• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ میں وزیراعظم نوازشریف اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف آرٹیکلز 62اور 63کے تحت مقدمات میں بے شمار مماثلتیں ہیں۔ دونوں کیسوں میں انہی آئینی شقوں کے مطابق نااہلی کی التجا کی گئی ہے۔ یہ مقدمات آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کئے گئے ہیں۔ دونوں کیسوں میں بنیادی طور پر آف شور کمپنیوں کا مسئلہ ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ دونوں حضرات نے منی ٹریل مکمل نہیں دی۔ سوال یہ ہے کہ پیسے کہاں سے آئے اور بنی گالہ میں زمین کیسے خریدی گئی؟ اگر شریف فیملی نے دو قطری خطوط لندن فلیٹس کی خریداری کیلئے رقم کی فراہمی کے ثبوت کے طور پر پیش کئے تو عمران خان نے بھی اپنے ایک دوست اور ایک سابق کرکٹ اہلکار کا خط پیش کر دیا۔ شریف فیملی کے چار فلیٹوں کا مسئلہ ہے جبکہ عمران کے ایک فلیٹ کا۔ دونوں مقدمات میں عدالت کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات میں شک ظاہر کیا گیا ہے کہ غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی گئی رقومات کو استعمال کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے شریف فیملی سے 13سوالات کئے جبکہ عمران خان سے 14سوالات کئے۔ ابھی تک دونوں عدالت عظمیٰ کو منی ٹریل کے بارے میں مطمئن کرنے سے قاصر ہیں۔ اس طرح دونوں کیسوں میں مماثلتیں ہی مماثلتیں ہیں لہذا عمران خان کا اس تقابل پر طیش میں آنا بے جا ہے۔ انہیں اب اندازہ ہو رہا ہے کہ تلاشی دینا کتنا کربناک ہوتا ہے اور ان کا یہ کرب ابھی مزید بڑھے گا جوں جوں عدالت میں ان کے خلاف دائر کی گئی نون لیگ کے رہنما حنیف عباسی کی درخواست پر مزید کارروائی ہوگی۔ دوسروں کی تلاشی کا مطالبہ کرنا بڑا آسان ہے مگر خود تلاشی دینا کتنا تکلیف دہ ہے۔ شاید ہی کوئی بندہ پاکستان میں موجود ہو جو پچھلے چالیس پچاس سال کے مالی معاملات کا حساب دے سکے اور یہی مسئلہ وزیراعظم اور عمران خان کو درپیش ہے۔ جس تکلیف کا ابھی چیئرمین پی ٹی آئی کو سامنا ہے اس کا جال انہوں نے خود ہی بچھایا جب انہوں نے نوازشریف کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔ شریف فیملی کی آف شور کمپنیاں تو پاناما پیپرز میں ظاہر ہو گئیں اور اس نے فوراً اس کی ملکیت کو تسلیم کر لیا۔ اس وقت عمران خان نے بے انتہا بلندی پر اڑ ناشروع کر دیا کہ اب تو وزیراعظم پھنس ہی گئے اور نہیں بچ پائیں گے۔ انہوں نے اس وقت کہا کہ آف شور کمپنیاں چوری کا پیسہ اور ٹیکس چھپانے کیلئے بنائی جاتی ہیں مگر جب ان کی اپنی، ان کے دست راست جہانگیر ترین اور علیم خان کی آف شور کمپنیاں سامنے آئیں تو انہوں نے ایسی فرموں کا دفاع شروع کر دیا مگر وہ اپنا ہی اصول بھول گئے کہ کپتان ہمیشہ ’’سچ‘‘ بولتا ہے مگر اس بار وہ ’’سچ‘‘ کے ہاتھوں ہی پٹ گئے۔
یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک نامکمل منی ٹریل تو حلال ہے جبکہ مخالف کی نامکمل منی ٹریل حرام ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اپنی آف شور کمپنی تو حلال ہے مگر دوسرے کی حرام ۔ یہ نہیں مانا جاسکتا کہ منی ٹریل کیلئے پیش کئے جانے والے اپنے قابل اعتراض ذرائع تو حلال ہیں مگر دوسرے کے حرام۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ان الزامات پر مخالف کی نااہلی حلال ہے اور اپنی نااہلی حرام ہے۔ یہ نہیں مانا جاسکتا کہ جب آپ کا مخالف اپنے بچوں کو گفٹ کرے تو وہ حرام ہے مگر جب آپ کی اپنی سابقہ بیوی گفٹ کرے تو وہ حلال ہے۔ پرکھنے کا معیار ایک ہی ہونا ہے بالکل ایسے سیاستدان کیلئے جنہوں نے پچھلے چار سالوں سے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے کہ وہ دنیا میں سب سے بڑے صادق اور امین ہیں اور باقی سب چور ہیں۔ایسی شخصیت کیلئے تو اسٹینڈرز مزید سخت ہونے چاہئیں تاکہ وہ دوسروں کیلئے نمونہ بن سکیں۔ ’’گنہگاروں‘‘ کی غلطیاں تو درگزر کی جاسکتی ہیں مگر ’’پارسا‘‘ کی نہیں۔ یہ دلیل انتہائی بودی ہے کہ جب عمران خان نے 1983ء میں آف شور کمپنی بنائی تو ان کے پاس کوئی عوامی عہدہ نہیں تھا۔ اتنے بلند ترین پڈسٹل پر کھڑے ہو کر ہر روز کرپشن کے خلاف واعظ کرنا اور چوروں اور لٹیروں کو کڑی سے کڑی سزا دینے کے اعلانات کرنے والے کو ایسی دلیل قطعی طور پر زیب نہیں دیتی ۔ایسے شخص کو تو ایسی تلاشی کو خوش آمدید کہنا چاہئے تاکہ وہ دنیا کو دکھائے کہ جس ایمانداری کا وہ ڈھنڈورہ سالہاسال سے پیٹ رہے ہیں اس پر خود ان کی اپنی ذات پوری اترتی ہے۔ تاہم جس طرح کا ری ایکشن شریف فیملی اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کے دوران دیتی رہی عمران خان کا ردعمل اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اب تو ٹرائل ان کا ہو رہا ہے۔ ڈبل اسٹینڈرز کی ایک اور مثال یہ ہے کہ جب کچھ سال قبل عمران خان پر بہت سنگین الزامات جو ان کی شادیوں کے بارے میں تھے لگے تو انہوں نے بار بار یہ کہا کہ آرٹیکلز 62اور 63بیکار ہیں اور انہیں آئین کا حصہ نہیں ہونا چاہئے۔ سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی نے صحیح کہا ہے کہ صرف پیغمبر ہی ان آئینی شقوں پر پورا اتر سکتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے یہ آرٹیکلز اپنے مخصوص ایجنڈے کے مطابق آئین میں ڈالے تھے تاکہ جس کو چاہا ان کے سہارے سیاست کے میدان سے باہر پھینک ڈالا۔ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے ان شقوں کی بنیاد پر شاید ہی کبھی کسی پبلک آفس ہولڈرکو نااہل کیا ہو۔ اگر سپریم کورٹ ان دو کیسوں میں وزیراعظم یا عمران خان یا دونوںکو آرٹیکلز 62اور 63کے تحت ڈس کوالیفائی کرتی ہے تو یہ انتہائی منفرد فیصلہ ہو گا۔
اب چلتے ہیں جہانگیر ترین کے مقدمے کی طرف۔ حنیف عباسی نے عمران خان کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف بھی درخواست دی ہے ۔عدالت عظمیٰ نے ان سے بھی پانچ سوالات کئے ہیں۔ آف شور کمپنی کب کیسے اور کتنے میں بنائی، مالک کون ہے، ملک سے باہر رقم کیسے گئی اور بچوں کو تحفے میں کتنی بار پیسے بھیجے۔ ان کے اور شریف فیملی کے مقدموں میں بھی ایسی ہی مماثلتیں ہیں جیسی کہ نوازشریف اور عمران خان کے کیسوں میں ہیں بلکہ جہانگیر ترین تو اپنے بچوں کو تحفے دینے اور ان سے رقوم واپس لینے میں وزیراعظم سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے۔ جہانگیر ترین نے بھی اپنی آف شور کمپنی چھپائی جس کو دی نیوز نے آشکار کیا تھا اس کے بعد عمران خان کی طرح انہوں نے بھی اس کی ملکیت یہ کہہ کر مان لی کہ یہ ان کے بچوں کی ہے۔ پی ٹی آئی کے بہت سے رہنمائوں کی طرح جہانگیر ترین بھی اپنی پارسائی کے بلند بانگ دعوے کئی سالوں سے کر رہے ہیں مگر اب وہ بھی صرف اس وجہ سے قابو آگئے ہیں کہ وہ عمران خان کی سربراہی میں ایسے گروہ میں شامل ہیں جن کا کام اقتدار کے حصول کیلئے صرف اور صرف اپنے مخالفین پر کیچڑ اچھالنا ہے اور الزامات کی بارش کرتے رہنا ہے۔ ا نکی تلاشی بھی اس وقت بڑی سخت ہو رہی ہے اور ان کے بہت سارے کاروباری معاملات بشمول قرضہ کی معافی اور ایس ای سی پی کو جرمانہ کی ادائیگی کو دیکھا جارہا ہے۔ بالآخر وزیراعظم ، عمران خان اور جہانگیر ترین کے ساتھ کیا ہوتا ہے یہ تو عدالت جانے مگر پی ٹی آئی نے یہ غلط روایت ڈال دی ہے کہ سیاست میں ناکامی کے بعد مخالفین کو عدالتوں کے ذریعے ناک آئوٹ کرانے کیلئے پٹیشنیں دائرکی جائیں۔ سیاست دان مرتا اس وقت ہے جب اسے عوام مسترد کر دیں اس کی سیاسی موت عدالتی فیصلوں کی وجہ سے نہیں ہوتی۔ پی ٹی آئی کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی۔ اب تو ویسے بھی اس نے بہت دیر کر دی ہے۔جو جال اس نے اپنے مخالفین کیلئے بچھایا تھا اس میں وہ خود ہی پھنس گئی ہے اور اس میں وہ بچتی ہے یا نہیں یہ وقت ہی بتائے گا۔

تازہ ترین