• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے دو تین ماہ پہلے تین‘ چار کالم میں سندھ کے مختلف علاقوں میں گھروں سے ’’نامعلوم لوگوں‘‘ کی طرف سے اٹھائے جانے والے سندھی قوم پرستوں کی تفصیلات دی تھیں ‘میں نے اس سلسلے میں ایسے قوم پرستوں کی کئی لمبی فہرستیں شائع کی تھیں اور یہ بھی بتایاتھا کہ ان میں سے کئی اس وقت تک غائب تھے۔ ان قوم پرستوں کے نام بھی دیئے تھے جو کچھ عرصے کے بعد اپنے گھروں کو واپس آئے مگروہ اس سلسلے میں کچھ بھی بتانے کیلئے تیار نہ تھے کہ ان کو کن عناصر نےاٹھایا تھا۔ میں نے ان کے بھی نام دیئے تھے جن کی کچلی ہوئی لاشیں نیشنل ہائی وے یا دیگر جگہوں سے ملی تھیں ‘مگر افسوس سے کہناپڑتاہے کہ نہ یہ سلسلہ اب تک رک سکاہے اورنہ کسی حکومت ‘ ادارے یااتھارٹی نے اس سلسلے میں اپنا منہ کھولا ہے کہ ان قوم پرستوں کو کون اٹھارہاہے اور کیوں اٹھایاجارہاہے۔ یہ بھی نہیں کہ سندھ میں کوئی مسلح جدوجہد ہورہی ہے جس کی پاداش میں ایسا ظالمانہ‘آئین دشمن‘ قانون دشمن اور انسانیت دشمن آپریشن اس طرح خفیہ طریقے سے جاری ہے ۔یہ بات ضرور ہے کہ جب پنجاب میں ایسے کچھ کارکنوں کو ’’نامعلوم افراد‘‘ کی طرف سے گھروں سے اٹھایاگیا تو پاکستان کے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس کانوٹس لیا اور بیان جاری کیا اوراحکامات جاری کئے کہ ان اٹھائے گئے سیاسی کارکنوں کو ظاہر کیاجائے ‘بعد کی اطلاعات کے مطابق ‘ان میں سے ایک ‘ دو لاپتہ سیاسی کارکن ‘ اپنے گھروں کو لوٹ آئے تھے حالانکہ وزیر داخلہ نےکبھی سندھ سے اس طرح لاپتہ کئے جانے والے قوم پرست کارکنوں کی گمشدگی کانوٹس نہیں لیا مگرپھر بھی پنجاب کے سیاسی کارکنوں کی گمشدگی کانوٹس لینے پر سندھ کے لوگوں نے مرکزی وزیر داخلہ کی اس کارروائی کا خیر مقدم کیا تھاخود میں نے اپنے کالم میں بھی مرکزی وزیرداخلہ کی تعریف کی تھی۔ مگرسندھ کے عوام میں اب اس سلسلے میں تشویش بڑھتی جارہی ہے کہ آخر ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں؟سندھ کے عوام سوال کرتے ہیں کہ نہ سندھ حکومت اس بات کانوٹس لیتی ہے نہ سندھ اسمبلی اس ایشو کو بحث کے لئے آگے لاتی ہے ۔وفاقی حکومت کاتو ایسا محسوس ہوتاہے کہ سندھ کے عوام کے ساتھ ان کاکوئی سروکار نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اس سلسلے میں ضروری وضاحت کرکے سندھ کے عوام میں پیداہونے والی تشویش کا تدارک کرسکتی ہے ۔ سندھ کے لوگ سوچ رہے ہیں کہ آخر وہ جائیںتو جائیں کہاں ۔ میں پاکستان کے ایک شہری کی حیثیت سے فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف سے اپیل کروں گا کہ خدارا سندھ میں پیدا کی جانے والی اس صورتحال کانوٹس لیں اوربتایا جائے کہ اس میں اسٹیبلشمنٹ سے منسلک ایجنسیاں ملوث نہیں ہیں ۔اگرواقعی ہیں تو بتایاجائے کہ ان کے خلاف یہ کارروائی کیوں کی جارہی ہے اوراگر کچھ عناصر کسی طورپر بھی ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں توان کو عدالتوں میں پیش کرکے ان کے خلاف عدالتی کارروائی کے ذریعے قانون کے مطابق فیصلے کئے جائیں مگر افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ ابھی تک ایسا نہیں کیاگیا اورنہ کوئی آثار نظرآتے ہیں ۔میں ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ سندھ کے عوام پاکستان کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ سندھ اسمبلی میں اتفاق رائے سے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کئے جانے کے بعد پاکستان بننے کی بنیاد پڑی۔ کوئی مانے نہ مانے سندھ کے عوام سندھ کو پاکستان کی ماں تصور کرتے ہیں اور اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیںمگر یہ سلسلہ نہ رکنے کی وجہ سے سندھ کے عوام میں غم وغصہ بڑھتا جارہاہے اور اب سندھ کے سیاسی کارکن اس آپریشن کو بندکرانے کے لئے باہرنکل آئے ہیں۔ پہلے تو یہ سیاسی کارکن چھوٹے چھوٹے گائوں اور شہروں میں آپریشن کے خلاف چھوٹی چھوٹی ریلیاں نکال رہے تھے مگر اب وہ بڑی بڑی ریلیوں میں سندھ کے بڑے شہروں مثلاً حیدرآباد اور کراچی میں احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں۔ میں ان ریلیوں کی تفصیل دینے سے پہلے مختلف علاقوں سے گمشدہ کچھ مزید قوم پرست کارکنوں کا ذکر کروں گا۔ ساتھ ہی مختلف اہم اداروں کی طرف سے اس صورتحال کانوٹس لینے اور احتجاج کرنے اوراس سلسلے میں سب سے پہلے اس ایشو پر سینیٹ کے اجلاس میں کی گئی بحث کاذکر کروںگا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق منگل 18جولائی 2017ء کو سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹروں نے موقف اختیار کیا کہ کچھ ایجنسیاں لوگوں کواٹھاکر گم کررہی ہیں لہٰذا ان سینیٹروں نے مطالبہ کیا کہ سارے ادارے پارلیمنٹ کے ماتحت کئے جائیں۔ اس سلسلے میں پی پی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ لوگوں کی گمشدگی کے بارے میں بعض سیکورٹی ایجنسیوں پر الزام لگ رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ان ایجنسیوں کو قانون کے تابع کرنے کے لئے کہاہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سینیٹ ان ایجنسیوں کو پارلیمنٹ کے ماتحت کرنے کے لئے بل پاس کرے۔ انہوں نے کہا کہ جن اختیارات کے تحت یہ ایجنسیاں کام کررہی ہیں وہ اختیار تو پارلیمنٹ کو بھی نہیں دیئے گئے اس مرحلے پر وزیرمملکت محکمہ داخلہ انجینئر بلیغ الرحمان نے کہا کہ کسی ادارے کو قانون سے بالاکام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ انہوںنے کہا کہ ضروری نہیں کہ ملک میں لوگوں کی گمشدگی کا ایک ہی سبب ہواوردعویٰ کیا کہ ملک میں دہشت گردی کم ہوگئی ہے ۔اب میں برطانوی نشریاتی ادارے کی طرف سے سندھ کے اندر ’’نامعلوم عناصر‘‘ کی طرف سے قوم پرست کارکنوں کی بڑھتی ہوئی گمشدگیوں کاذکر کررہا ہوں۔نشریاتی ادارے نے کہا ہے کہ اس صورتحال کے خلاف سندھ بھر میں غم اورغصے کی لہر بڑھتی جارہی ہے اور انتباہ کیا کہ اگر اس صورتحال کا تدارک نہ کیاگیا تو سندھ کے عوام نہ رکنے والے احتجاجوں کا سلسلہ شروع کرسکتے ہیں۔
نشریاتی ادارےنے اس سلسلے میں گمشدہ قوم پرستوں کے اعداد وشمار بھی نشر کئے۔ اسی دوران 15جولائی کو سندھ ہیومن رائٹس‘ قوم پرست تنظیموں اور وائس آف مسنگ پرنسز آرگنائزیشن نے مشترکہ طورپر حیدرآبادسے پیدل مارچ شروع کیا جودوسرے دن کراچی پریس کلب پر ختم ہوا۔ ان کارکنوں نے کراچی پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا اوراعلان کیاکہ اس ایشو پر 29جولائی کو ایک کانفرنس منعقد کی جائے گی اس پیدل قافلے میں خواتین اور چھوٹی بچیاں بھی تھیں یہ قافلہ جب کراچی پریس کلب پہنچا تو سینکڑوں لوگ ان کا خیر مقدم کرنے کے لئے وہاں پہنچ گئے۔ ان کواجرکیں پہنا کر، پھولوں کی بارش اور زبردست نعرے بازی بھی کی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مارچ سے بھی 11کارکنوں کو کسی طرح قبضے میں لیکر غائب کردیاگیا اس طرح اب تک سندھ میں گم شدہ قوم پرست کارکنوں کی تعداد 61بتائی جاتی ہے۔ قوم پرست رہنمائوںمیر عالم مری‘ قمر بھٹی‘ نغمہ ا قتدار، معشوق چانڈیو، ودیگر نے خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا کہ گم کئے جانے والے کارکنوں پر تشدد کیا جا رہا ہے مگر کو ئی بھی آواز اٹھانے والا نہیں ہے۔ انہوں نے شکایت کی کہ ان قوم پرست کارکنوں کو لاپتہ کرنے والے ادارے ان کی گمشدگی کی وجہ بھی نہیں بتارہے ۔

تازہ ترین