• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرمپ انتظامیہ پچھلے سات ماہ سے یہ موقف اپنائے ہوئے ہے کہ جنوبی ایشیا اور پاکستان کے بارے میں وہ امریکی پالیسی کو ’’ریویو‘‘ یعنی نظرثانی کررہی ہے مگر باخبر حلقوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی کے حالیہ دورئہ واشنگٹن اور تل ابیب کے بعد جنوبی ایشیا سے لیکر مشرق وسطیٰ کے علاقائی اور عالمی معاملات پر بھارت امریکہ اسرائیل کے درمیان مفادات اور اشتراک کی ایک نئی تثلیث قائم ہوگئی ہے اور پاکستان کے بارے میں امریکہ کا وہی ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ جاری رہے گا اور حکمت عملی وہی ہوگی جو یہ تین ملکی اشتراک اپنائے گا۔ پاکستان کو محض نظرثانی کے وعدے پر بہلایا جارہا ہے تاکہ اس مشترکہ حکمت عملی کیلئے انتظامات مکمل ہوسکیں۔ جنرل نکلسن اور جنرل باجوہ کی تازہ ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف پاکستانی رول کی تعریف پر مبنی بیان بھی کوئی نئی بات نہیں یہ بیانات تو صدر بش کے دور سے اب تک کئی سو مرتبہ مختلف ملاقاتوں میں دہرائے جاچکے لیکن ساتھ ہی پاکستان کی قربانیوں کا صلہ دینے کی بجائے ’’ڈومور‘‘ اور الزامات اور مطالبات دہرائے جاتے رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کا پاکستان بارے پالیسی پر نظرثانی کاموقف سمجھنے میں ایک دشواری یہ بھی ہے کہ گزشتہ 16 سال سے افغانستان میں امریکی افواج کی جنگ، دہشت گردی کے واقعات، طویل قیام اور کئی سو ارب ڈالرز کے اخراجات کے بعد بھی صورتحال کے حوالے سے براہ راست امریکی حکمت عملی، افغانستان میں کامیابی، تلخ تجربات اور دیگر حوالوں سے اسٹرٹیجی اور نتائج کا عملی تجربہ اور تفصیلی تجزیہ امریکیوں کے پاس ہے جن کی روشنی میں نظرثانی یا متبادل حکمت عملی کیلئے اتنے طویل ’’ریویو‘‘ کی ضرورت متعدد سوالات کو جنم دیتی ہے۔ اُدھر صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان اور بھارت کے بارے میں ایک تفصیلی بیان موجود ہے کہ ایٹمی پاکستان اور وہاں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے معاملے میں ہم بھارت کے تعاون پر انحصار کریں گے جس کی فوج بھی کافی بڑی اور مضبوط ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں حالیہ دہشت گردی کی لہر اور سرحد پار سے دہشت گرد تنظیموں کی پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری کا اعلان کرنا آپ کو کیا نتیجہ اخذ کرنے میں مدد دیتا ہے؟ ہم اور ہمارے وزراء اور اپوزیشن لیڈر ابھی تک ہر ایسے واقعہ کی بھرپور مذمت، مجرموں کو مثالی سزائیں دینے کے اعلانات و بیانات کے بعد دوبارہ داخلی سیاسی محاذ آرائی اور مقدمات کی عدالتی سماعتوں کے بعد روزانہ اپنے اپنے موقف کی کھلی کچہریاں لگاکر اپنی پارٹی کے لیڈروں سے شاباش حاصل کرنے کی دوڑ میں لگ جاتے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے جب بعض مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکہ آنے پر عارضی پابندیوں کاایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تو اُسے وفاقی عدالتوں میں چیلنج کیا گیا لیکن امریکی عدالتوں میں سماعتوں کے بعد کسی فریق نے عدالتوں کے باہر اپنی کھلی کچہری نہیں لگائی۔ مدعی یا مدعا علیہ دونوں نے سماعت اور عدالتی آرڈرز کا احترام کیا۔ عدالتوں کے غیر مسلم ججوں نے ایک فی صد اقلیت والی آبادی یعنی مسلمانوں کے حق میں اور ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف فیصلے کئے تب بھی عدالتی احترام اور احکام کی تعمیل میں فرق نہیں آیا۔ ایک ہم ہیںجو دہشت گردی کا سامنا کررہے ہیں۔ افغانستان سے بھارتی ایجنٹوں کے تربیت یافتہ دہشت گرد اور ان کی تنظیمیں پاکستانی سرزمین پر دہشتگردی کرنے کی ذمہ داری لے رہی ہیں مگر ہم مستقبل اور ملکی سلامتی کو لاحق خطرات سے بے نیاز ہوکر داخلی اقتدار کی جنگوں میں پوری قوم کو جھلسا رہے ہیں۔ گزشتہ روز امریکہ میں پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری سے پاک امریکہ تعلقات پر گفتگو کا موقع ملا۔ وہ پاک امریکہ تعلقات کے 70 سال کے نشیب و فراز کا ذکر کرتے ہوئے آئندہ کیلئے تعلقات میں تسلسل اور بہتری کی رائے رکھتے ہیں اور پاک امریکہ تعلقات کو اسی مثبت نہج پر لے جانے کی کوشش بھی کررہے ہیں مگر عالمی طاقتوں کے مفادات کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ جب جرمنی میں ابھرتے ہوئے نازی ہٹلر نے اپنے توسیعی عزائم کے تحت اردگرد کے ممالک کو اپنے تسلط میں لینے کیلئے جارحیت اختیار کی تو برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے جرمن طاقت کو خوش کرنے کیلئے خوشامدانہ پالیسی (Policy of Appeasment) اختیار کرتے ہوئے پولینڈ پر نازی حملے اور تسلط پر خاموشی اختیار رکھی اور یہ توقع کی کہ ہٹلر پولینڈ پر قبضہ کے بعد مطمئن ہوجائے اور مزید جنگ نہ کرے۔ مگر ایسا نہیں ہوا پھر جب برطانیہ اور دیگر یورپی طاقتوں کو جنگ کا سامنا کرنا پڑا تو پھر جنگ عظیم دوئم بھرپور انداز میں لڑی گئی۔ مقصد یہ ہے کہ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر چھوٹے ممالک کی سلامتی اور بقاکو بھی نظرانداز کردیا کرتی ہیں۔ فی الوقت جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ بھارت اور اسرائیل کے تعاون و اشتراک کی نئی تثلیث کا ایک ٹارگٹ پاکستان بھی ہے۔ موساد ایک عرصہ سے جنوبی ایشیا میں بھارتی تعاون سے سرگرم ہے۔ اگر اس بارے میں سلامتی اور دیگر تقاضوں کے باعث خاموشی سے کام لیا جارہا ہے تو الگ بات ہے۔ ورنہ جنوبی ایشیا میں موساد کی آمد تو مشرف دور سے شروع ہوچکی ہے اور اب معاملہ کافی آگے بڑھ چکا ہے۔ یہ بات بالکل اسی طرح حقیقت ہے جس طرح بلوچستان میں بھارتی ایجنٹوں کی آمد اور مقامی عناصر کے ساتھ رابطوں کی حقیقت کو بھی کئی سال تک انکار اور خاموشی کے ذریعے چھپایا جاتا رہا ۔
یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ افغانستان کے مسائل کا حل پاکستان کے تعاون کے بغیر امریکہ کیلئے ممکن نہیں۔ امریکہ کو پاکستانی تعاون کی بڑی ضرورت ہے لیکن اگر پاکستان خود انتشار اور دہشت گردی کا شکار ہوا تو امریکی متبادل آپشن بھی اپنانے کی فکر میں ہیں۔ جنگ اور امن کیلئے محض واحد حل کی بجائے متبادل آپشنز اور حکمت عملی بھی ہمیشہ سے ایک زمینی حقیقت رہی ہے۔ بیت المقدس میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے۔ اس پر پاکستان سمیت کسی بھی مسلم ملک کو نگاہ ڈالنے کی فرصت و ہمت نہیں رہی شام اور عراق کی تباہی پر مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے کسی بھی ملک میں احتجاج یا عملی اقدام کی جرأت نہیں۔ سیکولر بھارت میں گائو رکھشا اور دیگر عنوانات کے تحت بھارتی مسلمانوں کے ساتھ جو انسانیت سوز ظلم ہورہا ہے اس پر کوئی صدا نہیں اٹھی۔ مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کے حق میں صرف پاکستان ہی واحد وکیل رہ گیا ہے ۔
اس صورتحال میں یہ توقع رکھنا کہ امریکہ پاکستان بارے اپنی پالیسی پر نظرثانی میں مصروف ہے اور چونکہ پاکستان کے تعاون کے بغیر امریکہ افغانستان میں امن اور مسائل کو حل نہیں کرسکے گا۔ یہ ایک خوش فہمی ہے۔ جس افغانستان سے بھارتی تعاون و تربیت سے دہشت گرد پاکستان آکر دہشت گردی کرسکتے ہیں تو وہاں بھارتی اثرورسوخ امریکہ کے کام بھی آسکتا ہے۔ عالمی طاقتیں کسی جنگ میں نقصان یا شکست کے بعد بھی زندہ رہ سکتی ہیں لیکن چھوٹے ممالک ایسی جنگوں میں روندے جاتے ہیں۔ عراق، شام اس کی مثال ہیں۔ پاکستان کے وارثوں کو بھی ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہئے کہ کیا محض پاکستانی فوج اندرونی سیاسی خلفشار سے لیکر دہشت گردی اور سرحدوں کی حفاظت کے تمام فریضے انجام دینے کی ذمہ دار ہے اور سیاسی لیڈر تمام بیرونی خطرات کے باوجود باہم دست و گریباں رہیں۔ کیا یہ لازمی ہے کہ امریکہ پاکستان بارے اپنی پالیسی پر نظرثانی صرف پاکستان کے حق میں ہی کرے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ کے بجٹ میں پاکستان کیلئے جو کٹوتی کی گئی ہے اس کے بارے میں یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی امداد میں یہ کمی کی ہے بلکہ دراصل امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کئے جانے والے پاکستانی اخراجات کی جو ادائیگی کرنا تھی اُسے نہ صرف روکا ہے بلکہ اس رقم کی ادائیگی کیلئے شرائط بھی عائد کردی ہیں۔ یہ امریکی امداد نہیں بلکہ وہ اخراجات ہیں جو پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پہلے ہی خرچ کرچکا ہے اور سمجھوتے کے تحت یہ اخراجات امریکہ نے پاکستان کو ریفنڈ کرنا ہیں۔ گزشتہ سال کے بجٹ میں بھی ایسی ہی کٹوتی اور ایسی ہی شرائط رکھی گئی تھیں۔ امریکہ میں پاکستانی سفیر کا بھی یہی کہنا ہے۔ ہمیں زمینی حقائق کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ کر فوری حکمت عملی مرتب کرنے میں امریکہ بھارت اور اسرائیلی تعاون کی تثلیث کے ظاہری اور خفیہ پہلوئوں اور متبادل آپشنز کے تناظر میں عمل کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین