• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ستر سال بیت چلے، بس یہی سرکس دیکھتے دیکھتے۔ جو منظر ایک اور وزیراعظم کی بے توقیر روانگی کا گزشتہ روز نظر آیا، یہ کتنی ہی بار دیکھ چکے۔ اب اس سے اتنی دلخراش اُکتاہٹ ہونے لگی ہے کہ سوچتا ہوں کہ ’’آخر ہمیں وزیراعظم چاہیے کیوں؟‘‘ منتخب کریں عوام، فارغ کرے کوئی اور جس کا رائے دہندگان کی منشاؤں سے کوئی واسطہ ہے نہ اُن کے فیصلے یا مینڈیٹ کا احترام۔ ہمارے سو لفظوں کی کہانی کے مصنف مبشر علی زیدی نے آزادئ جمہور کی جو مٹی پلید ہوتی رہی ہے، اس کی تاریخ کو کیا خوب کوزے میں قلم بند کر دیا ہے:’’کبھی قبضہ گروپ جیت جاتا ہے، کبھی ہتھوڑا گروپ۔ ووٹ والا ہمیشہ ہار جاتا ہے۔‘‘ ’’صداقت و امانت‘‘ کی اس ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ میں بھلا کب کوئی منتخب وزیراعظم حقیقی ارباب و اختیار کے معیار پہ پورا اُترا یا ٹھہر سکا ہے۔ آخر کوئی ایک وزیراعظم تو بھول چوک سے ان گروپوں کی عقابی نگاہوں سے صحیح سلامت بچ پاتا۔ نواز شریف تو اُن کا ہی بانکا تھا جسے بڑے ناز و نعم سے پیپلز پارٹی کے خلاف اُتارا گیا تھا، اور جنرل جیلانی، جنرل ضیا، جنرل بیگ اور جنرل حمید گل نے کونسے پاپڑ تھے جو نہیں پیلے تھے کہ وہ بے نظیر بھٹو کے جمہوری مارچ کو روک پائیں۔ جب تک نواز شریف اُن کا کھیل کھیل رہا تھا وہ اُن کی آنکھ کا تارا تھا۔ اُسے وزیراعظم بنانے کے لئے اسلامی جمہوری اتحاد کھڑا کیا گیا۔ اور جیسے کھڑا کیا گیا اُس کی شرمناک کہانی اصغر خاں کیس کی صورت میں کہیں عدالتِ عظمیٰ کی الماریوں میں گم کر دی گئی ہے کہ انصاف ہو تو صرف سویلینز کا، ممنوع علاقہ کے مکینوں تک رسائی کے لئے منصفوں میں دم خم کہاں؟ اور پھر جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو چند مہینوں میں ہی ’’سیکورٹی رسک‘‘ قرار دے کر اور گند اُڑا کر عدلیہ ہی کی مدد سے نکال باہر کیا گیا تھا تو یہی نواز شریف تھے جنہوں نے شادیانے بجائے تھے اور بے نظیر نے کہا تھا کہ ’’میاں صاحب، ایک دن آپ ضرور پچھتاؤ گے اور روگے۔‘‘ بدقسمتی سے یہ دونوں وزرائے اعظم دو متحارب روایتوں کے اسیر تھے اور ایسے ٹکرائے کہ مقتدر قوتوں کا کھیل آسان ہو گیا۔ انہیں عوام بار بار منتخب کرتے رہے اور ’’بندوق و ہتھوڑے‘‘ چلتے رہے۔ اور اس لئے بھی کہ اب نوا ز شریف کو عوامی طاقت کا ایسا نشہ چڑھا کہ وہ واقعی وزیراعظم ہونے کے قالب میں ڈھل گئے اور اپنی ہی سوچ کے مالک و خود مختار۔ وہ اس زعم میں مبتلا ہو گئے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور یہی بھٹوز کا رزمیہ تھا جو اُن کے تاریخی المیے کا سبب بنا۔ بس اب جمہور محاذ مکمل تھا اور ایک ہی روز میں ضیاء الحق کی 58-2(b) کی قاتل شق کو دونوں پارٹیوں نے آئین سے نکال باہر کیا۔ یہ لگا کہ اب صدارتی محل کا ڈنک نکل چکا اور وزیراعظم اور اسمبلیاں محفوظ ہو گئیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ فوجی سازش کے سرغنہ جنرل مشرف کی جگہ نیا آرمی چیف کمان سنبھالتا، پھر سے مارشل لاکی آفت آن ٹوٹی اور نواز شریف اور اُن کے خاندان کو بدترین ابتلاؤں کا نشانہ بننا پڑا۔ اور جنرل مشرف دو بار آئین شکنی کے باوجود عدلیہ و انتظامیہ کی آنکھوں کے سامنے سلامتی کے سایوں میں دیارِ غیر سدھارا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف جلاوطنی میں اپنے اپنے زخم چاٹ رہے تھے تو انھیں چارٹر آف ڈیموکریسی یا میثاقِ جمہوریت کی سوجھی۔ کاش! یہ دونوں پارٹیاں اس پر قائم رہتیں اور ایک دوسرے کو گرانے کے لئے ’’بندوق اور ہتھوڑے‘‘ کا سہارا نہ لیتیں۔ میموگیٹ پر میاں صاحب عدالت جا پہنچے اور وزیراعظم گیلانی کی سزا کے طلبگار ہوئے۔ اب پیپلز پارٹی تو تائب ہو چکی تھی اور میاں صاحب کی حکومت کی فرینڈلی اپوزیشن کہلائی۔ نواز شریف وزیراعظم ہاؤس کی لیمپ پوسٹ پر لٹکائے جا چکے ہوتے، اگر پیپلز پارٹی اور دیگر تمام پارلیمانی جماعتیں جمہوریہ کے دفاع میں پارلیمنٹ کی چھت تلے جم کر کھڑی نہ ہوئی ہوتیں۔ جس دبے قدموں کے فوجی کُو کے خدشات تھے، وہ پارلیمنٹ کی یکجہتی کے آگے ڈھیر ہوا۔ اس کے باوجود کہ عمران خان اور قادری صاحب دھرنے دے دے کر ہلکان ہو چکے تھے، اُنگلی اُٹھتی اُٹھتی جیب میں چلی گئی۔ کاش! یہ جمہوری ایکتا جمہوریہ کو مضبوط تر کرنے کے کام آتی۔ لیکن ایسا نہ ہوا اور پی ایم ایل (این) میں ضیا کی باقیات ابھی بھی پرانی روش پہ قائم تھیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے باوجود سندھ میں مرکز نے جو کیا تو وفاقیت کی چولیں تو ہلنی ہی تھیں۔ پھر جب آصف علی زرداری نے اسلام آباد کی پریس کانفرنس میں مقتدر قوتوں کو جو چیلنج دیا تھا، وہ اس اُمید اور یقین دہانی پہ تھا کہ وزیراعظم ہاؤس اُن کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ مگر ایسا نہ ہوا!؟ اعلانِ جنگ اُلٹا زرداری صاحب کے گلے پڑ گیا۔ اُنھوں نے باہر جانے میں عافیت چاہی۔ پھر کیا تھا ہر طرف خوف اور وزیراعظم کہیں کونے میں دبکا ہوا۔ اپیکس کمیٹیوں نے صوبے سنبھالے اور سویلین اقتدار فقط نالی موری تک محدود ہو گیا۔ اور جب وزیراعظم کو خطے میں امن و تعاون کا خیال آیا بھی تو اُن کے ہوش اُڑانے کو ڈان لیک کی اُشکل کافی تھی۔ وزیراعظم کو اپنے نہایت معتمد ساتھیوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ مسئلہ تو سپہ سالار کی توسیع سے انکار بھی بہت گلے پڑنا تھا اگر شاہ کی آفر نہ آ گئی ہوتی۔
اٹھارہویں ترمیم کے وقت بھی دونوں پارٹیاں جنرل ضیاء الحق کی باقیات بشمول 62-63 کو 1973ء کے آئین سے نکالنے پر راضی تھیں، لیکن ہمارے دوست مولانا فضل الرحمان اس ’’کفر‘‘ کے لئے تیار نہ تھے۔ (اب کیوں چیخ رہے ہیں حضرت! آپ بھی تیار رہیں، میاں نواز شریف بھی جو اسے بھگت رہے ہیں) مگر اب دیر ہو چکی تھی۔ انتخابی دھاندلی کے غبارے اور دھرنے سے جان چھوٹی ہی تھی کہ پانامہ لیکس کا سکڈ میزائل سیدھا وزیراعظم ہاؤس پہ آن گرا، بس پھر کیا تھا چور چور، احتساب احتساب کا ایسا شور مچا کہ حکومت منہ دکھانے کو نہ رہی۔ اور اُترے مردِ میدان عمران خان احتساب کا پھریرا لہراتے۔ بات تو چلی تھی اربوں روپے کے ڈاکوں سے جو شریفوں نے مبینہ طور پر قومی خزانے پہ ڈالے تھے، ان کا نام و نشان نہ ملا تو پانامہ لیکس ہی کو غنیمت جانا گیا۔ پارٹیوں کی آپسی لڑائی نے پارلیمنٹ میں احتساب کا راستہ نہ نکلنے دیا اور کچھ ہچکچاہٹ کے بعد اُتری میدان میں عدالتِ عظمیٰ۔ اس سے برآمد ہوئی نہایت خاص قسم کی جے آئی ٹی۔ چالیس برسوں پہ پھیلے بڑے میاں صاحب کے خلیج میں بہت سے بے نام کھاتوں کا سراغ نہ تو سراغرسانوں کے ہاتھ آیا، نہ مدعیوں کو کوئی ڈھنگ کا جواب سوجھا۔ بے لاگ احتساب کی تان اگر ٹوٹی بھی تو بیچارے اقامہ کے پرمٹ پر اور عدلیہ نے جو تاریخی فیصلہ کیا ہے اُس کی بھی تان پانامہ کی بجائے اقامہ پہ ٹوٹی۔ وزیراعظم کے بیٹے کی ایک بند کمپنی کے کھاتے میں دس ہزار درہم کی کاغذی تنخواہ کے ممکنہ اثاثے کی بنیاد پر عدالتِ عظمیٰ نے کاغذاتِ نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر ملک کے وزیراعظم کو فارغ کر کے گھر بھیج دیا۔ کیا انصاف کا تقاضا نہیں تھا کہ دیگر ریفرنسز کی طرح اقامہ کا ریفرنس بھی احتساب عدالت کو بھیج دیا جاتا؟ کہتے ہیں فیصلے تو آسمانوں پہ لکھے جاتے ہیں۔ لیکن جو نظیر قائم کر دی گئی ہے کون ہے جو اُس سے بچ پائے گا۔58-2(b) کی طرح کی ایک اور غضبناک بلا اب کتنوں کو کھائے گی۔ سب خیر منائیں اور عمران خان بھی بی بی کی نواز شریف کو دی گئی بددُعا یاد کریں کہ شاید خان صاحب کو بھی رونا پڑے۔ احتساب کو فقط اسٹنٹ بنا دیا گیا ہے، جو فقط حکومتیں گرانے کے کام آتا ہے۔ اور کرپشن کا پورا نظام دن دُگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہے گا اور اُسے کوئی نہیں روکے گا کہ سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ ہماری سیاست کا یہ بندر تماشا آخر کب ختم ہوگا؟
ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
آخر کب دیکھیں گے؟ جس کا کہ وعدہ تھا!

تازہ ترین