• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں ہماری سب سے بڑی ناکامی یہ رہی کہ ہم ترقی اور اصلاح کے کسی متفقہ راستے کا انتخاب نہ کر سکے ۔ ایک لمحے کے لئے سازش کی تھیوری کو ایک طرف رکھتے ہوئے فرض کرتے ہیں کہ اصلاح کے لئے جو راستے بھی اختیار کیے جارہے ہیں، اُن کے پیچھے درست نیت اور اچھا ارادہ کارفرما ہے ۔ لیکن کیا اچھی نیت کسی طرز عمل کو درست اور قابل ِ عمل بنا دیتی ہے ؟نظام میں بہتری لانے کے لئے ہنگامہ خیز وقتی اقدامات نے نہ تو ماضی میں کام دیا تھا اور نہ ہی مستقبل میں کام دیں گے ۔ محدود جمہوریت (controlled democracy) ایک بے معانی تصور ہے ۔
یہ دلیل بھی ایک جانا پہچانا بہانہ ہے کہ معاملات کو سدھارنے کے لئے کسی غیر معمولی (یا ماورائے آئین ؟) اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ معاملات انتہائی بگڑ چکے ہیں۔ اس دلیل کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ اُن تفاصیل کا کبھی جائزہ نہیں لیتی کہ ایک تعمیر کے لئے کیا کچھ تخریب کرنا پڑے گا۔سیاسی نظام کو تہہ وبالا کرنے کے نتائج پر سوچنے میں ناکامی کو اکثراوقات ’’مثالیت پسندی ‘‘ کا نام دیا جاتاہے۔مثالیت پسندی یہ ہے کہ آپ کسی اصول پر ڈٹ جائیں چاہے ا س پر عمل درآمد کتنا ہی مشکل اور صبر آزما کیوں نہ ہو۔ لیکن معجزات پر اندھا دھند انحصار کرنا مثالیت پسندی نہیں ۔
قوم کی آزادزندگی کے نصف عرصے پر محیط ایوب، ضیا اور مشرف کے براہ ِراست تسلط(بالواسطہ کی تو ابھی تاریخ لکھی جانی باقی ہے) اور اس کے نتیجے میں سراٹھانے والی خرابیوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس نتیجے پر پہنچ جانا چاہیے تھا کہ سیاست میں فوجی مداخلت کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی ۔ لیکن ہم نے نہ کوئی نتیجہ نکالا اور نہ کسی نتیجے پر پہنچے ۔ ہر چند کہ پاکستان کا آئین فوج پر سویلین کے کنٹرول کی بات کرتا ہے کہ خاکی وردی پوش ملک کو کسی مخصوص سمت چلانے کا ماسٹر پلان بنانے کے مجاز نہیں، لیکن اس کے بالکل برعکس، اُن سے توقع اسی بات کی رکھی جاتی ہے ۔ اس کے لئے جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ وردی پوش ہی کوئی پلان بنا کر اُس پر عمل درآمد کرانے کے اہل ہیں۔
ہمارا فرد ِ داحد پر مبنی نجات دہندہ کا ماڈل بھی اسی غیر معمولی تصور کی بنیاد پر پروان چڑھا ہے ۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران ہم نے ایسے بہت سے افراد کو دیکھا جنہیں قوم کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا گیا ۔ پہلے مشرف آئے، پھر افتخار چوہدری، اور پھر ہم نے ’’شکریہ راحیل شریف ‘‘ مہم دیکھی۔ اس کے بعد سیاسی میدان میں عمران خان کو نجات دہندہ سمجھا گیا ۔ یہ تمام نابغہ پیش کش کسی دلیل یا منطق کے بغیر تھی کہ آخر کس طرح ایک فرد پوری قوم کا مقدر سنوار سکتا ہے ؟ لیکن ہم عقل اور معقولیت سے دور، ایک جذباتی قوم ہیں۔ ہمارے ہاں اندھی پیروی کا نام وفاداری اور چشم پوشی کا نام خلوص ہے۔
فرد ِواحد یا کسی ایک ادارے کی طرف سے ہنگامی رستاخیز برپا کرکے بہتری لانے کا تصور بذات ِ خود مضحکہ خیز ہے ۔ کیا مشرف کے بدنام ِ زمانہ سات نکاتی ایجنڈے کا مقصد تمام چوروں کو تحفظ فراہم کرنا نہیں تھا ؟کہا گیا تھا کہ یونیفارم میں ملبوس ایک دلیر سپاہی ڈنڈے کے زور پر تمام معاملات درست کرسکتا ہے ، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ بحالی کے بعد افتخار چوہدری نے آرٹیکل 184(3) کا ڈنڈا اٹھا لیا ۔ اُس وقت ہر کوئی جوش سے وارفتہ تھا کہ سپریم کورٹ سو موٹو نوٹسز لیتے ہوئے تمام بیورو کریسی اور بگڑے ہوئے معاملات درست کردے گی ۔ ہم نے بدعنوانی کے اسکینڈل کی بھرمار دیکھی، بدعنوانی کے مرتکب افراد کی بے عزتی ہوتے دیکھی، سرکاری افسران کی گوشمالی کی گئی ، حتیٰ کہ ایگزیکٹو کی اتھارٹی میں بھی دراندازی ہوتے دیکھی ۔ لیکن جسٹس چوہدری کی قیادت میں سپریم کورٹ، جسے عوامی حمایت اور مقبولیت سمیت تمام اختیارات حاصل تھے، نظام کی بہتری تو درکنار، کوئی جوڈیشل ریفارم بھی نہ لاسکی ۔ اُس ہنگامہ خیز دور نے ملک کو کیا دیا؟کیا ہمارا سیاسی طبقہ اوپر سے لے کر گراس روٹ تک قانون کی حکمرانی کے تابع ہوگیا ؟ کیا ملک میں قانونی مساوات قائم ہوگئی ؟کیا ریاستی ادارے فعال ہوگئے ؟کیا جسٹس سسٹم کی اصلاح ہوگئی ؟
ہنگامی اقدامات کے بارے میںسمجھا جاتا ہے کہ اگر بڑے افراد کو سزا مل جائے تو نچلے طبقے پراس کا اثر پڑے گا۔ بہت معقول افرادبھی یہی سوچ رکھتے ہیں کہ اگر ’’کچھ چوروں ‘‘ کو سرعام لٹکا دیا جائے تو تمام ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہوجائے گی ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ایک سیاسی رہنما کو پھانسی دے دیں تو تمام سیاسی طبقہ سیدھا ہوجائے گا۔ تو کیا یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ اگر مداخلت کرنے والے ایک جنرل کو لٹکا دیا جائے تو سیاست میں فوجی مداخلت کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رک جائے گا؟کیا کوئی ایسی مثال موجود ہے کہ کسی ایک دہشت گرد کو پھانسی دینے سے ملک سے دہشت گردی ختم ہوگئی ہو؟
ہمارے آئین اور قانون کی حکمرانی کا تقاضا تھا کہ مشرف غداری کیس کا سامنا کرتے ۔ لیکن یہ سوچنا حماقت ہوگی کہ ایک غداری کیس، چاہے وہ کتنا ہی شفاف اور غیر جانبدار کیوں نہ ہو،کا فیصلہ ہمارے ہاں پائے جانے والے سول ملٹری عدم توازن کو دور کردے گا۔ ڈیٹرنس سے بڑھ کر جو چیز درکار ہے وہ اس حقیقت کی بتدریج تفہیم ہے کہ فوجی مداخلت ملک کے سیاسی مسائل کا حل نہیں اور نہ ہی اس راستے پر چل کرملک ترقی کرسکتا ہے ۔ اور یہ ادراک کسی ایک جنرل کو پھانسی پر لٹکانے سے نہیں آئے گا۔
اسی طرح ایک وزیر ِاعظم کو آرٹیکلز 62/63 کی من پسند تشریح سے چلتا کرنےسے ملک میں پھیلی ہوئی بدعنوانی کا سیلاب نہیں اتر جائے گا ۔ نواز شریف کو اثاثے چھپانے اور دیگر جرائم کی پاداش میں سزا ملنی چاہیے تھی ۔ کسی بھی سیاسی نظام میں قانونی اور سیاسی احتساب ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں، ایک دوسرے کا نعم البدل نہیں ہوتے ۔ نواز شریف کو سزا ملنے سے جمہوریت کا نقصان نہیں ہوگا، لیکن ایک وزیر ِاعظم کو کسی واضح قانونی طریق ِ کارکے بغیر گھر بھیجنے سے ملک میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوگی ۔ اور نہ ہی قانون کی حکمرانی کو جمہوریت کے مقابلے پر کھڑا کرنے سے ملک کا بھلا ہوگا۔
وزیر ِاعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کی پاداش میں سز ا ملنے سے ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ نہیں ہوگیا تھا اور نہ ہی اشرافیہ کے دل میں قانون کی حکمرانی کا خوف بیٹھا تھا ۔ یوسف رضا گیلانی کوعدالت کے واضح احکامات سے سرتابی پر ٹھیک سز ا ملی تھی لیکن یہ سمجھنا غلط ہے کہ ایسے کیسز ، جن کے وسیع تر سیاسی نتائج ہوں، عوامی اخلاق کی تطہیر کردیں گے ۔ جس طرح یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دینے سے قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوگئی تھی، اسی طرح نواز شریف کو چلتے کرنے سے بھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔طاقت کے ایک دھڑے کی تباہی سے دوسرا سیاسی دھڑا کسی طور پر سبق نہیں سیکھتا، بلکہ اُسے مزید شہ ملتی ہے ۔
نواز شریف کو آرٹیکل 62/63 کے تحت سزا دینے کی بھرپور وکالت اسی لئے کی گئی کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ہمارے جوڈٖیشل ٹرائل میں بری ہونا آسان ہے ۔ کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارا سسٹم طاقت ور کو سزا نہیں دے سکتا، اس کے لمبے ہاتھ صرف غریب اور کمزور افراد تک ہی پہنچتے ہیں؟اب جبکہ ہم نے نواز شریف کو گھر بھیج دیا ہے اور ہم کسی اورکو اس منصب پر بٹھا سکتے ہیں، اور یہ کام بہت آسان ہے۔ لیکن اداروں کی اصلاح دلدل میں تیرنے کے مترادف ہے ۔ اس کے لئے نجات دہندہ کے تصور سے باہر آکر نظام کو بتدریج مضبوط کرنا ہوگا۔

تازہ ترین