• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فارسی کے استاد اور اردو کے سرکردہ عالم مسعود حسن رضوی مرحوم کہا کرتے تھے کہ رات کو خدا جانے کون لڑکا نیچے گلی میں غالب کا منسوخ کلام گایا کرتا ہے۔ معلوم کرایا گیا تو پتہ چلا کہ وہ لڑکا ان ہی کا بیٹا نیّر تھا، نیّر مسعود رضوی۔ سوچئے کہ جس لڑکے کی نوعمری میں شوخی اس نوعیت کی رہی ہوگی وہ آگے چل کر کیسا خوش ذوق اور ادب فہم نکلا ہوگا۔یہی ہوا۔ علم اور ادب کی دنیا میں نیر مسعود نے جلد ہی اپنے والد کی جگہ لے لی۔ اس کے بعد پڑھنا لکھنا، تحقیق کرنا، ادب کو پرکھنا اور گہرائی میں جاکر کھوج لگانا نیّر مسعو د کا سب سے بڑا ہنر ٹھہرا۔ ان کے والد نے انتقال کے وقت کام جہاں چھوڑا، نیّر مسعود نے وہیں سے آگے بڑھایا اور وہ بھی یوں کہ کام کو اپنی انتہا کو پہنچایا۔حکومت ہند نے دونوں کو علم و ادب کے اعلیٰ اعزاز دئیے اور دنیا نے ان کی علم دوستی اور ادب نوازی کو دل سے تسلیم کیا۔ باپ بیٹے، دونوں میں ایک خوبی مشترک تھی۔ دونوں نے شعر و سخن کے میدان میں مرثیے کی صنف کو سینے سے لگایا اور اس کی خوبیوں کے ایسے ایسے گوشوں کومنوّر کیا جن تک عام لوگوں کی نگاہ نہیں پہنچتی۔مسعود حسن رضوی ادیب نے میر انیس اور مرزا دبیر کو ایک بار پھر عوام کے بیچ لا بٹھایا اور ان کے لاجواب انتخاب ترتیب دئیے۔ صرف ایک کام رہا جاتا تھا، کسی نے انیس کی ایسی سوانح نہیں لکھی تھی کہ جسے حرف آخر کہیں۔ نّیر مسعود نے اپنے چوتھائی صدی کے مطالعے اور تحقیق کا نچوڑ نکال کر انیس کی ایسی سوانح ترتیب دی کہ پھر کسی دوسرے حوالے کی تلاش درکار نہیں۔اس کے بعد شدید علالت نے ان کو گھیر لیا اور طویل بیماری کے بعد وہ چل بسے۔ان کا جانا کسی سانحے سے کم نہیں۔ہر چند کہ انہوں نے بہت کام کیا اور بہت نام پایا لیکن افسوس یہ سوچ کر ہوتا ہے علم کے اعلیٰ درجے کو پہنچ کر کوئی اچانک چل بسے تو کتنے ہی کام ادھورے رہ جاتے ہیں۔ کام بھی ایسے جن کا سرامضبوطی سے ان کی گرفت میں تھا۔ قدرت انہیں تکمیل کی مہلت د ے دیتی تو ہم علم کی جستجو کرنے والوں کا کتنا بھلا ہو جاتا۔طے ہے کہ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں لیکن پھر خیال آتا ہے کہ ایسے لوگ تھوڑا سا اور جی لیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
نیّر مسعود کو میں نیّر بھائی کہتا تھا۔ میری والدہ کی طرف سے وہ میری حسینہ باجی کے بیٹے تھے۔ عمر میں مجھ سے چند روز کم یا زیادہ رہے ہوں گے۔ سنہ پچاس میں ہم لوگ بڑے بھائی کی شادی کے سلسلے میں لکھنو گئے اور اردو دنیا کی یادگار عمارت ’ ادبستان ‘ میں اترے۔اس وقت نیّر بھائی سے دوستی ہوئی۔ میں ریل گاڑی میں شفیق الرحمان کی کتاب ’حماقتیں‘پڑھتا ہوا گیا تھا، وہ اپنے گھر میں یہی کتاب پڑھ رہے تھے۔ ہمارے مراسم میںشفیق الرحمان کا مزاح قدر مشترک تھا۔ کوئی پانچ سال بعد ہم دونوں کی خط و کتابت شروع ہوئی جس میں تحریر ہماری اور اسلوب ’حماقتیں‘ کا ہوتا تھا۔ ہمارے خطوں کی شہرت ہوئی ۔ خط آتا تو ہر ایک پہلے پڑھنے کی کوشش کرتا۔ اس کے بعد ہم دونوں اپنے اپنے کاموں میں جُت گئے۔ میں کراچی میں بچوں کے ایک رسالے سے وابستہ تھا۔ ہم لوگ رسالے کا سال نامہ ترتیب دے رہے تھے۔ میری فرمائش پر نیّر بھائی نے بچوں کے لئے مضمون لکھ کر بھیجا تھا۔ اب سنئے ہماری خط و کتابت کا احوال۔ کوئی تیس سال بعد میرا لکھنو جانا ہوا۔ ادبستان کا سارا گھرانا جمع ہوگیا اور خوب باتیں ہوئیں۔ اسی دوران ہماری خط و کتابت کا ذکر آگیا۔ نیّر بھائی نے اپنی بیگم سے کہا کہ ذرا رضا بھائی کا خط تو نکال لائیے۔ وہ کہیں سے ایک بھاری بھرکم لفافہ لائیں۔ اس میں میرے تیس سال پرانے خط بھر ے ہوئے تھے، ویسے ہی تہہ کئے ہوئے، ان ہی لفافوںمیں احتیاط سے بند کئے ہوئے۔ میں نے تو خدا جانے اپنے خط کہاں ڈالے، انہوں نے وہ سارے کے سارے ویسے ہی احتیاط سے رکھوا دئیے۔ میرا کم سے کم تین بار لکھنو جانا ہوا۔ ادبستان کی عمارت کی وہ پہلی جیسی قلعی اترتی جارہی تھی۔ گھر میں وہ مسعود حسن رضوی کے زمانے جیسی خوش حالی نہ رہی۔ وہ گھوڑا گاڑی اور وہ پرانے زمانے کی موٹر، سب ختم ہو چکے تھے۔ جس کوٹھڑی میں یگانہ چنگیزی رہ پڑے تھے وہ ڈھے گئی تھی۔ لکھنو بدل رہا تھا، یہاں تک کہ عورتوں کو لانے لے جانے والی ڈولی اور کہار بھی ٹھکانے لگ گئے۔
میں گیا تو مجھ سے پہلا سوال یہ ہوا کہ کیا کھائیے گا۔ میں نے کچھ سوچے بغیر کہیں یہ کہہ دیا کہ کئی سال سے بتھوے کے ساگ کی ہری روٹی نہیں کھائی ہے۔ خدا جانے کس کو کہاں دوڑایا اور جیسے بھی بنا کہیں سے بتھوے کا ساگ منگا ہی لیا۔ اس کے بعد چارپائی پر بیٹھ کر ساگ کی ایک ایک پتّی توڑی، اسے سل پر پسوایا اور اس کو آٹے کے ساتھ گندھوا کر ہری ہری روٹیاں پکوائیں اور بڑی چاہ سے کھلائیں۔ سبق اس حکایت سے یہ ملتا ہے کہ انہوں نے دکھ جھیلے پر لکھنو کی وضع داری نہ چھوڑی۔ لکھنؤ کا مرقع تھے۔ اس کا حال یوں اور کھلا کہ ایک بار میں گیا تو مجھے ایک چھوٹی سی کتاب پیش کی: ’ کافکا کی کہانیاں‘۔ میں نے کہا کہ وہ تو باؤلا تھا۔ آپ نے اس کی کہانیوں کا ترجمہ کیوں کیا۔ میں نے سوچا کہ کہاں سانحہ کربلا کے دکھوں کی داستانوں میں کھویا ہوا شخص اور کہاں یہ جدید کہلائی جانے والی بے سروپا کہانیاں، نیّر بھائی کس علاقے میں جا پہنچے؟ مجھے بعد میں احساس ہوا کہ وہ لکھنو کے ماحول میں ڈوبی ہوئی جدید طرز کی کہانیاں لکھنے کا ڈول ڈال چکے تھے۔ اس کے بعد تو اﷲ دے اور بندہ لے، انہوں نے ایسی ایسی کہانیاں لکھیں کہ اردو فکشن ان پر سدا ناز کرے گا۔ ان کی کتابیں پاکستان میں دستیاب نہیں تھیں۔ میں نے اپنا پورا ذخیرہ لاہور کے ایک ناشرکے حوالے کرکے رائے دی کہ یہ کتابیں لاہور سے بھی شائع ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنف سے اجازت لینی ہوگی۔ مگر نیّر مسعود پر فالج کا ایسا شدید حملہ ہو چکا تھا کہ وہ بستر سے لگ گئے اور ٹیلی فون پر بات کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔ میں نے ان کی بیگم سے بات کی جو ہر وقت کے معمول کے مطابق ان کے سرہانے بیٹھی تھیں۔ میں نے ان سے کہا کہ لاہور کے ناشر ان کی کتابیں چھاپنا چاہتے ہیں، لیکن پہلے ان کی منظوری لینی ہوگی۔ میں نے فو ن پر سنا۔ بیگم نے ان کو پوری بات سمجھا کر پوچھا کہ آپ کی اجازت ہے؟نیر بھائی کا ہاں کہنا مجھے سنائی دیا۔ تین برسوں میں ان کی زبان سے یہ واحد لفظ تھا جو میں نے سنا۔ اس کے بعد سنّاٹا چھا گیا۔پھر عجب واقعہ ہوا۔ شوال کی انتیس تاریخ کو میر انیس کی برسی تھی۔ نیّر مسعود نے بھی عالم بالا کو سدھارنے کے لئے وہی تاریخ چنی۔ جدید کہانی کا وہی قدیم اختتام۔

تازہ ترین