• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا ایک بار پھر سرد جنگ کے زمانے کی طرف پلٹتی محسوس ہورہی ہے۔ افغانستان میں ماسکو کی مسلح مداخلت، افغانوں کی مزاحمت اور امریکی سرمایہ کاری کے ذریعے دنیا بھر سے جنگجو ئوں کی خطے میں آمد کے بعد روسی معیشت پر پڑنے والا بوجھ سوویت فوجوں کی واپسی، سوویت یونین کے انہدام اور سرد جنگ کے خاتمے کا سبب بنا تھا۔ اس وقت ’’نیٹو‘‘ کے سیکرٹری جنرل نے اعلان کیا تھا کہ کمیونزم اور سوویت یونین کی شکست کے بعد اب ہمارا دشمن اسلام ہے۔ 11؍ستمبر 2001ء (نائن الیون) کو امریکہ میں رونما ہونے والے واقعات کے بعد صدر جارج ڈبلیو بش (جونیئر) نے دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ کا اعلان کرتے ہوئے اسے ’’کروسیڈ‘‘ کہا جبکہ صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے امریکہ کی عالمی مہم کے ہدف کا نام ’’ریڈیکل اسلامک ٹیررازم‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔ مگر چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت ،نیا بلاک ابھرنے کے امکانات اور ’’سی پیک‘‘ منصوبے کی پذیرائی کے بعد روس ، چین اور ان کے قریب آنے والے ملکوں کو گھیرنے کے لئے امریکہ نے جو اقدامات کئے ان میں عالمی تشویش کے کئی پہلو پنہاں ہیں۔ 28؍جولائی 2017ء کو امریکی سینٹ میں روس ، ایران اور شمالی کوریا پر پابندیوں کے بل کی بھاری اکثریت (2:98)سے منظوری کے بعد صدر ٹرمپ کیلئے اسے ویٹو کرنایا اپنے انتخابی اعلانات کے مطابق روس سے تعلقات بہتر بنانا انتہائی مشکل ہوچکا ہے۔ روس نے اس کے جواب میں امریکہ سے کہا ہے کہ وہ یکم ستمبر 2017ء تک روس میں تعینات امریکی سفارت کاروں کی تعداد گھٹا کر 455 کردے۔ یہ وہی تعداد ہے جو اوباما انتظامیہ کی طرف سے دسمبر 2016ء میں 35افراد کی انخلا کے حکم کے بعد روسی سفارتکاروں کی ہوچکی تھی مگر روس نے اس وقت بہتر تعلقات کی امید میں جوابی کارروائی سے گریز کیا تھا۔ اس منظرنامے کے پہلو بہ پہلو امریکی نیوی کے ایک کمانڈر کی طرف سے چین پر ایٹمی حملے کے امکان کا اظہار دنیا بھر میں امن کے حامیوں کی ایسی متحدہ فکری تحریک کا تقاضا کرتا ہے جو جنگ اور جارحیت کے خلاف عالمی رائے عامہ کو منظم کرسکے۔

تازہ ترین