• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جہانگیر ترین، اسد عمر، علیم خان، بابر اعوان، فواد چوہدری، فردوس عاشق، گوندلز۔۔۔‘‘ ایک لامتناہی سلسلہ عمران خان کی سیاست چھلنی کر چکا۔ ’’چھاج بولے سو بولے، چھلنی بہتر سوراخوں کی موجودگی میں کیوں بولے؟‘‘ عمران خان کا شریف فیملی کی مبینہ کرپشن پر ڈھنڈورا پیٹنا، عدالتی احاطوں اور میڈیا کو نقار خانہ بنانا،’’الٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘‘۔ ایک طرف پچھلے تین سال سے جاری اکبر بابر کا الیکشن کمیشن میں پارٹی فنڈز متعلق خورد برد کیس بمع منی لانڈرنگ کیس سماں باندھ رہا ہے تو دوسری طرف حنیف عباسی کی پٹیشن سپریم کورٹ میں شرف قبولیت حاصل کر چکی ہے۔ شک نہیں کہ عمران خان نے شاید شعوری بے ایمانی کی ہو، اس بارےمیں سوچا بھی نہیں جا سکتا مگر یہ حقیقت بھی لف کہ عمر بھر کئی مشکوک شہرت اور سرمایہ پر قابض افراد مصاحبین اور معتمدین رہے۔ چنانچہ ہونی نے ہونا تھا، آج پارٹی عارف علوی، فردوس نقوی، حامد خان، جسٹس وجیہہ الدین، جاوید ہاشمی، محمود الرشید وغیرہ جیسے لوگوں سے چھن کر، گندی تلچھٹ کے قبضہ استبداد میں بحفاظت منتقل ہو چکی ہے۔ ذاتی طور پرافسوس رہے گا ،اگر پیسے کی ٹریل کے تعین میں دو نمبری، منی لانڈرنگ یا عدم ادائیگی ٹیکس کا تاثر ملا۔ عمران خان 2003میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا فائدہ اٹھا کر بے داغ ماضی کو پہلے ہی داغ دار کر چکے ہیں۔ اسکیم تھی کیا؟ کالے دھن کو سفید کرنے کا تریاقی نسخہ۔ پرانے حساب کو بمطابق کتاب رکھنا یقیناً ممکن نہیں، چنانچہ امکان موجود کہ کئی معاملات پر عدالت کو مطمئن نہیں کر پائیں گے۔ ’’برحق انصاف نہ کہ قانونی انصاف‘‘ (LAW OF EQUITABLE JUSTICE)کے تحت بعینہٖ وہی سلوک ہو گا جو نواز شریف کو میسر ہو گا۔ عمران خان کی اپنی خواہش بھی یہی کہ ’’میرا اور نواز شریف دونوں کا حساب کتاب چکتا کرو‘‘۔
شریف فیملی پر عدالتی کارروائی مکمل ہو چکی، ’’تاریخ‘‘ فیصلے کی منتظر۔ کس تاریخ، تاریخی مقدمے پر تاریخ رقم ہونا ہے، چند دنوں میں فیصلہ ہمارے درمیان ہو گا۔ پاناما کیس وطن عزیز کی چولیں ہلا چکا، نقصان کا تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ وطن عزیز میں سیاسی انتشار، تنائو، ٹکرائو مستقلاً قیام گاہ ڈھونڈ چکا ہے۔ ایک عرصے سے لکھ رہا ہوں، فیصلہ کوئی بھی آئے، وزیر اعظم بری الذمہ یا موردِ الزام ٹھہریں، فیصلہ نے تنازعات کو بڑھانا ہے۔ عرصے سے اداروں کی جانب سے تنازعات کی حوصلہ افزائی پہلے ہی سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکی۔ قومی بدقسمتی ہی، اگر فیصلہ آگ پر ہائی اوکٹین کا کام کر گیا۔ انواع و اقسام کا میڈیا منقسم، عرصے سے اپنی سہولت کے مورچے پکڑ چکے ہیں۔ جہاں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اپنی ہنر مندی، کاری گری، ہوشیاری سے اپنی مرضی کے خلاف فیصلہ کی دھجیاں اُڑائے گا وہاں شُتر بے مہار سوشل میڈیا اداروں کی مٹی پلیدکرنے میں نئے باب رقم کرے گا۔
کیس کیTRAILپر نظر ڈالیں، سابق چیف جسٹس جمالی صاحب نے کمیشن بنانے پر وزیر اعظم کی درخواست کا جو جواب بھیجا، جوابی خط کے خدوخال اور الفاظ کا چنائو بدمزگی کا موجب بنے۔ دوسری طرف رجسٹرار نے عمران خان کی درخواست کو لغو قرار دے کر مزہ کرکرا رکھا۔ 184(3)کے تحت پہلے انکار اور پھر اقرار، دو رویوں پرعرصہ دراز زیر بحث رہے گی۔ کیس چلا، تو روزانہ کی بنیاد پر احاطہ سپریم کورٹ متحارب پارٹیوں میں جنگ وجدل کا میدان بنا رہا۔ بالآخر چند دن پہلے معاملہ ہاتھا پائی تک آن پہنچا، ایساہونا تھا۔ جس دن پٹیشن منظور ہونے کی نوید آئی، عمران خان نے فیصل آباد جلسے میں فتح کا پھریرا لہرایا:’’یہ آپ لوگوں کا دبائو تھاکہ سپریم کورٹ سننے پر مجبور ہوئی‘‘۔ توہین عدالت کا نوٹس نہ ملنا، حوصلے بلندکر گیا۔ ایسے اور کئی مواقع آئے جہاں سختی سے روکنا چاہئے تھا، نہ روکا گیا۔ سوشل میڈیا روز ِ اول سے اَت مچا چکا تھا، اخلاق کے سارے بندھن توڑنے تھے۔ اِدھر ادارے کوئی موقف اپناتے یاراہ عمل متعین ہوتی، پھبتیاں، تضحیک، تضلیل اور تذلیل موضوع و موزوں سوشل میڈیا پر جچ جاتے۔ طوفانِ بدتمیزی کی موجوں نے آسمان چھوئے رکھا۔ معزز عدالت نے برہمی کا اظہار کیا،کہنا پڑا:’’ایسی کسی کمپین کو خاطر میں نہ لائیں گے‘‘۔ ایک تاثر کہ کچھ لوگوں کی جانب سے موجودہ چیف جسٹس اور آج کے آرمی چیف کی تعیناتی پر سوشل میڈیا پر چلنے والی معاندانہ مہم نے رنگ جمایا اور اداروں کو دبائو میں لانے کی ناپاک جسارت کی۔ بعض موقعوں پر اداروں کی طرف سے صفائیاں بھی پیش ہوئیں اور کئی دوسرے موقعوں پر دبائو صاف نظر آیا۔ صاف معلوم رہا کہ احتجاجی سیاست، میڈیا اور سوشل میڈیا کی مہم عوام الناس کو اکسانے میں موثر رہی، مطلوبہ نتائج ملتے رہے۔ اسلام آباد لاک ڈائون کے نعرے سے خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا۔ لاک ڈائون، پاناما کیس کی پہلے دن کی سماعت سے ایک دن پہلے کرنا تھا۔ صد افسوس! ایسے بحران پر اداروں کی جانب سے بے اعتنائی، لاتعلقی، بیگانگی نظر آئی۔ ترجمان تحریک انصاف نے بیان داغا،’’جسارت‘‘ اخبارات میں محفوظ ہوئی کہ ’’ہم سپریم کورٹ کو کام کرنے سے نہیں روکیں گے‘‘۔ اگلے دن، جب کیس شروع ہوا تو کمیشن پر فریقین کی پسند و ناپسند کا عندیہ لیا جانا، مناسب نہ تھا۔ کمیشن کی قانون میں گنجائش تھی، سپریم کورٹ TORکی شرائط بھی مقرر کر سکتی تھی۔ JITکی عدالتی تشکیل، آئین میں کہیں ذکر نہیں، اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ تفتیشی ٹیم کا وٹس ایپ کال کے سہارے چنائو اور ممبران کی تعیناتی، مزید براں عسکری اداروں کی نمائندگی آنے والی نسلوں تک زیرِ بحث رہے گی۔خاطر جمع رکھیں، کبھی نہ کبھی وٹس ایپ کالز کی تحقیق ہوکر رہے گی۔JIT جیسی تفتیشی سہولت نجانے آئین کی کتاب سے کیوں اوجھل رہی؟ آرٹیکل10(A)اور 25کی موجودگی میں JITکی تفتیش کا یکطرفہ، مشکوک اور متعصبانہ رہنا،WITCH HUNTINGکا تصور راسخ رکھنا، بداعتمادی کی فضا کوجنم دے گیا۔JITہرگزسپریم کورٹ نہ تھی، پھر بھی تاثردیا گیا کہ مقدس روحJITمیں حلول کر چکی ہے۔فائدہ اٹھایا گیا کہ گستاخی، توہین عدالت کے زمرے میں آئے گی۔ مزید سارے ممبران نے باجماعت تعصب، تنازعات عام کرنے میں کسر نہ چھوڑی۔ گردش کرتی سازشی تھیوریاں، نادیدہ قوتوں کا کردار نمایاں نظر آیا۔ ماضی میں عدالتِ عظمی کے ’’ماورائے آئین و قانون‘‘ فیصلے، قانون کی کتابوں میں درج، اپنی نظیر آپ ہیں۔ ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے عفریت نے دہائیوں جکڑے رکھا۔ جسٹس افتخار چوہدری نے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کو جہاں ہمیشہ کے لئے دفن کرنے کی نوید سنائی وہاں آئین پاکستان سے تجاوز کے نئے باب رقم کرنے میں بھی کنجوسی نہ دکھائی۔
آئین پاکستان میں وزیر اعظم اور رکن پارلیمان کو نا اہل کرنے کا طریقہ کار بصراحت موجود ،چوہدری صاحب نے آئین کی شقوں کو کھینچ تان کرنیا مرکب بنایا، نااہلی کا نسخہ وجود میں آیا۔
اب جبکہ فیصلہ محفوظ، معزز عدالت نے ساری آئینی ضروریات، قانونی موشگافیوں کو سامنے رکھتے ناقابل تردید، ناقابل انکار اور ٹھوس و مضبوط ثبوتوں کی بنیاد پر پاناما کیس کا فیصلہ سنانا ہے۔ سینئر وکیل سپریم کورٹ جناب عرفان قادر پچھلے کئی مہینوں سے آئین اور قانون کی رسی کو مضبوطی سے تھامے، آئینی نکتہ دانی اور قانونی دقیقہ رسی میں فیض عام کر رہے ہیں۔ بذریعہ میڈیا، قوم ان کے ارشادات سے فیض یاب ہو رہی ہے۔ بار بار نشاندہی فرما
چکے ہیں کہ ’’قائم کردہ ایسی روایات جہاں آئینی تجاوز یا قانون پر اضافی بوجھ کا ارتکاب رہا، سپریم کورٹ کے لئے درستی کا وقت آن پہنچا ہے۔ سپریم کورٹ ایسے نئے اصول وضع کرے جہاں آئین کی تشریح اور توضیح اپنی اصلی روح کے ساتھ دوبارہ حکمرانی کرتی نظر آئے۔ وقت آن پہنچا ہے کہ سپریم کورٹ سابقہ عدالتی تجاوزات اور غلطیوں کا ازالہ کرے۔ نواز شریف، عمران خان اور دیگر کے خلاف184(3) کے تحت دائر درخواستیں خارج کرکے متعلقہ آئینی اداروں کو احکامات دے کہ بفرض محال ایسے مقدموں پر کارروائی بنتی ہے تو متعلقہ ادارے بمطابق قانون گرفت میں لائیں۔ سپریم کورٹ کو تاریخی فیصلے کرنے ہوں گے وگرنہ ایسی سیاسی دلدل میں دھنس جائیں گے جہاں سے نکلنا مشکل ہو گا، کئی دوسرے ادارے بھی غرق ہو سکتے ہیں‘‘۔
میڈیا اور سوشل میڈیا نے تو ہر دو صورتوں میں طوفانِ بدتمیزی اٹھانا ہے۔ یقین جانیے وقتی ہو گا اور طوفان پیالی تک محدود رہے گا جبکہ تاریخی فیصلہ بمطابق آئینی حدود و قیود صدیوں قانون کی کتابوں کی عزت بڑھا جائے گا۔ ’’بیسیوں سال تک یاد رکھے جانے والے فیصلے‘‘، ضروری نہیں باعث فخر و توقیر بھی ہوں۔ نظریہ ضرورت، ڈان، گاڈ فادر، سسلی مافیا، بھٹو پھانسی پہ وقتی تالیاں بج سکتی ہیں، لمبے عرصے تک تنقید کی زد میں رہیں گے۔ فیصلے کے پیچھے آئین کی ناقابل تردید سپورٹ رہی تو فیصلہ امر ہو جائے گا۔

تازہ ترین