکری یا اپنے بزنس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم کا پاناما سے شروع ہونے والا سفر اقامہ پرختم ہونے کو ہے، عدالت کا یہ کہنا بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ منی ٹریل دے دیں معاملہ ختم ہوجائے گا تاہم برطانیہ رقم منتقلی اور مے فیئر فلیٹس کی خریداری کی منی ٹریل ابھی تک نہیں دی گئی، خیر کہنے والے جو بھی کہیں بہرطور فیصلہ تو اب عدالت نے ہی کرناہے.....!
سیاسی ناقدین کی نظر میں اگر فیصلہ حق میں نہیں آتا تو حالات کی نازکی دیکھتے ہوئے وزیراعظم کے لئے سب سے بڑا اور فوری چیلنج پارٹی کو متحد اور مضبوط رکھنا ہوگا تاکہ بطور قائد ان کی گرفت کمزور نہ ہو، معاملات کو آئندہ انتخابات تک کامیابی سے کنٹرول کرکے چلانے کے لئے وزیراعظم کو چوہدری نثار سمیت مخلص اور دیرینہ ساتھیوں کی جہاں سخت ضرورت ہوگی وہیں کسی سینئر اور بااعتماد ساتھی کو نیا وزیراعظم مقرر کرنے کا کڑوا گھونٹ بھرنا ہوگا۔ نوازشریف صاحب کے ماضی کے فیصلوں کو مدنظر رکھتےہوئے یہ بھی کہا جا رہا ہے وہ اپنے ہی خاندان میں سے کسی شخص کو نامزد کرکے خود کو مضبوط اور پارٹی کو کمزور کرنے کا بھی فیصلہ کرسکتے ہیں، یہ بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم فیصلہ آنے سےقبل پرعزم ہو کر پہلے ہی نیا وزیراعظم مقرر کرتے ہوئے کنگ میکر بن جائیں، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسمبلیاں برخاست کرکے نیا مینڈیٹ لینے کا فیصلہ کرلیا جائے لیکن بقول ایک سینئر لیگی رہنما مینڈیٹ ابھی موجود ہے لہٰذا اگلے مینڈیٹ کی جلدی نہیں، الیکشن وقت پر ہوں گے۔ دوسری طرف کپتان کے سر پر اثاثے چھپانے، ذرائع آمدن نہ بتانے اور منی ٹریل نہ دینے کے کیس میں نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے، پرانے سیاسی کھلاڑی قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کہہ چکےہیں کہ نوازشریف نااہل ہوئے تو عمران خان بھی ہرصورت نااہل ہوں گے، کچھ بھی ہو نئے سیاسی منظرنامہ کا پردہ چاک ہونے کو ہے؟ جیسے جیسے سیاسی صورت حال گمبھیر ہو رہی ہے عوام بھی کسی ون ڈے میچ کی طرح ایک ایک بال اور ایک ایک شارٹ کا نظارہ کررہے ہیں، کوئی ایک سین مس ہو بھی جائے تو سخت متجسس ہیں کہ کیا ہوا؟ کیا ہورہا ہے؟ اور کیا ہوگا؟
عوام کی پریشانی، حیرانی کو چھو رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے مضبوط ہاتھوں اور بانہوں میں پیدائش سے جوانی اور اقتدار کی بلندیوں کو چھونے والے اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف میں اچانک اتنے سخت کیسے ہوگئے کہ اپنی حقیقی سیاسی حریف پیپلزپارٹی سے دو نہیں چار ہاتھ آگے نکل گئے ہیں، حالانکہ پیپلزپارٹی تو کسی حد تک خود بھی ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے قریب جاچکی ہے؟ بقول ایک سابق ن لیگی رہ نما، نواز شریف سمجھتے ہیں کہ منتخب وزیراعظم کو اس کے آزادانہ فیصلوں کی کوشش پر بے توقیر کیا جارہا ہے؟، کچھ لوگ ان کا سی پیک کا کریڈٹ چھیننا چاہتے ہیں؟ ان کی بھارت اور افغانستان سمیت علاقائی دوستی کے ہاتھ کو روکنا چاہتے ہیں؟ معاشی اصلاحات میں روس اور وسط ایشیائی ریاستوں کے کئی ممالک کے ساتھ ان کے براہ راست رابطوں کو توڑنا چاہتے ہیں؟ اور نہ جانے کیا کیا کچھ؟ بقول نواز شریف یہ سرکس بہت پہلے سے چل رہا ہے اب کی بار اس پر بورڈ ’’پاناما‘‘ کا لگا ہوا ہے۔ وہ سمجھتےہیں کہ انہیں ڈکٹیٹر مشرف کےخلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنے کی سزا دی جارہی ہے؟ انہیں مودی کی حلف برداری اور اپنے گھر بلانے پر عتاب کا نشانہ بنایا جارہا ہے، انہیں فارن پالیسی پر ہاتھ رکھنے اور پاک چین اقتصادی راہداری کا کنٹرول حوالے نہ کرنے کا مزہ چکھایا جارہا ہے؟ بقول ان کے وہ ہر قسم کی سازش کا ’’مقابلہ‘‘ کرنے کے لئے تیار ہیں وہ ہردو صورت میں یہی بیانیہ لے کر عوام میں جانے کا بھی عزم رکھتے ہیں، یہ بات بھی قابل غور ہے کہ نوازشریف جے آئی ٹی پر مسلسل برس کر ایک تیر سے دو شکار کررہے ہیں ایک جے آئی ٹی بنانے والوں پر اور دوسرا جے آئی ٹی میں ’’بیٹھنے‘‘ والوں پر، اب ان کے یہ الزامات بھرے دعوے کتنی حقیقت رکھتے ہیں اور عوام میں کتنی پذیرائی حاصل کرتے ہیں یہ وقت ہی بتائےگا؟دوسری جانب عمران خان نوازشریف اور ان کےخاندان کی نااہلی پر اپنی نااہلی کو ایک چھوٹی قربانی قرار دے رہے ہیں وہ اپنے ’’قول فعل‘‘ میں کتنے سچے ثابت ہوتے ہیں یہ بھی بعد ازقیاس ہے تاہم وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نوازشریف اور ان کے کیس میں زمین آسمان کا فرق ہے، نوازشریف کے خلاف بیرون ملک پیسے منتقلی یعنی منی لانڈرنگ کا الزام ہے جبکہ ان پر بیرون ملک سے پیسے پاکستان منتقل کرنے کا الزام ہے، لیکن بقول خواجہ آصف، نیازی صاحب کو بتانے اور ماننے کے ساتھ اپنے اثاثوں کی منی ٹریل ہرصورت دینی ہوگی کیونکہ یہ خیرات کی رقم ہے جو یہودیوں، عیسائیوں اور ہندوئوں سمیت لامذہب نے ان کو دی ہے جو غیراسلامی فعل بھی ہے؟ تیسری طرف پیپلزپارٹی سارے شور میں ’’بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ کےمصداق کالے کوٹ پہن کر سرخرو ہونے کی کوششوں میں بے تاب نظر آتی ہے، حد تو لطیف کھوسہ کے تازہ لطیفے نے کردی کہ پیپلزپارٹی نے پاناما کیس میں اہم کردار ادا کیا ہے، لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی سمیت ق لیگ اور دیگر جماعتیں موجودہ آئینی کم سیاسی بحران میں اپنی ’’سیاسی دھمال‘‘ کا شور ڈال کر عوام کی توجہ حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں حالانکہ نوشتہ دیوار ان کی آنکھوں سے اوجھل نہیں۔
قارئین کرام گزشتہ کالم میں چند سازشی تھیوریوں کا ذکر کیا تھا اب اس میں ایک اور اضافہ یہ ہے کہ ملک میں تینوں جماعتوں کے قائدین کو بددیانت اور کرپٹ قرار دے کر نااہل کردیا جائے اور ’’گناہوں سےپاک، دیانتدار اور شفاف قیادت‘‘ کو سامنے لایا جائے؟ کوئی بتائے کہ چور کا ساتھی بھی چور نہیں ہوتا تو کیا ہوتا ہے؟ بحران میں گھرے ملک کی باگ ڈور سیاسی نونہالوں کو دے کر کس تبدیلی یا حشر اٹھانے کی توقع کی جارہی ہے؟ کیا جمہوری نظام اکھاڑ کر کسی نئے نظام کی تیاری کی جارہی ہے؟ حقیقت عیاں ہے کہ غیرجمہوری اور غیرآئینی اقدامات کی فصل آج بھی ہم کاٹ رہے ہیں، جیسا کہ میں نے آغاز میں کہا کہ بدلتی صورت حال میں ہرچیز پگھلتی جارہی ہے معلوم نہیں کیا ہوگا؟ عدالت کیا فیصلہ سنائےگی؟ تاہم عوام سمیت سب کو ایک توقع ضرور ہےکہ اب کی بار احتساب، انصاف کےساتھ ہونا چاہئے اور سب کا ہونا چاہئے کیونکہ بےخوف، بے رحم اور بلاامتیاز ’’انصافٔ‘‘ نہ ہو تو قومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔

تازہ ترین