• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بہت پرانی بات ہے غالباََ اپریل 1979ء کی کوئی تاریخ تھی۔ بھٹو صاحب کی سزائے موت کو ابھی کچھ دن ہی ہوئے تھے ۔ پورے ملک میں اس پھانسی کے خلاف ہنگامے جاری تھے ۔ میں اس زمانے میں میڈیکل کالج کا طالبعلم تھا۔ لاہور جنرل اسپتال کے باہر چائے کے ایک کھوکھے پر۔ جہاں ایک شخص بلند آواز میں اخبار پڑھ کر دوسروں کو سنا رہا تھا۔ جنرل ضیاء نے عوام سے کہا تھا کہ ’’ بھٹو ایک قاتل تھاجسے اس کے جرم کی سزا مل چکی اور امید ظاہر کی کہ عوام اسے بہت جلد بھول جائیں گے‘‘ یہ سنتے ہی وہاں موجود ایک بوڑھا دیہاتی اپنی جگہ سے اٹھا اور چلاتے ہوئے کہنے لگا’’جنرل ضیاء یہ تمہاری بھول ہے ! میں وہ دن دیکھنے کے لیے شاید زندہ نہ رہوں لیکن میرے بچے ضرور دیکھیں گے کہ بھٹو ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے گا ۔ اور تم تو کیا تمہارے کسی ساتھی کا بھی انجام اچھا نہ ہوگا‘‘۔ یہ وہ وقت تھا جب بھٹو کے خلاف کردار کشی کی مہم اپنے عروج پر تھی۔ اور اس میں آج کے بڑے نامور صحافی بھی شامل تھے۔ جوا ب جمہوریت کے سب سے بڑے چیمپئن بنے پھرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے قلم کی سیاہی سے بھٹو کے خلاف ایسی زبان استعمال کی کہ اس کے مسلمان ہونے تک کو مشکوک بنادیا۔ اسے ’’گھاسی رام‘‘ تک کہا گیا۔ اسکی والدہ ، بیوی اور بیٹی کے بارے میں نازیبا کلمات کہے گئے ۔ اسے قاتل ، نام کا مسلمان اور عادی دروغ گو قرار دیا گیا۔ اس کی تصویر کو چھاپنا ’’ جرم ‘‘ اور اس کی حمایت کو ’’وطن دشمنی‘‘بنا دیا گیا جس کی کم از کم سزا دس کوڑے ، پچاس ہزار روپے جرمانہ اور ایک سال قید ِ بامشقت تھی۔ اسی جرم میں کئی بیگناہوں کو سزائے موت اور ہزاروں کو قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ کئی خاندان اس ظلم کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوگئے۔ ہر طرف ضیاء کے مراعات یافتہ اس کی جے جے کار کر رہے تھے اور اسے عظیم محب ِ وطن اور ’’ اسلام کا سپاہی ‘‘قرار دے کر اس کے مشن کی تکمیل کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کا عہد دہرارہے تھے ۔ ان میں فوجی جرنیل ، بیوروکریٹ، مذہبی علماء ، جج اور نواز شریف جیسے سیاسی نو آموز بھی شامل تھے ۔ اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان کے ہر سیاہ سفید کا مالک جنرل ضیا اور اس کا ہر قابل ِ ذکر ساتھی گمنامی اور بدنامی کی دھند میںکھو جائے گا۔ پھر وقت نے کروٹ لی اور ’’مکافاتِ عمل ‘‘ نے قدرت کے انصاف کا دروازہ کھول دیا۔ اور جنرل اسپتال کے باہر کھوکھے پر آبدیدہ بزرگ کی پیشن گوئی نے حقیقت کا روپ دھار نا شروع کر دیا ۔جس نے مجھے قدرت کے غیر مرئی دستِ انصاف کا قائل کردیا ہے کہ تاریخ کی عدالت کا فیصلہ گو دیر سے آتا ہے لیکن آتا ضرور ہے اور وہ ہر شخص کے ’’ انجام ‘‘ کی شکل میں ہوتا ہے۔ یہاں انجام سے مراد وہ عزّت یا ذلّت ہے جو ہمیشہ کے لیے اس شخص کا مقدر بن جاتی ہے کہ موت تو ہر ذی روح کا طبعی انجام ہے لیکن کچھ لوگ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں اور کچھ جیتے جی مر جاتے ہیں۔ ہماری موجودہ سیاسی تاریخ گزشتہ چالیس سالوں سے دو شخصیات کے گرد ہی گھوم رہی ہے ایک جنرل ضیاء اور دوسری ذوالفقار علی بھٹو کی۔ بھٹو کی براہِ راست سیاسی وراثت بے نظیر بھٹو شہید پر ختم ہوگئی تھی جبکہ جنرل ضیاء کی ڈائریکٹ سیاسی وراثت کی آخری نشانی موجودہ حکمران ہیں۔ جن کا انجام آج کل زیرِ بحث ہے۔ اس تمام عرصے کے دوران ضیاء اور بھٹو کے کیمپس میں جو کچھ ہوا وہی مکافاتِ عمل یا دونوں کے اچھا یا بُرا ہونے کا ثبوت ہے ۔ یہ ثابت ہوا کہ بھٹو کا مقدمہ ، انصاف اور انسانیت کا قتل تھا۔ دنیا کے تمام ماہرین ِ قانون نے اسے ’’عدالتی قتل‘‘ قرار دیا ۔ یہاں تک کہ پاکستانی عدالتوں میں بھی اس مقدمے کی نظیر (Presedence) نہیں دی جاتی ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس وقت کی حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود ’’ عوام ‘‘ نے بھٹو کو قاتل کی بجائے ’’ہیرو‘‘ قرار دیا اور انہیں جب بھی موقع ملا انہوں نے بھٹو کے نام پر ووٹ دئیے۔ عام لوگوں نے اپنے بچوں کے نام بھٹو کے نام پر رکھے حالانکہ بھٹو ایک نام نہیں ’’ذات‘‘ ہے۔ جبکہ جنرل ضیاء جب تک زندہ رہا وہ مردہ بھٹو سے بھی خوفزدہ رہا کہ بھٹو کی پارٹی کی فتح کے خوف سے اس نے غیر جماعتی انتخابات کروائے ۔ اور جب وہ دنیا سے رخصت ہوا تو وہ بھی عبرتناک منظر تھا۔ اس نے بھٹو کی اولاد اور ورثاء کو اس کی میّت کا چہرہ دیکھنے کی اجازت تک نہیں دی تھی لیکن اس کی موت کے بعد اس کے بچے اور ورثاء تو تھے لیکن چہرہ سلامت نہ تھا۔ اس سے پہلے بھٹو کے ’’عدالتی قتل‘‘ کے سب سے بڑے کردار لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کے جنازے پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کردیا تھا۔ بھٹو کو سزائے موت دینے والے ایک جج نسیم حسن شاہ نے تو خود بھی اس نا انصافی کے ’’جرم ‘‘ کا اعتراف کرلیا تھا۔رہا بھٹو کی آخری سیاسی وارث محترمہ بے نظیر بھٹو کا انجام ۔ تو وہ بھی یوں ہوا کہ آج اس کے سیاسی مخالفین بھی اس کا نام احترام سے لیتے ہیں۔ آج ملک کے دار الحکومت اسلام آباد میں واقع جنرل ضیاء کی قبر کی ویرانی اور گڑھی خدا بخش جیسے دور دراز کے پسماندہ گائوں میںبھٹو کے مزار پر دن رات عقیدت مند وں کا ہجوم اور قرآن خوانی دونوں شخصیات کے درمیان عوامی نفرت اور عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ضیاءکے سیاسی وارثوں نے بھی اس کا نام لینا چھوڑ دیا تھابلکہ آج کل تو وہ اپنے سیاسی مرشد کے بدترین دشمن ذوالفقار علی بھٹو کی تعریفیں بھی کر رہے ہیں۔ لیکن بیس سال تک ضیاء کی سیاسی وراثت کے دعویدار عوام، جمہوریت اور بھٹو کی سیاسی وراثت کے خلاف جو سازشیں کرتے رہے ہیں۔ کیا قدرت کا انصاف انہیں اس کی سزا دے گا یا معاف کر دے گا۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے ۔ اسی حوالے سے اس زمانے میں نے ایک نظم لکھی تھی’’ اک روز کٹہرا بولے گا‘‘جس میں کٹہرے کو تاریخ کی عدالت کا گواہ قرار دیا تھا۔ جس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتا ہے۔ اس کا آخری بند یوں تھا۔
جب پھر تاریخ نے عدل کیا
اس روز کٹہرا بولے گا
اس دور کا عیسیٰ کو ن بنا؟
سب راز پرانے کھولے گا
اکِ روز کٹہرا بولے گا
اب دیکھنا یہ ہے کہ چالیس سال پہلے جنرل اسپتال کے باہر چائے کے کھوکھے پر بیٹھے ہوئے بزرگ کی آبدیدہ آواز سے نکلی ہوئی پیشین گوئی پوری ہوتی ہے یا نہیں؟ اور کٹہرا کیا بولتا ہے؟

تازہ ترین