• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور وہی مالک الملک ہے جب بھی کسی نے اس کی بڑائی کو چیلنج کیا تو تباہ و برباد ہوا۔ ماضی کی چند مثالیں ہیں کہ فرعون نے خدائی کا دعوی کیا تو اُس کا حشر تاریخ کا حصہ بن گیا۔ آج کی صدی کی بھی چند مثالیں آنے والی صدی کے لئے تاریخ کا حصہ ثابت ہوں گی۔ بشرطیکہ ہمارے سیاستدان اور جن ممالک کے بارے میں میں نے لکھا ہے وہ سمجھیں کہ بڑا بول ہمیشہ پستی کی طرف ہی لے کر جاتا ہے۔ سب سے پہلے سلطنت برطانیہ کو ایک زمانے میں گریٹ بریٹن یعنی عظیم برطانیہ کہا جاتا تھا۔ خو د ان کی زبان میں سلطنت برطانیہ میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا یعنی اتنی بڑی سلطنت یورپ سے لے کر ایشیا،افریقہ، آسٹریلیا، کینیڈا، خلیج مشرق بعید یعنی ہر طرف برطانیہ کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ کون کہہ سکتا تھا کہ گریٹ بریٹن سکڑ کرصرف برطانیہ تک محدود رہ جائے گا۔ تمام مفتوحہ علاقے ایک ایک کرکے آزاد ملک بن جائینگے۔ اس انگلستان نے ایک جنگی جہاز بنایا تھا اس کا دعویٰ تھاکہ اس جہاز کو کوئی بھی تباہ نہیں کرسکتا۔ اس جہاز کو اُس وقت کے لحاظ سے ہر چیز سے محفوظ رکھا گیا تھا۔ یعنی اس پر بمباری کا بھی اثر نہیں ہوسکتا تھا۔ اس بحری جہاز کو صرف اس کی چمنی سے تباہ کیا جاسکتا تھا۔ انگریز کو اس جہاز پر ناز تھا مگر ایک معمولی جاپانی سپاہی نے اپنے بدن پر بم باندھ کر اس چمنی میں اُتر کر اس کو تباہ کردیا۔ تمام حکمتیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ شہنشاہ ایران کی مثال لیں کوئی سوچ سکتا تھا کہ اتنا مضبوط بادشاہ جس نے اپنی وراثت کے لئے ملکہ ثریا کو طلاق دے دی اور فرح دیباسے شادی کرلی تھی۔ مگر خود اس وارث کو ایران کی بادشاہی تو کجا ایران میں رہنے کی جگہ تک نہیں ملی اور خود شہنشاہ ایران کو مرنے کے بعد دوگز زمین بھی اس کے ملک میں نہیں ملی تھی۔ جس کو ایشیا کاپولیس مین کہاجاتا تھا۔ امریکہ کا سب سے بڑا حلیف ہونے کا دعویٰ بھی عوام کے ریلے میں بہہ گیا۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ بھی اس کو نہیں بچا سکا۔ اس امریکہ کا دوسرا حلیف صدر مارکوس فلپائن کا مضبوط ترین اور مرد آہن سمجھا جاتا تھا مگر جب عوام نے اس کے خلاف آواز بلند کی تو خود امریکہ نے اس کو تحفظ دینے کے لئے اپنا جہاز فراہم کردیا۔ جس طرح ایران کے شہنشاہ کو جہاز فراہم کیا تھا۔
33 سال سے انڈونیشیا کے مرد آہن سوہارتو جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ عوام میں بہت مقبول ہیں،نےصرف چند ماہ میں حکومت اپنے دست راست کے حوالے کردی تھی۔ بنگلہ دیش میں خود بنگلہ بندھوشیخ مجیب الرحمن اپنی ہی فوج کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ ان کا استقبال بنگلہ دیش کی تاریخ میں ان کے بعد آج تک کسی کا نہیں ہوسکا۔ جب وہ بنگلہ دیش کی سرزمین پر اترے تھے تو ڈھاکہ کی سٹرکیں انسانی سروں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ اور جب ان کو انقلابیوں نے قتل کیا تو 24گھنٹے تک ان کی لاش کو اُٹھانے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ اتنی تمہید لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں پاکستان کی سیاست سے تھوڑا بہت سبق حاصل کرنا چاہیے کہ جب قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے یہ دعویٰ کیا تھاکہ میری کرسی بہت مضبوط ہے۔ چند ماہ میںہی اللہ نے ان کے دعوے کو غلط ثابت کردیا کہ صرف اور صرف اللہ کی ذات غیر فانی ہے باقی سب کو ختم ہونا ہے۔ بھلا کوئی سوچ سکتا تھا کہ ذوالفقارعلی بھٹو جیسا مضبوط اور عقل مند سیاست دان بھی اتنی جلدی نہ صرف اپنی حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا بلکہ اپنی جان سے بھی جائے گا۔ بڑا بول ہمیشہ تنزلی کی طرف ہی لے کر جاتا ہے۔
ضیاء الحق اگر چہ ہمیشہ انکساری دکھاتے رہتے تھے مگر اندرونی طور پر وہ نہیں تھے جو اپنے آپ کو پیش کرتے تھے۔ ان کی تمام سیاست پی پی پی کو ختم کرنے میں صرف ہوگئی مگر ان کی زندگی میں جب بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں تو ان کا استقبال بھی تاریخ کا حصہ تھا۔ اسی وجہ سے جب ضیاء الحق کی موت کے بعد انتخابات ہوئے تو پی پی پی ہی کی حکومت وجود میں آئی۔ یعنی اگر آپ کسی کو غیر حقیقی طریقے سے ختم کرنا چاہیں بھی تو نہیں کرسکتے۔ روس جیسی مضبوط ترین طاقت افغانستان جیسے چھوٹے ملک کو بھی ختم نہیں کرسکی تھی بلکہ اس کو ختم کرنے کی کوشش میں اپنے ہی ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کربیٹھی تھی۔ یہ اللہ کی شان تھی کہ ایک طرف روس کی افواج تھیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی معمولی فوج تھی۔ غرور کو اللہ نے سرنگوں کرنا تھا۔ آج پھر امریکہ کو غلط فہمی ہوگئی ہے کہ وہ افغانستان کو ختم کردے گا۔ انشاء اللہ اس ملک کو اللہ کی نصرت پہلے بھی حاصل تھی اور آج بھی اللہ اس کو بچائے گا۔ امریکہ ہو یاکوئی بھی طاقت اللہ کی طاقت کے آگے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
واپس اپنے ملک کی سیاست کی طرف آتا ہوں۔ نواز شریف کو اپنی دوسری حکومت پر بڑا ناز تھا کہ وہ عوام کے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ آئی ہے وہ جو چاہیں گے کر گزریں گے۔ مگر ان کے بے لگام وزراء دن رات مبینہ کرپشن میں لگ گئے تھے خود ان کا خاندان بھی اپنے آپ کو مطلق العنان سمجھ بیٹھا تھا جس کو چاہتا تھا گلے لگالیا اور جس کو چاہا نکال دیا۔ چاہے وہ عدلیہ کا سربراہ ہویا ملک کا صدر یا فوج کا اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔ ہر شخص صرف اورصرف شریف خاندان کا وفادار ہو۔ اسی رو میں ایک دن ٹی وی پر تقریر کربیٹھے کہ ان کوکوئی نہیں ہٹا سکتا وہ ان کا ٹرننگ ڈے تھا۔ اللہ کو یقینا بُرا لگنا تھا اس کی ذات کو چیلنج کرنا پھر لوگوں نے دیکھا کہ زوال شروع ہوگیا۔ ایسا زوال اللہ دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ ان کے تمام خاندان کے لئے پاکستان کی سرزمین سکڑ گئی تھی۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ خود ان کے لائے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف پر پرانا فارمولہ اتنا مہنگا ثابت ہوگا۔ ان کو ہٹانے کے بجائے خود جال میں پھنس گئے تھے۔ اور ایسے پھنسے کہ نہ رو سکتے تھے نہ ہنس سکتے تھے نہ اپنے ملک میں آسکتے تھے نہ جاسکتے تھے۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ان کی راتیں کیسی گزری ہوں گے۔ پھر نواز شریف کو 10سالہ جلاوطنی کاٹنے کے بعد اللہ نے دوبارہ اُن کو پاکستان بھیجا اور جہاں پرویز مشرف نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ فوج پی پی پی کو اور مسلم لیگ کو کبھی اقتدار میں نہیں آنے دیگی۔ مگر اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ الیکشن ہوئے اور پیپلز پارٹی نے مرکز اورسندھ میں جبکہ میاں نواز شریف صاحب نے پنجاب میں حکومتیں بنائی۔ صدر آصف علی زرداری نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ 5سال جمہوری حکومت کے پوری کئے۔ اور پرویز مشرف کو سیاست سے بے دخل کیا اور آج وہ خود باہر نواز شریف کی طرح رہ رہے ہیں۔ پھر 2013ء کے الیکشن میں میاں نواز شریف صاحب کو تیسری مرتبہ مرکزی حکومت ملی۔ ان 4سالوں میں نواز شریف حکومت نے بہت کوشش کی کہ جو انہوں نے الیکشن میں وعدے کئے تھے کہ لوڈ شیڈنگ ختم کرینگے پاکستان کو قرضوں سے نجات دلائینگے مگر 4سال گزرنے کے باوجود حالات جوں کے توں ہیں۔ پہلے عمران خان نے نواز شریف حکومت کو گرانے کے لئے طویل ترین دھرنا دیا مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ پھر عمران خان نے 35پنکچر کا واویلا شروع کیا چند حلقوں میں دوبارہ انتخابات بھی ہوئے۔ مگر کامیابی نہ حاصل کرسکے پھر اُس کے بعد اچانک پانامہ لیکس کا سلسلہ چل نکلا اور عمران خان کے ہاتھ ایک نیا ایشو آگیا۔ عمران خان نے اُس کا پہلے عوام میں خوب چرچا کیا پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اور آخر کا ر عمران خان کامیاب ہوگئے اور آج عدالت نے میاں نوازشریف اور اُن کے رفقاکو تمام عمر کے لئے سیاست سے آئوٹ کردیا۔

تازہ ترین