• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور فیروزپور روڈ پرواقع سبزی منڈی میں دہشت گردوں کی حالیہ سفاکانہ کارروائی نے پوری قوم کو غمزدہ کردیا ہے۔ لاہور میں 5ماہ 8دن کے بعد ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کا بڑا واقعہ رونما ہوا ہے۔ 2009سے لے کر اب تک دہشت گردی کے 20بڑے واقعات صوبائی دارالحکومت میں ہوچکے ہیں۔ جن میں سینکڑوں افراد لقمہ اجل بنے اور ان گنت افراد زخمی بھی ہوئے۔ دکھائی یہ دیتا ہے کہ دھماکے کا اصل ٹارگٹ پولیس اہلکار تھے اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کا مقصد درحقیقت ملکی دفاع کو کمزور کرنا تھا۔ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے پیچھے ہندوستان کی را، اسرائیلی موساد اور امریکن سی آئی اے موجود ہے جو پاکستان کی سلامتی کے خلاف گٹھ جوڑ کرچکی ہیں۔ حکومت کو ان ملک دشمن قوتوں کے خلاف سخت ترین اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس سے قبل بھی مال روڈ لاہور پر بم دھماکے میں پولیس افسران کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس دھماکے میں 9پولیس اہلکار بھی شہید ہوئے۔ اگرچہ وزیراعظم نوازشریف، آرمی چیف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت تمام سیاسی قیادت نے لاہور دھماکے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے شہید و زخمی ہونے والے افراد کے لواحقین سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت ایسی پالیسیاں مرتب کرے جو حقیقی معنوں میں ملک وقوم کے مفاد میں ہوں۔ قانون نافذ کرنے والے عسکری اداروں کی کاوشوں سے ملک میں امن وامان کی صورتحال خاصی بہتر ہوئی ہے مگر ابھی اس سلسلے میں مزید اقدامات کئے جانے چاہئیں تاکہ دہشت گردی پر مکمل طور پر قابو پایا جاسکے۔ آرمی پبلک اسکول پشاور کے روح فرسا واقعہ کے بعد بم دھماکوں کے واقعات پورے ملک میں آئے روز تسلسل سے ہورہے تھے۔ اس میں یقیناً بڑی حد تک کمی آچکی ہے۔ اب مہینوں بعد ایسے واقعات پیش آرہے ہیں۔ یہ تسلی بخش صورتحال نہیں ہے۔ اگرچہ پنجاب حکومت کی جانب سے بھی لاہور کو سیف سٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔ جگہ جگہ پر سیکورٹی کیمرے بھی لگائے گئے ہیں مگر اس کے باوجود لاہور میں دہشت گردی کا واقعہ ہونا لمحہ فکریہ اور افسوس ناک امر ہے۔ نیکٹا نے لاہور میں دھماکوں کے خطرے کے بارے میں پیشگی آگاہ کردیا تھا مگر بدقسمتی سے شہر لاہور میں سیکورٹی انتظامات کا فقدان قیمتی جانوں کے ضیاع کا باعث بنا ہے۔ صوبائی وزیرقانون رانا ثناء اللہ نے بھی شبہ ظاہر کیا ہے کہ لاہور سبزی منڈی میں ہونے والا دھماکہ ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کاردعمل بھی ہوسکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مال روڈ اور گلشن پارک میں ہونے والے دھماکوں میں کوئی مقامی سہولت کار ملوث نہ تھا۔ ملک دشمن قوتوں کو سرحد پار سے سرپرستی حاصل ہے۔ لاہورکی سبزی منڈی میں جس جگہ یہ دھماکہ ہوا ہے وہ ایک انتہائی اہم علاقہ ہے۔ یہاں قریب میں ارفع کریم آئی ٹی سینٹر ہے اور وزیراعظم نواز شریف کی ماڈل ٹائون والی رہائش گاہ بھی چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ تادم تحریر اس افسوسناک واقعہ میں 26افراد کے شہید ہونے اور 60لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ آج کل سبزی منڈی میں تجاوزات کے خاتمے کی مہم چل رہی ہے اس لئے وہاں پولیس اہلکاروں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت کی طرف سے لاہور کو سیف سٹی بنانے کے بلندوبانگ دعوے تو کئے گئے مگر اس کے باوجود سبزی منڈی کا دھماکہ کیسے ہوگیا؟ کیا ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے سیکورٹی کے قبل ازوقت اقدامات کرکے اس افسوسناک واقعہ کو روک نہیں سکتے تھے؟ ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ جب تک پورے ملک سے دہشت گردوں کے بیرونی نیٹ ورک کو ختم نہیں کیا جائے گا تب تک امن وامان کی مکمل بحالی نہیں ہوسکے گی۔ جنوبی ایشیا میں ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ امریکہ، بھارت اور یورپی ممالک نے پاکستان کو اپنا اصل ٹارگٹ بنالیا ہے کیونکہ پاکستان امریکی کیمپ سے نکل کر چین کے کیمپ میں جاچکا ہے اور اب روس، ترکی، ایران، سعودی عرب اور دیگر ایشیائی ممالک بھی سی پیک کی وجہ سے پاکستان اور چین کے قریب آرہے ہیں۔ اس لئے امریکہ اور بھارت اس صورتحال سے کافی حد تک خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ بھارت اور افغانستان کی کھلم کھلا پشت پناہی کررہا ہے۔ دراصل وہ چین کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔ چین دنیا کی معاشی سپرپاور بن چکا ہے۔ اب امریکہ اپنے زوال کی طرف سفر کررہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر چین پاکستان کے ساتھ مل کر اقتصادی راہداری کی تکمیل کرلیتا ہے تو ایشیا ترقی کرجائے گا اور امریکہ کا ایشیائی ممالک پر اثرونفوذ ختم ہوجائے گا۔ بھارت کی سرپرستی بھی امریکہ اپنے مفادات کے لئے کررہا ہے۔ اس وقت ہندوستان چاروں طرف سے پاکستان پر حملہ آور ہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ پاکستانی سرحدوں پر بھی بھارتی جارحیت جاری ہے۔ اسی طرح افغان انٹیلی جنس کے ساتھ مل کر افغان سرزمین سے بھی بھارت پاکستان میں دہشت گردی کروارہا ہے۔ ماضی میں لاہور سمیت ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردی میں انڈیا کے ملوث ہونے کے ثبوت پاکستان اقوام متحدہ اور امریکی حکام کو دے چکا ہے۔ مگر تعجب خیز امر یہ ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک ٹس سے مس نہیں ہور ہے اور وہ بھارت کی سرپرستی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی افغانستان میں تعینات امریکی کمانڈر جان ڈبلیو نکوسن سے جی ایچ کیو میں ہونے والی ملاقات میں بھارت سے متعلق پاکستان کے تحفظات سے انہیں آگاہ کردیا ہے۔ پاکستانی آرمی چیف نے واضح انداز میں کہہ دیا ہے کہ پاکستان کے کردار کو داغدار کرنے کے لئے افغانستان اور امریکہ کی الزام تراشیاں محض اتفاق نہیں ہیں۔ اشتعال انگیزی کے باوجود پاکستان جنوبی ایشیا میں اپنا مثبت کردار جاری رکھے گا۔ 2003میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کنٹرول لائن پر سیزفائر معاہدہ ہواتھا۔ بھارت اس معاہدے کی دھجیاں اڑاچکا ہے۔گزشتہ چند روز میں بھارت کئی مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کرچکا ہے۔ حکومت پاکستان نے کنٹرول لائن پر ہندوستان کی جانب سے مسلسل سیزفائر کی خلاف ورزیوں کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کرکے اس معاملے پر شدید احتجاج بھی کیا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ امریکہ نے بھارتی جارحیت پر اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اور وہ الٹا پاکستان سے’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے خود ساختہ واقعہ کے بعد امریکہ نے افغانستان پر 14سال تک قبضہ کمائے رکھا۔ پاکستان کو بھی چاروناچار اس امریکی جنگ میں شریک کرایا گیا۔ لاجسٹک سپورٹ کے نام پر دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے کا ایک ایسا دروازہ کھولا گیا جو کہ بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ قصہ مختصر! اس وقت منظرنامہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اس قدر کشیدہ ہوچکے ہیں کہ بھارت اس صورتحال سے خوب فائدہ اٹھا رہا ہے۔ امریکہ بھی ہزاروں میل دور بیٹھ کر ہماری بے بسی اور لاچاری کا تماشا دیکھ رہا ہے۔ آج ہمیں اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ افغانستان کے خلاف امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ افغانستان ہمارا برادر ملک ہے۔ ہمارے افغان بھائیوں سے دیرینہ دینی، معاشرتی اور ثقافتی روابط ہیں۔ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی لڑی میں جڑے ہوئے ہیں لیکن امریکی پالیسیوں پر عملدرآمد کرکے ہم نے افغانستان اور ایران دونوں کو اپنا حریف بنالیا ہے۔ ایران وہ برادر ہمسایہ ملک ہے کہ جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ایران سے بھی ہمارے فاصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ یہ سب کچھ امریکہ کا کیا دھرا ہے۔ ہمیں اب امریکی مفادات کے چنگل سے نکل آنا چاہئے۔ ایک وقت میں دو کشتیوں کا سوار ہوکر ہمیں سخت نقصان پہنچ سکتا ہے۔

تازہ ترین