• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ لوگ اتنے ذہین ہوتے ہیں کہ اُن کے ذہن کی ڈکشنری میں دُنیا کی ہر بات کا جواب موجود ہوتا ہے، مشکل سے مشکل، عام سے عام، علمی، ادبی، معاشرتی، ثقافتی، سیاسی یا کسی بھی دوسرے شعبے کاسوال ہو گا وہ ’’تیز لوگ‘‘ اُس کا جواب جھٹ سے دیں گے۔ ایسے لوگوں کا تعلیم یافتہ ہونا یا کسی ادارے سے تجربہ کی سندرکھنا ضروری نہیں ہے۔ اُن کے لئے ضروری ہے تو صرف یہ کہ وہ موقع کی مناسبت سے سوالوں کے جوابات دینے اور اُن دیئے گئے جوابات میں ردوبدل کرنے کی مہارت کے ساتھ ساتھ سوال کرنے والے کو اپنی منطق سے قائل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔ جن لوگوں کا میں ذکر کررہا ہوں اُنہیں اِس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ سوال ’’تیکھا‘‘ ہے، غصے کی حالت میں کیا جا رہا ہے، شکوہ نما سوال ہے یا کوئی پولیس افسر دوران تفتیش پوچھ گچھ کر رہا ہے، یہ مذکور ایسے ’’پُھرت باز‘‘ ہوتے ہیں کہ انہیں سوال کرکے لاجواب کرنے والا شخص فلسفہ سے بھر پور جواب سُن کر از خود لاجواب ہو جاتا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ’’شرمندہ‘‘ ہو جاتا ہے۔ ایک پھل والے کو گاہک نے انتہائی غصے سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ سیب آپ سے لے کر گیا ہوں، اسے کاٹا تو اندر سے ’’کیڑا‘‘ نکلا ہے، اِس کے جواب میں پھل والا بولا جناب غصہ کیوں کرتے ہیں؟ آپ سے پہلے ایک گاہک نے سیب کاٹا تو اندر سے اُس کا فریج نکلا ہے، یہ تو اپنے اپنے نصیب کی بات ہے، لائیں سیب تبدیل کر دیتا ہوں، اِسی طرح بیکری پر جا کر گاہک نے کہا کہ صبح ناشتے کے لئے جو کیک لئے تھے اُن میں سے چھوٹی چھوٹی ’’سُنڈیاں‘‘ برآمد ہوئی ہیں مجھے اتنے باسی کیک کیوں دیئے؟ اِس سے پہلے کہ بات جھگڑا اختیار کرتی، بیکری والے نے کہا ’’باؤ جی طیش میں نہ آئیں اِن سُنڈیوں کی کون سی ویگنیں چلتی ہیں اِن بیچاریوں نے بھی تو یہیں سے کھانا ہے، لائیں کیک تبدیل کر دیتا ہوں۔ رات دو بجے پولیس کی گاڑی معمول کی گشت پر تھی، یہ ’’گشتی‘‘ پولیس جب مقامی قبرستان کے قریب سے گزری تو کانسٹیبل کی نظر قبرستان میں بیٹھے ایک شخص پر پڑی جو نشہ کرنے میں مصروف تھا۔ کانسٹیبل نے قبرستان کے اندر جا کر اُس شخص سے پوچھا یہاں اِس وقت کیا کر رہے ہو؟ جواب میںوہ نشہ کرنے والا بولا، جناب کچھ بھی نہیں میں اپنے والد محترم کی قبر پر دُعا کرنے آیا ہوں، کانسٹیبل نے غور سے قبر کو دیکھتے ہوئے نشئی سے کہا کہ تم جس قبر کے قریب بیٹھے ہو یہ تو کسی بچے کی ہے، اِس کے جواب میں وہ ذہین نشئی بولا، صاحب جی میرے والد صاحب بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ ایسے فی البدیہہ جوابات دینے والے ’’ذہین پُھرت بازوں‘‘ کی وافر مقدارپاکستان کی سیاسی جماعتوں میں موجود ہے جو عوام، صحافی برادری ،سول سوسائٹی اور سرکاری تفتیشی اداروں کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے ایسے جوابات دینے کی صلاحیت رکھتی ہے جنہیں سننے کے بعد سوال کرنے والا خود کو مجرم تصور کرنے لگ پڑے ۔یہ ذہین مذکورین سوالوں کے جواب دیتے ہوئے اپنے چہرے کے تاثرات بھی ویسے ہی بنا لیتے ہیں جو دیئے جانے والے جواب کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوں یعنی جو جھوٹا جواب دیا جا رہا ہے اُس پر سننے والے کو سچ کا گمان ہو، اِن سطور میںجن ذہین پُھرت بازوں کے بارے میں ذکر کیا جا رہا ہے وہ سیاسی پارٹیوں میں کسی عہدے پر فائز نہیں بلکہ انہیں ایک جماعت سے دوسری اور دوسری سے تیسری پاکستانی سیاسی جماعت میں شمولیت کے لئے کئے گئے سفر کی تھکان دُور کرنے کا موقع ٹی وی ٹاک شوز میں دیا جاتا ہے، یہ ذہین جھوٹ بولنے والے ’’پُھرت باز‘‘ کبھی بوڑھے نہیں ہوں گے کیونکہ جب اِ ن کے چہروں پر پریشانی ،پشیمانی، شرمندگی، ندامت اور پچھتاوے کی لکیریں ہی نہیں ابھریں گی تو ’’جُھریاں‘‘ نہیں بنیں گی جب جھریاں نہیں بنیں گی تو بڑھاپا کیونکر ظاہر ہوگا۔ ایک پارٹی میں رہتے ہوئے دوسری پارٹی پر کیچڑ اچھالنا، الزامات کی بھر مار کرنا، دوسری سیاسی پارٹی کے قائدین کو تنقید کا نشانہ بنانا، اور پھر ایک دن دوسری پارٹی میں شامل ہو کر اپنی پہلی اور سابقہ پارٹی پر تنقید کرنی، وہاں سے تیسری پارٹی میں جا کر سابقہ دونوں پارٹیوں پر الزامات لگانے، اور ثابت یہ کرنا کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ ہی ٹھیک ہے ،یقین کریں آج کل ایسے ہی ’’پارٹی بدل اشخاص‘‘ سیاسی پارٹیوں کے قائدین کے منظورِ نظر ہیں ۔سیاسی قائدین اِن ذہین پُھرت بازوں کے بارے میں کہتے نظر آتے تھے کہ یہ ایک کرپٹ انسان ہے اِس کا احتساب ہونا چاہئے، چند دن بعد وہی قائدین اُس پھرت باز کی اپنی پارٹی میں شمولیت کے بعد وکالت کرتے نظر آتے ہیں کہ اِس جیسا تو کوئی پارسا ہی نہیں ۔پاکستان میں تبدیلی کا نعرہ شاید ایسے پُھرت باز ہی لگارہے ہیں جو نئے سیاسی سفر سے پہلے اپنا وہ حلف بھول جاتے ہیں جو انہوں نے پارٹی میں شمولیت کے وقت دیا تھا ’’کہ میں اِس پارٹی سے وفادار رہوں گا۔‘‘ سوال یہ ہے کہ کہیں سیاسی پارٹی بدلنے کا نام تو پاکستان کی تبدیلی نہیں؟ کل تک ٹی وی ٹاک شوز میں آکر روٹی کا سائز دکھا کر وزیر اعلیٰ پنجاب کو تنقید کا نشانہ بنانے والے آج اپنے شہروں میں اُن کے جلسے منعقد کروا رہے ہیں، کل تک کاغذات کا پلندہ ٹاک شوز میں اپنے ساتھ لا کر میاں برادران کو غلط اور کرپشن زدہ ثابت کرنے کے لئے اُن کے خلاف گواہیاں دینے والے آج پھر کاغذات کا پلندہ لے کر ٹاک شوز میں میاں برادران کی طرف داری کرتے نظر آتے ہیں۔ کل تک چوہدری پرویز الہٰی سے ’’بغل گیر‘‘ ہونے کے لئے اُن کی گاڑی کے سامنے دھمال ڈالنے والے آج دوسری سیاسی جماعت میں جا کر چوہدری برادران پر تنقید کر رہے ہیں۔ پاکستان ایشیا کا ٹائیگر بنے یا پاکستان تبدیل ہو جائے، دیار غیر میں رہنے والے لاکھوں پاکستانیوں کی اُمیدیں اپنے وطن عزیز سے جڑی ہوئی ہیں۔ کوئی حکومت آج تک تارکین وطن پاکستانیوں کے مسائل حل نہیں کر سکی، دوسرے ممالک میں موجود پاکستانی سفارت اور قونصل خانوں میں بھی اوورسیز پاکستانی سہولتوں کے فقدان سے دوچار ہیں، تارکین وطن تاحال اپنے حقوق سے محروم ہیں اور نہ ہی انہیں دُور دُور تک اپنے مسائل حل ہوتے نظر آتے ہیں، اِس کے باوجود تمام اوورسیز پاکستانی اپنے ملکی حالات میں بہتری اور وہاں موجود مسائل کا حل اپنے مسائل کے حل سے پہلے چاہتے ہیں۔

تازہ ترین