• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے حیران ہو کر کہا’’ماسٹر اللہ دتہ کی وجہ سے ،کیا مطلب ،عزت ،شہرت ،عہدے اور یہ بیسیوں ایوارڈز ، سب کی وجہ ماسٹر اللہ دتہ ، کیسے اور یہ ماسٹر صاحب ہیں کون ؟‘‘ میرا85سالہ نوجوان میری حیرانی کو انجوائے کرتے ہوئے مسکر اکر بولا’’ ہاں اللہ کے فضل کے بعد ، میری زندگی میں سب سے اہم ماسٹر اللہ دتہ‘‘ لیکن دوستو بات آگے بڑھانے سے پہلے یہیں رُک کر یہ بتادوں کہ اسلام آباد کے ایک پارک میں گھنٹہ بھر کی واک کے بعد اپنے واک پارٹنر اور سدا بہار بیوروکریٹ ، سیاستدان اور دانشور کے ساتھ بیٹھے بیٹھے جب میں نے ایسے ہی پوچھ لیا کہ ’’آپ کی کامیاب ترین زندگی کا راز کیا ‘‘ تو30سالوں تک مختلف حکومتوں اور حکمرانوں کے فیصلوں میں شریک رہنے اور کئی حکومتیں بنانے اور گرانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اپنے وقتوں کے ’’بادشاہ گر‘‘ نے اپنی کامیابیوں کی وجہ جب ماسٹر اللہ دتہ کو قرار دیا اور یہ سن کر میں نے حیران ہو کر ماسٹر صاحب کا حدود اربعہ پوچھا تو ان کے جھریوں بھرے چہرے پر اتھل پتھل ہوئی ،آنکھیں چمکیں ، اپنی نظر والی عینک اتار کر گود میں رکھنے اور بنچ سے ٹیک لگا کر یوگا طرز پر دو چار لمبی لمبی سانسیں لینے کے بعد وہ بولے ’ ’ یہ تب کی بات جب میں دسویں کلاس میں تھا ،ایک روز بتایا گیا کہ کوئی ماسٹر اللہ دتہ کل سے اگلے 7دن ہمیں پڑھائیں گے ، ہمیں یہ بھی بتادیا گیا کہ علامہ اقبال کے معتقدِ خاص اور انکی سینکڑوں محفلیں اٹینڈ کر چکے ماسٹر اللہ دتہ ٹرپل ایم اے اور کئی پرُ کشش عہدوں اور نوکریوں کو ٹھکرا کر ’’اپنے مرشد‘‘ کے حکم پرا سکولوں،کالجوں اور یو نیورسٹیوں کے طلباکی کردار سازی اور تربیت میں لگے ہوئے، ماسٹر صاحب کیلئے آٹھویں ،نویں اور دسویں جماعتیں اکٹھی کر دی گئیں اوراگلے روز لمبے قد ،سرخ وسفید رنگت،موٹی بھوری آنکھوں اورکندھوں تک لمبے بالوں والے ماسٹر اللہ دتہ صاحب آئے اور سلام دعا کے بعد کچھ کہے ،سنے بغیر بلیک بورڈ پر ایک لمبی لکیر کھینچ کر بولے ’’ کون ہے جو اس لکیر کو چھوئے بنا چھوٹا کر دے ، پہلے تو پوری کلاس خاموش رہی پھر ایک لڑکا بولا ’’سر لکیر کو چھوٹا کرنے کیلئے اسکا کچھ حصہ مٹانا پڑے گا ، مطلب اسے چھونا پڑے گا،چھوئے بنا تو یہ ناممکن ‘‘ ماسٹر صاحب نے باقی طلبا کی طرف دیکھا تو سب نے اپنے کلاس فیلو کی تائید میں سر ہلائے ،یہ دیکھ کر زیرِ لب مسکراتے ماسٹر صاحب نے جب اس لکیر کے اوپر ایک بڑی لکیر کھینچی تو پہلے والی لکیر خود بخود ہی چھوٹی ہوگئی ،اللہ دتہ صاحب بولے ’’ بتانا یہ کہ ہم اپنی زندگیوں میں دوسروں کو نقصان پہنچائے بنا بھی ترقی کر سکتے ہیں ،دوسروں کو چھوٹا کئے بغیر بھی بڑا بن سکتے ہیں اور کسی سے الجھے بنا بھی آگے بڑھ سکتے ہیں ، لہٰذا ہمیشہ کوشش کریں کہ آپکی ترقی دوسروں کی تنزلی نہ بن جائے ، یہ کہہ کر ماسٹر جی لمحہ بھر کیلئے خاموش ہوئے اور پھر اُنہوں نے میز پر رکھے ایک بڑے سفید کاغذ کو بلیک بورڈ پر چسپاں کرنے اور کاغذ کے عین درمیان مارکر سے سیاہ نقطہ ڈالنے کے بعد طلباسے پوچھا ’’ آپ کو کیا نظر آرہا ‘‘ سب بیک آواز میں بولے ’’سیاہ نقطہ ‘‘ ماسٹر صاحب نے ہنس کر کہا’’ اتنا بڑا سفید کاغذ چھوڑ کر تم سب کو یہ چھوٹا سا سیاہ نقطہ ہی کیوں دکھائی دیا ،جب کوئی کچھ نہ بولا تو ماسٹر جی کی آواز دوبارہ گونجی ، دراصل ہمارا رویہ یہی کہ ہم دوسروں کے اچھے اوربڑے کام نظر انداز کر کے ہمیشہ ان کو کسی چھوٹی سی غلطی،خامی یا لغزش کے حوالے سے یاد رکھیں ، سب اچھائیوں او رخوبیوں کوبھُلا کر ایک برائی یا عیب کو ان کا تعارف بنادیں ، یہ بالکل ایسے ہی جیسے مکھی سارا تندرست جسم چھوڑ کر زخم پر ہی بیٹھے، سب خود سے عہد کریں کہ عملی زندگیوں میں انسان بننا ہے مکھی نہیں، یہ کہہ کر ماسٹرجی نے لمحہ بھرکیلئے طلباکی طرف دیکھا اور پھر کہا ’’ آج کیلئے اتنا ہی کافی ،اور کل ہر طالب علم اپنے ساتھ پلاسٹک کا تھیلا اور 2دو کلو ٹماٹر لے کر آئے۔
اگلی صبح کلاس شروع ہوتے ہی اللہ دتہ صاحب نے کہا کہ ’’ اب کرنا یہ کہ ایک ٹماٹر اٹھائیں اور جس سے آپ ناراض یا جو آپ کا مخالف اُس کا نام ٹماٹر پر لکھیں اور اسے تھیلے میں ڈال دیں ، اسی طرح ٹماٹر اٹھاتے اور اپنے مخالف کا نام لکھ کر تھیلے میں ڈالتے جائیں یہاں تک کہ آپکے مخالفین کی فہرست ختم ہوجائے ،جب طلبایہ کر چکے تو ماسٹر صاحب بولے ’’اب آپ نے اگلے دو دن اپنے اپنے ٹماٹر کے تھیلوں کو سوتے جاگتے ساتھ رکھنا ،جہاں جہاں جانا انہیں ساتھ لے کر جانا اور دو دن بعدسب نے اپناتھیلا ساتھ لے کر کلاس میں آنا ہے ‘‘ دو دن بعد جب طالبعلم آئے تو پریشان اور چہروں پر بے بسی بھرا غصہ، ماسٹر صاحب کے یہ پوچھتے ہی کہ ’’ دو دن کیسے گزرے ‘‘ سب پھٹ پڑے ’’ ماسٹرجی ایک تو ہر وقت تھیلے کو ساتھ رکھنا کسی مشقت اور عذاب سے کم نہ تھا ، اوپر سے ایک رات گزرنے کے بعد ٹماٹر وں سے ایسی بدبو آنے لگی کہ گھر والے بھی قریب آنے سے کترانے لگے ، یہ سن کر زیرِ لب مسکراتے اللہ دتہ صاحب نے کہا’’ آ پ نے اس مشق سے کیا سیکھا‘‘ جب سب خاموش رہے تو ماسٹر صاحب بولے’’ بتانا یہ کہ ٹماٹر کے یہ تھیلے دراصل آپکی وہ رنجشیں ،مخالفتیں اور دشمنیاں جنہیں آپ نے خواہ مخواہ پال رکھا ، وہ بوجھ جو فضول میں اُٹھا رکھا اور بتانا یہ بھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دشمنیاں اور مخالفتیں پرانی ہوکر ایسی بدبودارہو جائیں کہ اپنے بھی دور ہو جائیں ، لہٰذا جتنی جلدی ہو سکے ٹماٹروں کے ان تھیلوں سے جان چھڑالیں اور اس سے پہلے کہ یہ بدبو دینے لگ جائیں انہیں سر سے اتار پھینکیں ،یادرکھو معاف کرنے اور دوسروں کی غلطی ،زیادتی بھول جانے کی عادت سے نہ صرف جسمانی اور روحانی آسودگی ہوگی، زندگی سکھی ہوگی بلکہ آگے بڑھنے کی Speedبھی تیز ہو جائے گی ،اتنا کہہ کر ماسٹر صاحب نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ٹماٹروں کے تھیلے اُٹھا اُٹھا کر تھک گئے، لہٰذا آئیے مل کر چائے پیتے ہیں ،اُنہوں نے گھنٹی بجائی اور جب 3نائب قاصد چائے کے تھرمس اور ڈھیر سارے کپ اُٹھائے اند ر آئے تواللہ دتہ صاحب نے کہا ’’ اپنی مدد آپ کے تحت چائے ڈال کر پئیں،جب سب طالبعلم چائے کے کپ لیکر اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے تو اللہ دتہ صاحب بولے ’’ آپ اپنے ہاتھ میں پکڑے کپ اور باقی بچے کپوں کو دیکھیں، آپ سب نے قیمتی کپ چُنے جبکہ سستے اور عام کپوں کو ہاتھ تک نہ لگایا ،حالانکہ اہم چیز چائے تھی ، کپ نہیں ، یہی کچھ ہم اپنی عملی زندگیوں میں بھی کریں، ظاہری خوبصورتی اور ٹپ ٹاپ پر تو بڑی توجہ دیں مگر باطن کو یکسر ہی نظر انداز کر جائیں ، یاد رہے کہ کپ جتنا بھی قیمتی ہو اگر اس میں چائے بدمزہ ہو تو کوئی فائدہ نہیں ،لیکن کپ سستا بھی ہو مگراس میں چائے عمدہ ہو تو مزہ دوبالا ،لہٰذا ہمیشہ اپنے اندر اور باطن پر فوکس رکھیں ،اسے خوبصورت بنائیں اور کبھی اپنے ظاہر کو اپنے باطن پر حاوی نہ ہونے دیں ‘‘۔
جب سب چائے پی چکے تو ماسٹر جی نے جیب سے پنسل نکال کر کہا کہ اس پنسل سے ہم 4چیزیں سیکھ سکتے ہیں ، پہلی بات یہ کہ یہ پنسل تبھی بہترین کام کرسکے جب یہ بہترین ہاتھ میں ہو ،دوسری یہ کہ بہترین لکھائی کیلئے اسے بار بار تراشے جانے کے تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑے ، تیسر ی یہ کہ پنسل پر لگا ربڑ ہر غلطی ٹھیک کرنے کی صلاحیت رکھے اور پنسل کا سب سے اہم حصہ وہ جو اس کے اندر ،اب پنسل کی جگہ خود کو رکھ کر دیکھیں ،آپ بہترین کام تبھی کرسکیں جب بہترین استاد یا رہنما میسر ہو، آپ مسائل اور مصائب کی بھٹی میں جل کر ہی کندن بن پائیں ،آپ اپنی غلطیوں کو مان کر اور انہیں صحیح کر کے ہی آگے بڑھ سکیں اورآپ کا سب سے قیمتی اثاثہ آپ کا باطن ۔
اتنا کہہ کر میرا یہ واک پارٹنر خاموش ہوا ،ہم چندلمحے چپ چاپ بنچ پر بیٹھنے کے بعد اُٹھے،پارک سے پارکنگ میں پہنچے ، الوداعی ٹاٹا بائی بائی کی ، اپنی گاڑیوں کی طرف مڑے اور ابھی میں دو قدم ہی چلا ہوں گا کہ اپنے وقتوں کے اس’’ گرو ‘‘کی آواز سنائی دی ’’ میں نے ابھی اللہ دتہ صاحب کی صرف 5باتیں بتائی ہیں ،25اور بھی ہیں، اور ہاں تم بھی ذہن پر زور دینا ،تمہاری زندگی میں بھی کوئی ماسٹر اللہ دتہ ضرور ہوگاکیونکہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی کی زندگی میں کوئی ماسٹر اللہ دتہ نہ ہو‘‘۔

تازہ ترین