• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حُسن اور عشق کائنات کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ کائنات کا خالق عشق بھی ہے اور حُسن بھی۔ جب اس کے حُسنِ کامل کا تصور کریں تو اس کی ذات خوبصورتی، جمال، دل آویزی، دوستی اور مہربانی کا مظہر نظر آتی ہے اور جب اس کے عشق کی طرف نظر کریں تو محبت کی انتہائیں جبار اور قہار کی صفات کو اُجاگر کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُس نے کُل عالم کو حسن و عشق کی کشش سے منسلک کر کے زندگی کو بامقصد اور حسین تر بنا دیا ہے۔ اتنا حسین ہے کہ ہر شے میں ایک آئینہ رکھ دیا ہے جسے دل بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ آئینہ اسی وقت خوبصورتی منعکس کرتا ہے جب دوسرا آئینہ یعنی آنکھ بھی آلائشوں سے پاک ہو۔ کسی کو ہر شے میں اپنا اور کسی کو محبوب کا چہرہ نظر آنے لگتا ہے۔ کسی بھی مظہر پر غور کریں، کسی نعمت کو تصور میں لائیں، دماغ کی رِیل پر سورۂ رحمن کی صدا بلند ہونے لگتی ہے۔ کائنات میں مختلف مناظر، اشیاء، انسان اور مخلوقات ہیں۔ دریا، سمندر، پہاڑ، زمین الگ الگ دکھائی دیتے ہیں مگر سب ایک اکائی میں پروئے ہوئے ہیں۔ بٹن الگ ہو سکتے ہیں مگر سب ایک ریموٹ کنٹرول سے بندھے ہیں۔ جسم علیحدہ مگر جان ایک، شکلیں مختلف مگر روح ایک، مقام دور دراز مگر رابطہ معلوم۔ کائنات کی اکائی، کائنات کی اصل، کائنات کی رُوح وہ الوہی سُر ہے جو ہر ذی روح اور موجود شے کا وظیفہ ہے۔ شاخیں، پرندے، ہوائیں، لہریں سب الوہی سُر پر جھومتے گاتے زندگی کرتے ہیں اس لئے ان میں کثافت نہیں۔ وہ فطرت کے اصولوں کے غلام نہیں پیروکار ہیں جب کہ انسان اپنے اور فطرت کے درمیان فاصلے اتنے بڑھا چکا ہے کہ کبھی کبھی وہ صرف ایک مشین بن کر رہ جاتا ہے جس کا زندگی اور حسن سے کوئی تعلق ہی نہ ہو شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس نے فطرت کے اجتماعی کنٹرول سے خود کو الگ کر لیا ہے۔ جسے وہ اپنی کامیابی سمجھتا ہے وہ اس کی لاحاصلی، تنہائی اور کم مائیگی ہے۔ آسمان و زمین اور مابعد الطبیعاتی دنیا کو ادراک کے دائرے میں لانے کے لئے ایک ریاضت ضروری ہوتی ہے یعنی مادی رسیوں کو توڑ کر خود کو فطرت کے حوالے کر دینا۔ یہ زیادہ مشکل کام نہیں صرف باطن کی حکومت تسلیم کر کے مادی دنیا سے تخلیہ مانگنا پڑتا ہے۔ سُر وہ جادوئی عمل ہے جو خاکی وجود کو روح بنا دیتا ہے، جو مٹی کو جکڑ کے وجود کو ایسے ہلکا پھلکا کر دیتا ہے کہ وہ ہوائوں میں اُڑتا محسوس ہوتا ہے، جو ذات کے روگ کی دوا کرتا ہے اور اندرونی توڑ پھوڑ کی مرمت کر کے مفقود رابطے بحال کرتا ہے۔ مسئلہ تبھی حل ہو سکتا ہے جب روگی اپنا تن من طبیب کے حوالے کر دے، خود میں سُر کو جذب ہونے دے، وجود کو اُس لَے پر سوار ہو کر اُڑنے دے جو دل پر دستک دے رہا ہو۔
کائنات سے ہم آہنگی کے لئے ذات کو موسیقی کے آلات بنا کر روح کو وجد میں لانا پڑتا ہے۔ پھر پرندوں کے نغمے، ہوائوں کی سرسراہٹ، لہروں کے راگ، آبشاروں کے ترنم، پہاڑوں کی سنسناہٹ، چاند سورج کی مسکراہٹ اور زمین کی سرگوشیاں سنائی دینے لگتی ہیں۔ سب ایک ہی لَے پر محوِ رقص ہیں۔ یہ وہ رقص ہے جو حرکت اور ترقی کا ضامن ہے، جو بازو پھیلا کر پورے کائنات کو خود میں سمو لیتا ہے اور خود کائنات بن جاتا ہے۔ وجد کی یہ حالت عبادت کا عالم ہے۔ اللہ ھو پر لبیک کہتی سانسوں کی آواز ہے۔ کبھی وصل کی سرشاری عشق کی تال پر دھمال بن کر اِک مِک ہونے کی خوشی مناتی ہے تو کبھی ہجر کا کرب اس طرح تھیا تھیا نچاتا ہے کہ جدائی کا درد پائوں سے رِسنے لگتا ہے۔ دھرتی رنگیں ہو جاتی ہے اور روح شانت۔
سُر اور روح جنم جنم کے ساتھی ہیں۔ دونوں نظر نہ آنے والی غیر مرئی چیزیں ہیںجو صرف محسوس کی جا سکتی ہیں دیکھی نہیں جا سکتیں۔ فلسفہ دانوں کے مطابق روحِ مطلق سے انسانی روح کا صدور اسی طرح ہوتا ہے جیسے سورج سے شعاعیں پھوٹتی ہیں۔ سُر کی لہریں بھی شعاعوں کی طرح روشنی بانٹتی ہیں۔ جس طرح طاقتور شعاعیں زہر کا خاتمہ کرتی ہیں اسی طرح سُر کی لہریں وجود کی تطہیر کر کے اُسے مصفا بناتی ہیں۔ دل پر جمی کدورتوں کو ختم کر کے اس طرح صیقل کر دیتی ہیںکہ انسان کو آر پار نظر آنے لگتا ہے اور وہ خود کو ایک خوشگوار فضا میں اڑتا ہوا محسوس کرتا ہے۔
زندگی کی بھاگ دوڑمیں روح اور جسم کے درمیان فاصلوں کی دیواریں حد سے تجاوز کرنے لگیں تو شخصیت کا توازن بگڑنے لگتا ہے۔ ضروریات زندگی، دوسروں کے لیے قربانیاں اور ناآسودہ خواہشوں دا دُکھ سہتے اپنی ذات سے بیگانگی برتنے والے زیادہ کرب کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ مگر دل سے آہیں نکلتی ہیں کیوں کہ میکانکی زندگی وجود کو مرکزیت یعنی روح سے دور کر کے شخصیت کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کر دیتی ہے تو اطمینان کا احساس زندگی سے مفقود ہو جاتا ہے۔روح اور جسم کے تعلق کو صرف توجہ سے کسی ایک نکتے پر مرکوز کیا جا سکتا ہے۔ اگر اتنے سارے لمحات میں کچھ لمحے سارے مسائل ،وبال ،ذمہ داریاں اور بیماریاں بھلا کر کسی ایک مقام پر پڑائو ڈال دیا جائے اور ذات کی جھگی میں ساری دنیا سے چھپ کر روح کو موقع فراہم کیا جائے کہ وہ بھی اپنے مالک اپنے محبوب سے دل کی بات کر سکے۔ ہجر کے لمحات کا دُکھڑا سنا سکے۔ روح کا روحِ مطلق سے ملاپ صرف روح کو ہی شادمان نہیں بلکہ پورے وجود کو سر شار کر دیتا ہے۔سُر اور لے کی محافل میں میوزک کا کوئی بھی آرگن بجانے والا صرف ظاہری مہارت سے روحوں کے تار نہیں چھیڑ سکتا۔وہ روح کی تال پردل کے تار بجاتا ہے اورجھومتا ہے۔ اسکی روح کی پکار اسکے فن میں شامل ہو کردیگر روحوں تک رسائی حاصل کرتی ہے۔اسی لیے سُر اور لے پر گھنٹوں ناچنے گانے والا تھکاوٹ محسوس نہیں کرتا۔ درباروں پر اپنے سے وزنی ڈھول کو گلے میں ڈال کر دائرے میں گھما گھما کر جھومنے والا روح کی آواز پر جھومتا ہے۔ اس وقت روح کی طاقت اس کے بدن پر محیط ہوتی ہے۔ رومی اپنی مثنوی کا آغاز بانسری کی لے سے کرتے ہیں کیونکہ بانسری کی لے میں جو درد ہے وہ روح کی آواز ہے جو اپنے محبوب سے جدا ہو کر کسی اور جہان میں مقید ہے۔ بانسری بانس کی لکڑی سے جدائی کا رونا روتی ہے اور انسانی روح اپنے رب کی روح سے علیحدگی پر افسردہ ہے۔ بانسری کی لے دراصل ایک ایسا دُکھی گیت ہے جس میں جدائی کا منظر بیان کیا گیا ہے۔ انسانی وجود میں روح کی اہمیت زیادہ ہے اس لئے بدن کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ روح کی غذا کا اہتمام بھی ضروری ہے ورنہ ادھورا پن انسان کا مقدر بن جاتا ہے۔ من میں پریم کا دیپ جل جائے تو روح کی آواز سنائی دینے لگتی ہے۔ سُر اور روح کے درمیان مکالمہ شروع ہو جائے تو وجود خود کو سرنڈر کر دیتا ہے اور عشقِ حقیقی کا دِیا ہر طرف اُجالے بکھیرنے لگتا ہے۔ عشق کا دِیا جلتے رہنا انسان کا شرف ہے کیوں کہ اگر یہ بجھ جائے تو وجود پتھر بن جاتا ہے جسے نہ اپنے باطن اور نہ کائنات کی کوئی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہ دِیا صرف روشنی نہیں کرتا بلکہ ذات کے کھوٹ کو پگھلا کر زائل کر دیتا ہے اور من کا سونا اُجالتا ہے۔
ہم سب بے قرار ہیں کیوں کہ ہم انسان ہیں اور بے قراری انسان کی سرشت میں ہے۔ وصل اور ہجر کے درمیان کسی مقام پر موجود انسانی دِل دونوں اطراف کے اثرات قبولتا، خوشی مناتا اور آہ و زاری کرتا ہے۔ یہی اُس کی منشا ہے وہ جو اپنی محبت میں ذرا سا شرک برداشت نہیں کرتا۔

تازہ ترین