• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کے عدالتی فیصلے کے پاکستان کےمستقبل کی سیاست پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس فیصلے سے دو روایات برقرار رہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کوئی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا ہے اور دوسری یہ کہ پاکستانی عدلیہ کے فیصلوں پر بحث جاری رہے گی۔ یہ بھی امر واقعہ ہے کہ آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 ماضی میں بنائے گئے منتخب نمائندوں کی نااہلی کے قوانین سے زیادہ خطرناک ہیں۔ ان میں پروڈا ( پبلک اینڈ ری پریزنٹیٹو آفسز ڈس کوالیفکیشن ایکٹ )، 1949، ایبڈو ( الیکٹڈ باڈیز ڈس کوالیفکیشن آرڈر ) 1959 اور پوڈو ( پبلک آفس ڈس کوالیفکیشن آرڈی ننس ) 1962 وغیرہ شامل ہیں۔ آئین میں آرٹیکلز 62 اور 63 جنرل ضیاء الحق نے شامل کیے تھے، جن کی اشیرباد اور سرپرستی سے میاں محمد نواز شریف سیاست میں آئے تھے۔
پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے البتہ یہ تاثر ختم ہو گیا ہے کہ پنجاب کے وزیر اعظم کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی لیکن جن لوگوں نے یہ تاثر پیدا کیا تھا، وہ اس فیصلے کے اثرات کا اندازہ لگائیں تو انہیں احساس ہو گا کہ پاکستان کس طرف جا رہا ہے۔ اگر پنجاب کے انتہائی طاقتور سیاست دان کے خلاف یہ فیصلہ آ سکتا ہے، جو طویل عرصے تک پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا منظور نظر رہا ہو تو ان لوگوں کو بھی اپنی خیر منانی چاہئے، جو پاکستان کے مقتدر حلقوں کے عتاب میں رہے ہیں یا مقتدر حلقوں کے منظور نظر نہیں رہے ہیں۔ پاناما کیس میں میاں محمد نواز شریف کو آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کا اطلاق کرتے ہوئے جس بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا، اس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ مذکورہ آرٹیکلز کا اطلاق کبھی بھی اور کسی پر بھی ہو سکتا ہے اور اس کے اطلاق کی وسیع تر بنیادیں موجود ہیں۔ پروڈا، ایبڈو اور پوڈو سیاست دان بھول جائیں گے۔ ماضی کے نااہلی والے قوانین کا شکار وہ سیاست دان ہوئے تھے، جنہوں نے اپنا تن، من اور دھن تحریک پاکستان میں لگا دیا تھا اور وہ دولت بنانے یا کرپشن کرنے کے کسی تصور سے بھی واقف نہیں تھے۔ اس وقت جو سیاست دان ہیں، وہ زیادہ تر جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور کی پیداوار ہیں، جنہیں پیپلز پارٹی اور دیگر جمہوری قوتوں کے خلاف کھڑا کیا گیا اور ان پر احتساب کے ہر قانون کو حرام قرار دیا گیا۔ انہیں دولت جمع کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی اور ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات قائم کراکے سرد خانے میں ڈال دیئے گئے تاکہ وہ مقتدر حلقوں کی ڈکٹیشن سے باہر نہ جا سکیں۔ میاں نواز شریف کے بارے میں عام تاثر یہ رہا ہے کہ انہوں نے دولت کے لیے سیاست کی اور سیاست کے لیے دولت جمع کی۔ پھر پیپلز پارٹی کے اندر سے بھی یہ آوازیں آنے لگیں کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ دولت مند سیاست دانوں کا مقابلہ کرنا ہے تو دولت جمع کی جائے۔ پھر سب اسی دوڑ میں لگ گئے اور آج جو بھی سیاست دان ہیں، انہیں آرٹیکلز 62 اور 63 کے دائرے میں لانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ پروڈا، ایبڈو اور پوڈو نے قیام پاکستان کے بعد کے سیاست دانوں کی دو نسلوں کا خاتمہ کیا، جو دیانت دار تھیں اور جس نے اپنا سب کچھ اس ملک کے لیے قربان کر دیا تھا۔ مذکورہ قوانین سے زیادہ خطرناک آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کی زد میں وہ سیاست دان ہیں، جو حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، مولانا بھاشانی، مولانا عبیداللہ سندھی کی اخلاقی جرات اور کردار کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ پاکستان میں احتساب کا عمل شروع ہو چکا ہے اور اب پاکستان کرپشن سے پاک ہو جائے گا، یہ ان کی خواہش ہو سکتی ہے لیکن ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ میاں نواز شریف کے خلاف کرپشن کے متعدد ریفرنسز اور مقدمات پہلے اسی طرح عدالتوں میں زیر التوارہے، جس طرح اس وقت جنرل پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ سرد خانے میں پڑا ہوا ہے۔ پاکستان میں عدلیہ کے کردار کے بارے میں اس طرح کے سرد خانے میں پڑے ہوئے مقدمات پہلے بھی سوالات پیدا کرتے رہے تھے اور اب بھی یہی سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ بلا امتیاز احتساب کی منزل پتہ نہیں کب حاصل ہو گی لیکن میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کے بعد سیاست دانوں کے خلاف آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کے تحت کارروائی کا راستہ کھل گیا ہے۔ اگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پروردہ اور پنجاب کے انتہائی بااثر اور طاقتور سیاست دان کے خلاف محض اس بنیاد پر کارروائی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی ایک بیرون ملک کمپنی میں رسمی چیئرمین تھے۔ انہوں نے اس ملک کا اقامہ لیا ہوا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ تنخواہ نہیں لیتے تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایک اہم بات کی ہے کہ ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک بار میاں نواز شریف کو عدالت سے ریلیف ملنے پر کہا تھا کہ نواز شریف کی یہ خوشی عارضی ہے۔ کسی دن میں ( بے نظیر بھٹو ) اور میرے والد ( ذوالفقار علی بھٹو ) انہیں یاد آئیں گے۔ بلاول بھٹو نے اگرچہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے لیکن انہوں نے یہ واقعہ سنا کر عدالتوں کے کردار کے بارے میں وہی سوالات پیدا کر دیئے ہیں۔ اس مرحلے پر میاں نواز شریف بھی بلاول بھٹو سے یہی بات کہہ سکتے ہیں، جو محترمہ بے نظیر بھٹو نے میاں نواز شریف سے کہی تھی کہ بلاول بھٹو کی خوشی عارضی ہے۔ ایک دن میاں نواز شریف انہیں یاد آئیں گے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے دائرے میں کچھ مخصوص سیاست دانوں یا سیاسی جماعتوں کو اگر باہر رکھا گیا تو پاکستان میں پھر بدعنوانی اور کرپشن کا ایک نیا عہد شروع ہو گا، جو بہت طویل ہو گا، جو پاکستان کو زیادہ بحرانوں سے دوچار کرے گا۔ بڑے زیر التوا کیسوں کو کسی طرح سرد خانے میں رکھا گیا تو بحرانوں میں مزید شدت آئے گی۔ فی الحال بلاامتیاز اور وسیع تر احتساب شروع نہیں ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے پاکستان کی سیاست سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ میں تو پاکستانی سماج کو غیر سیاسی بنانے (Depoliticisation ) کا عمل دیکھ رہا ہوں۔

تازہ ترین